گزشتہ چند برسوں کی سیاست میں کچھ ہوا یا نہیں مگر لفظ ’بیانیے‘ اور ’ایک صفحے‘ کا سیاسی لغت میں اضافہ اور پھر بھرپور استعمال ضرور ہوا۔ اس سے قبل سیاست میں موقف ہوتا تھا، مناظرہ یا پھر منشور مگر دور حاضر نے منشور کو بیانیے اور نظریے کو موقف سے بدل دیا۔
موقف اور بیانیے نے کبھی مفاہمت، کبھی مصالحت اور کبھی ہم آہنگی کو جنم دیا تو کبھی ’خاموشی کی زبان‘ کو۔۔۔ اور یوں مصلحت اور ’خاموش پیغام‘ مفاہمت کے نام سے جانیں جانے لگے۔
نواز شریف صاحب کو عدلیہ جمع اسٹیبلشمنٹ جمع تحریک انصاف نے حکومت اور سیاست سے منفی کیا تو پہلی بار نون لیگ کی جانب سے ’مجھے کیوں نکالا‘ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کا پرچار سُنا۔
’سویلین بالادستی‘، ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ گونجا اور سیاسی لغت کے یہ نئے الفاظ میڈیا اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی سول سوسائٹی کو متاثر کیے بنا نا رہ سکے۔ یوں یہ سیاسی فیشن کا حصہ بنے اور ایسے ایسے لوگ ان الفاظ کا بے دریغ استعمال کرنے لگے جو خود مارشل لاؤں کی آغوش میں پلے تھے۔
بہرحال جی ٹی روڈ پر بریکیں لگیں اور جرنیلی سڑک پر جرنیلوں کے خلاف سیاست کا نئی طرح سے آغاز ہوا۔ اس سے قبل پنجاب سے باہر سیاسی جماعتیں اس طرز کے بیانیوں پر سزا بھگت چکی تھیں مگر شاید آج بھی یہ حق صرف پنجاب تک ہی محدود سمجھا گیا ہے۔
میاں نواز شریف نے انتخابات سے قبل جنرل فیض کے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی نشاندہی کی اور انتخابات کے بعد جرنیلی سڑک پر جنرل باجوہ کے گھر کے سامنے اُنھیں للکارا تو واویلا مچ گیا۔ جماعت کے کئی لوگ سٹیج سے نیچے چلے آئے، چند نے منہ لپیٹ لیے اور کچھ پتلی گلی سے نکل لیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی خائف اور نون لیگ کے صدر بھی پشیمان۔
یوں لگا کہ جی ٹی روڈ پر انقلاب آ چکا مگر یہ حالات چند ہفتے ہی برقرار رہے، بیانیے کے ترازو میں مفادات کا بوجھ ڈالا گیا اور ترازو جنرل باجوہ کے حق میں ہی جھُک گیا۔ جنرل باجوہ کی توسیع کے تاریخی ووٹ سے مزاحمتی سیاست کا انجام اور مصالحتی سیاست کا آغاز ہوا۔
یہی حال دیگر جماعتوں کا بھی تھا۔ مقتدرہ کے آسمان پر بدلیوں میں چھپے انقلابی سورج کمپرومائزز کو مصالحانہ سیاست قرار دیتے رہے جبکہ عوام بیانیوں کی دھوپ چھاؤں دیکھتے رہے، کبھی ایک خاموش تو کبھی دوسرا چُپ۔۔۔ کبھی مفاہمت آگے تو کبھی مزاحمت، کبھی اینٹی تو کبھی پرو۔ میرا جنرل میری مرضی، میری سیاست میرا بیانیہ۔۔۔
عوام مہنگائی میں پس گئے، ترقی کی شرح گھٹ گئی، تقریباً دس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، فکر روزگار، فکر معاش بے روزگاروں کے کلیجے کھا گئی مگر سیاست مصلحت اور مفادات کے نرغے میں رہی۔ نظریے بیانیوں کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ عوام کی نبض سے سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہٹتا چلا گیا۔
سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہو گا کہ اب بات بیانیوں سے نہیں بنے گی بلکہ معاشی پروگرام اور ایجنڈا عوام کو دینا پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مداخلت نے ملک کو ناقابل یقین نقصان پہنچایا مگر ساتھ ہی اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ عوام کو فریب سے نکال کر سچ بتایا جائے، حقائق سے آگاہ کیا جائے اور عوام کے دباؤ کو سیاسی نظام کے تابع کیا جائے ورنہ انتخابات انتشار کو جنم دے سکتے ہیں جسے روکنے کے لیے سیاسی راہنماؤں کو عوام میں اُترنا ہو گا۔
ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف پرواز بھرنے کو تیار ہیں اور وہ بھی شہباز کے سامنے۔۔۔ مگر میاں صاحب یاد رکھیں کہ وہ ایک ایسے پاکستان میں واپس آ رہے ہیں جو 2018 سے یکسر مختلف ہے۔
نون لیگ کا گڑھ پنجاب اور پنجاب کی جرنیلی سڑک اب جرنیلوں کے لیے بھی ایک چیلنج بن رہی ہے۔ معیشت ڈراؤنے خواب کی مانند آنکھوں کی تعبیریں لوٹ رہی ہے یا یوں سمجھیے کہ سیاست اب معیشت کی محتاج ہے۔
سیاست کے تقاضے مختلف ہو چکے ہیں، رنگ بدلتے بیانیے اب اپنے رنگ بچا لیں تو بڑی بات ہوگی۔ نوجوان ووٹر تبدیلی کے اب خواب تو نہیں دیکھتا مگر روایتی سیاست سے متنفر ضرور ہو چکا۔ خاندانی سیاست کی پذیرائی اب ممکن نظر نہیں آتی۔
نون لیگ کے پاس شاید یہ آخری موقع ہے کہ اب اُن کے لیے گلیاں سُنجیاں ہو رہی ہیں اور رانجھے کو راضی کرنے کی کوششیں بھی شد و مد سے جاری ہیں۔ سیاسی حریف اپنی جان بچانے کی کوششوں میں ہیں اور عمران خان منظر سے غائب۔
عمران خان سیاسی حقیقت ہیں آج نہیں تو کل اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح یوٹرن لے سکتی ہے۔ اگر لبھی کی راندہ درگاہ نون لیگ قبولیت کے پیمانے پر آ سکتی ہے تو تحریک انصاف کیوں نہیں؟
سوچ سمجھ کر بیانیہ بلکہ منشور اور پروگرام دیجیے۔ موقع اور مرضی سے بنائے گئے بیانیے کی گنجائش اب کم ہے۔