دلی کے فوجی ہیڈکوارٹر میں کام کرتے محمد اکبر علی نے اپنے بیٹے محمد ضیاالحق کو ایک سوانح عمری کے مطابق ’اسلامی طرزِ زندگی میں ڈھالا تھا۔‘
صحافی ڈینس ہیویسی نے اسی سرکاری سوانح عمری کے حوالے سے لکھا ہے کہ ضیا نے دِلی کے سینٹ سٹیفنز کالج میں تعلیم حاصل کی جہاں ’اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتے، روزے رکھتے اور مسلمان نوجوانوں کو دین کی خدمت کے لیے متحرک کرتے تھے۔‘
یہ ضیاالحق وہی ہیں جنھیں بعد میں پاکستان کی فوج اور سنہ 1977 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا سربراہ بننا تھا۔
اسی کالج سے پڑھنے والے انڈیا کے سابق سفارتکار اور وزیرِ خارجہ کنور نٹور سنگھ اپنی کتاب ’پروفائلز اینڈ لیٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سینٹ سٹیفنز کالج، دِلی نے دو سربراہان مملکت پیدا کیے۔ دونوں مسلمان تھے۔¬
’ایک (انڈیا کے صدر) فخر الدین علی احمد جنھوں نے سنہ 1947 میں پاکستان ہجرت نہیں کی۔ دوسرے لیفٹیننٹ ضیا الحق کا متوسط خاندان جو سنہ 1947 کے آخر میں جالندھر سے پاکستان چلا گیا۔‘
یہ کہانی پاکستان بننے سے پہلے کی ہے۔
ضیا سینٹ سٹیفنز کے بعد ڈیرادون میں انڈین ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے۔ مئی سنہ 1945 میں کمیشن ملا۔ یوں کہہ لیں کہ ضیا ہندوستان کی آزادی سے پہلے کمیشن حاصل کرنے والے آخری افسران میں سے تھے۔
دوسری عالمی جنگ چھ سال سے چل رہی تھی۔
ہیروشیما اور بعد میں ناگاساکی پر ایٹم بم حملہ ہوا تو 15 اگست 1945کو شہنشاہ ہیروہیٹو نے جاپان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔
سنہ 1942 سے دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک جاپان کے قبضے میں تھی۔ یہاں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کو قبول کروانے اور یورپی اور یوریشیائی جنگی قیدیوں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے برطانوی ہندوستانی افواج کو بھیجا گیا۔
ادھر جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے فوری بعد 17 اگست 1945 کو انڈونیشیا کے صدر سوکارنو اور نائب صدر ہاٹا آزادی کا اعلان کر چکے تھے مگر نیدرلینڈز پھر سے انڈونیشیا پر حکمران ہونا چاہتا تھا۔ یوں انڈونیشیا، مبصرین کے مطابق ’ایک بھڑوں کا چھتا تھا جس میں برطانوی ہندوستانی افواج داخل ہو رہی تھیں۔‘
یونیورسٹی آف انڈونیشیا سے منسلک پیٹر کیری نے لکھا ہے کہ 25 اکتوبر 1945 کو بریگیڈیئر جنرل اوبرٹن والٹر سدرن ملابی کی قیادت میں چار ہزار ہندوستانی فوجی سنگاپور سے سورابایا پہنچے۔
’ضیاالحق برما میں ’آپریشن کیپیٹل‘ اور ملایا (ملائشیا) میں ’آپریشن زِپر‘ میں حصہ لینے کے بعد 23ویں انڈین ڈویژن کے ساتھ جاوا (انڈونیشیا) آئے۔‘
مغربی اور وسطی جاوا میں متحرک ہونے والی اس ڈویژن کے کمان دار میجر جنرل ڈی سی ہاتھارن تھے۔
ضیا کے بیٹے اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے سابق رکن محمد اعجاز الحق نے ان کی سوانح عمری ’شہیدِ اسلام جنرل محمد ضیا الحق‘ میں اس تعیناتی پر مختصر طور پر یہی لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگِ کے دوران میں صدر ضیا نے برما، ملا یا (ملائیشیا) اور جاوا (انڈونیشیا) کے محاذوں پر دادِ شجاعت دی۔‘
خاص طور پر ضیا کی انڈونیشیا میں تعیناتی کے حوالے سے میں نے اعجاز الحق سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے والد نے ان سے ذاتی طور پر تو ذکر نہیں کیا مگر ایک بیرونی دورے میں اس پر تفصیلی بات کی تھی۔
اعجاز الحق نے اسلام آباد سے فون پر ہوئی بات میں نومبر 1982 میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور کے اس دورے کا بتایا، جس میں وہ صدر ضیا کے ساتھ تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھے یاد ہے کہ سنگاپور میں اپنے ایک خطاب میں انھوں نے بڑا تفصیلی ذکر کیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی کون سے ساحل پر اترے تھے۔‘
’اس کے علاوہ اپنے تجربات بھی انھوں نے بیان کیے تھے، کون ساتھی تھے، کون سی جگہ تھی اور میرا خیال ہے ایک جگہ کا دورہ بھی انھوں نے کیا تھا جہاں ان کی تعیناتی رہی تھی۔‘
میں نے انٹرنیٹ پر بہت ڈھونڈا، اس دورے کی تصاویر اور مشترکہ اعلامیوں کی تفصیلات تو مل گئیں لیکن اس تقریر کا متن نہ مل سکا، ورنہ کچھ تفصیل میسر آ جاتی۔
انڈونیشیا کی آزادی کے لیے لڑنے والوں نے برطانوی فوج کو ’دشمن‘ جانا
آزادی کے اعلان کے بعد انقلابی تحریک تیزی سے زور پکڑ رہی تھی اور اس تحریک کے ارکان نے برطانوی ہندوستانی افواج کو نیدرلینڈز کا ساتھی جانا۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار نتالیا لاسکوِسکا نے لکھا ہے کہ سورابایا، مشرقی جاوا میں سرخ پل کے قریب 30 اکتوبر 1945 کو ملابی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
’ملابی لڑائی میں نہیں بلکہ ایک ایسے انڈونیشائی نوجوان کے ہاتھوں مارے گئے جس کا مقصد کسی بھی ایسے شخص پر حملہ کرنا تھا جسے وہ ظالم کے طور پر دیکھتا تھا۔ اندھا دھند تشدد جو اس کے نتیجے میں ہوا اس نے انڈونیشیا کی آزادی کی جدوجہد کا رخ بدل دیا۔‘
’ملابی کے قتل پر مشتعل، ہندوستانی فوجیوں نے سب سے پہلے انڈونیشیائیوں کے خلاف تشدد میں حصہ لیا۔ انھوں نے اسے شروع نہیں کیا مگر آگ کا جواب مزید آگ سے دیا۔‘
’مقدس جنگ‘
دِلی سے چھپنے والے انگریزی روزنامے ڈان میں بٹاویا، انڈونیشیا سے خبر چھپی کہ انڈونیشیا کی حکومت نے کل رات (12 نومبر) کو اسلام کانگریس کے اجلاس کے بعد چار ریڈیو پیغامات کے ذریعے نوآبادیاتی محکومیت کے خلاف ’مقدس جنگ‘ کا مطالبہ کیا۔
اسی خبر میں لکھا تھا کہ اسلام کانگرس کی اپیل مکہ کے وفود حج عرفات، لندن میں عرب لیگ کے سیکریٹری اعظم بے اور مسٹر ایم اے (محمد علی) جناح اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں کے نام کی گئی تھی۔
ہندوستان کو بھیجے گئے پیغامات میں انڈونیشیا کے خلاف ہندوستانی فوجیوں کے استعمال کو روکنے کے لیے اپنی بہترین کوششوں کی اپیل کی گئی تھی۔
نو آبادیاتی ہندوستان میں ان فوجیوں کے استعمال کے خلاف پہلے ہی سے سخت غم وغصہ تھا۔
بانی پاکستان نے اصغر خان کو انڈونیشیا جانے سے روکا
ڈان ہی کی خبر تھی کہ (دریں اثنا، جیسا کہ بمبئی سے رپورٹ کیا گیا) مسٹر ایم اے جناح نے آج نومبر 12، کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں برطانوی حکومت سے پر زور مطالبہ کرتا ہوں کہ انڈونیشیا میں مزید ہندوستانی فوجیوں کو استعمال نہ کیا جائے اور جو فوجی تعینات ہیں انھیں فوری طور پر واپس بلایا جائے۔‘
بانی پاکستان محمد علی جناح نے بعد میں پاکستان ایئر فورس کے پہلے اور سب سے کم عمر سربراہ بننے والے اصغر خان کو بھی اس جنگ سے گریز کا مشورہ دیا۔
محمد تقی کی تحقیق ہے کہ اصغر خان رائل انڈین ایئر فورس میں پائلٹ تھے۔ انھوں نے برما کے محاذ پر جاپانیوں کے خلاف ایک ہوائی ٹکڑی کی کمان کی تھی۔
’وہ انڈونیشیا کے صدر سوکارنو کی دعوت پر ولندیزی (ڈچ) استعمار (امپیریلزم) کے خلاف لڑنے جکارتہ جانا چاہتے تھے مگر جب اس بابت انھوں نے محمد علی جناح سے مشورہ کیا تو انھوں نے اس نوجوان افسر کو اپنی توجہ اور توانائی پاکستان کی جانب مبذول کرنے کا کہا۔‘
برطانوی کمانڈروں نے بھی احتجاج کیا
رچرڈ میکملن نے اپنی ایک کتاب میں بتایا ہے کہ کچھ برطانوی کمانڈروں نے بھی احتجاج کیا۔
انھوں نے نان کمیشنڈ افسران کے ایک گروپ کے برطانوی سیکرٹری خارجہ ارنسٹ بیون کو لکھے گئے ایک خط کے حوالے سے بتایا کہ ’لندن میں اپنی حکومت کے برعکس، یہ افسران ہالینڈ کی نوآبادیاتی حکمرانی کے حامی نہیں تھے۔ وہاں پہنچنے پر انھوں نے لوگوں کی حالت زار دیکھی: ’سب ہی ننگے پاؤں، بہت سے چیتھڑوں میں ملبوس اور خوفناک لاعلاج بیماریوں میں مبتلا، بانس کی اونچی جھونپڑیوں میں رہتے، زمین ان کا فرش۔‘
’ندی نہر نہانے، رفع حاجت اور کپڑے دھونے کے کام آتی، یہ سب قصبے کی نظروں کے سامنے۔۔۔ (اور) ڈچ کہتے ہیں کہ یہ ایک ماڈل کالونی ہے!‘
میکملن لکھتے ہیں کہ اس خط کا جواب نہیں دیا گیا۔
برطانوی ہندوستانی فوجی آزادی کی لڑائی میں ساتھی بنے
بہرحال، نتالیا لاسکوسکا کے مطابق اپنی دو سالہ تعیناتی کے دوران برطانوی فوجیوں نے کبھی ڈچ کا ساتھ دیا کبھی انڈونیشیائیوں کا۔
’انھوں نے غیر جانبدار رہنے کا عہد کیا تھا لیکن ان کے ایک ہزار سے زیادہ فوجی کبھی نہیں لوٹ سکے۔ ان میں سے زیادہ تر برصغیر سے آئے تھے۔‘
آئی گیڈ واہیو وکاکسنا کی تحقیق ہے کہ جکارتہ میں ایک عرصے سے رہنے والے ہندوستانی مسلمان زرستان خان نے وہاں جانے پر مسلمان فوجیوں کو ’جنگ آزادی‘ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
’اگرچہ مسلمان فوجیوں کو مقامی ریڈیو نشریات سننے کی اجازت نہیں تھی لیکن وہ زرستان خان کے ہاں اس پابندی کو توڑ لیتے اور سوکارنو اور دیگر رہنماوں کے بیانات سنتے۔
’یہیں سے انھیں یہ علم ہوا کہ مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح نے مسلمانوں کو انڈونیشیا کا ساتھ دینے کا کہا ہے۔‘
بمبئی (اب ممبئی) کے ایک اخبار کے تراشے سے ایسے مسلمان فوجیوں کی گرفتاری کی بھی خبر ملتی ہے جنھوں نے انڈونیشیا کے لوگوں کے خلاف لڑنے سے انکار کیا تھا۔
لاسکوِسکا لکھتی ہیں کہ ’ہندوستانی فوجی انڈونیشیا کے قومی مقصد سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ہمدردی جزوی طور پر ’ڈچ مردوں اور عورتوں کی سرد مہری اور ان کے تحقیر اور ذلت آمیز رویہ‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخی کے احساس سے آئی۔‘
ہندوستانی فوج کے انحراف کی کہانی ’ہتھیاروں کا تحفہ اور کوڈ اسلام علیکم‘ میں رینڈی وائرودھا نے لکھا ہے کہ ’اتنا ہی نہیں، کئی ہندوستانی فوجیوں نے جمہوریہ انڈونیشیا کے پہلے صدر سوکارنو کو بچایا جن پر ڈچ فوجیوں نے گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔ سوکارنو بغیر چوٹ کے بچ گئے حالانکہ ان کی گاڑی تباہ ہو گئی تھی۔‘
’ضیا الحق اور ان کے ساتھیوں نے لڑنے سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ وہ جن سے لڑ رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ساتھی مسلمان ہیں۔‘
انڈونیشیا کی نیدرلینڈز سے آزادی کی جدوجہد برطانوی ہندوستانی افواج کے سنہ 1946 میں واپس آنے کے بعد بھی جاری رہی۔
آئی گیڈ واہیو وکاکسنا کے مطابق مغربی طاقتوں نے انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی تو اس ملک کے رہنما مسلم دنیا کی جانب بڑھے۔
’نائب وزیر خارجہ آگس سلیم نے مارچ 1947 میں مشرق وسطیٰ کے دورے میں ملک کو تسلیم کروانے کے لیے اس کی اسلامی شناخت پر زور دیا۔
’برطانوی حکومت کے خاتمے سے چند ماہ پہلے کانگریس کی جانب سے بلائی گئی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک انڈونیشیائی وفد نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ 23 اپریل 1947 کو مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح نے انڈونیشیا کے رہنما محمد روئم کا کراچی میں اپنے دفتر میں گرم جوشی سے استقبال کیا۔
’جناح نے روئم سے کہا کہ میں اندونیشیا میں ڈچ حکمران سے اس مسلم سرزمین پر قبضہ جاری رکھنے پر احتجاج کروں گا۔ تمام مسلمان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی میں اس کا ساتھ دیں۔
واہیو لکھتے ہیں کہ صدر سوکارنو نے بھی ذاتی طور پر جناح سے حمایت کی اپیل کی لیکن مسلم شناخت پر زور نہیں دیا۔
’تاہم جناح نے ہندوستان میں رہنے والے تمام مسلمانوں سے دعا کے لیے کہا کہ ان کے بھائیوں کو زمین پر ایسی بہتر جگہ ملے جو مغربی تسلط سے آزاد ہو۔
’انڈونیشیا کی جدوجہد کو انھوں نے جہاد اور وطنیت کا امتزاج قرار دیا۔ ان کے مطابق ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ایمان کے ایک حصے کے طور پر بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں اپنے وطن کا دفاع کرے۔‘
محمد تقی کے مطابق جب پاکستان بنا تو اصغر خان انبالہ میں چیف فلائٹ انسٹرکٹر تھے۔
’انھوں نے پاکستان جانے کے لیے ریل کی نشستیں مخصوص کروائی ہوئی تھیں مگر ان کی جگہ آنے والے انڈین ونگ کمانڈر نائر نے پاکستانی فضائیہ کے پہلے برطانوی سربراہ ائیر وائس مارشل ایلن پیری کین سے کہا کہ وہ اصغر خان کو اپنے جہاز میں پاکستان لے جائیں۔ پیری کین نے اپنا جہاز بھیج کر اصغر خان کو پاکستان منتقل کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس ریل گاڑی پر اصغر خان نے سفر کرنا تھا وہ تقسیم کے فسادات کا شکار ہو گئی اور اس کا کوئی مسافر نہ بچ سکا۔‘
’ونگ کمانڈر اصغر خان نے پاکستان آ کر پی اے ایف فلائنگ سکول رسالپور کی کمان سنبھالی۔ وہیں انھوں نے قائد اعظم کی میزبانی بھی کی۔‘
ادھر اعجازالحق کے مطابق کیپٹن ضیا الحق چراٹ، پاکستان میں سنہ 1948 میں ہونے والی ایک تقریب میں بانی پاکستان کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اس استقبال کی تصویر بھی واٹس ایپ پر شیئر کی۔
پاکستان کی ’مسلمان بھائیوں‘ کی بھر پورحمایت
پاکستان بننے کے بعد انڈونیشیا کو رسمی طور پر تسلیم کر لیا گیا اور اس کی حمایت جاری رہی۔
واہیو کے مطابق انڈونیشیا کے دوسرے یوم آزادی کو منانے کے لیے چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ بانی پاکستان نے انڈونیشیا کے ’مسلمان بھائیوں‘ کو ’ان کی آزادی برقرار رکھنے کی کوششوں پر مبارکباد‘ دی۔
انھوں نے کہا کہ طاقت کا جو کھیل فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ایوانوں میں مسلمانوں کی صرف مشترکہ آواز ہی سنی جائے گی۔‘
نیدرلینڈز کے جہاز کراچی میں روک دیے گئے
نیدرلینڈز کے جہاز انڈونیشیا جاتے ہوئے کراچی میں رکتے تھے۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے، رائل ڈچ ایئر لائنز، کے ایل ایم، نے کراچی میں ایک ہوٹل چلانا شروع کیا، جسے مڈوے ہوٹل کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر ایمسٹرڈیم اور جکارتا (انڈونیشیا) کے درمیان آدھے راستے پر تھا۔
یہاں رک کر عملہ اور مسافر آرام کرتے اور نیا ایندھن لے کر اگلی اڑان بھرتے۔ یہ ہوٹل اب بھی رمادا پلازا کراچی ایئرپورٹ ہوٹل کے طور پر موجود ہے۔
واہیو نے لکھا ہے کہ ’جناح نے نیدرلینڈز کے کچھ طیاروں کو کراچی ایئرپورٹ پر روکنے کا حکم دیا اور بعد میں پاکستانی حکومت نے ڈچ ایئرلائنز کے ایل ایم کا لائسنس بھی 23 دسمبر 1948 کو معطل کر دیا۔ یہ اس شک کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ڈچ فوج کے لیے ہتھیار انڈونیشیا بھیجے گئے۔
27 دسمبر 1949 کو نیدرلینڈز سے انڈونیشیا کو انتقالِ اقتدار کی تقریب میں شرکت کے لیے بھی پاکستانی حکومت نے اپنے ایک خصوصی نمائندے کو بھیجا۔
انڈونیشیا نے جناح کے لیے اپنے سب سے بڑے سول ایوارڈ کا اعلان کیا۔ انڈونیشیا نے پاکستان کی بہت مواقع پر مدد بھی کی۔
سوکارنو نے پاکستان پر حملے کو انڈونیشیا پر حملہ قرار دیا
محمودالحسن کی تحقیق ہے کہ اصغر خان سنہ 1945میں سوکارنو کے کہنے پر فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے انڈونیشیا تو نہ جا سکے لیکن پھر 1964 میں پاک فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے انڈونیشیا میں ان سے ملے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد 1965 کی جنگ میں بھی ایوب خان کا پیغام لے کر ان سے ملے۔
اصغر خان نے اپنی کتاب ’دی فرسٹ راونڈ: پاک و ہند جنگ 1965‘ میں لکھا کہ ’جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی دوسرے شخص نے اس نازک گھڑی میں پاکستان دوستی کا ایسا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی پرخلوص اور برادرانہ پیشکش کو پاکستان کی آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی اور اگر خود سوکارنو کے ہم وطنوں نے اسے بھلا بھی دیا تو پاکستانی قوم یہ کبھی نہیں بھولے گی کہ ہمارے ملک پر جب وقت پڑا تھا تو انڈونیشیا نے اپنے اسلحہ خانے کی کنجی ہمارے حوالے کر دی تھی۔‘
انڈونیشیا نے نہ صرف فضائی مدد کی بلکہ سمندر میں اپنی موجودگی سے بھی پاکستانی بحریہ کو حوصلہ دیے رکھا۔
اسی کتاب میں ایک جگہ بتایا کہ ’سوکارنو نے کہا کہ وہ پاکستان پر انڈیا کے حملے کو انڈونیشیا پر حملہ تصور کرتے ہیں۔‘
اور پھر مدد زبانی ہو گئی
واہیو لکھتے ہیں کہ سنہ 1971 میں انڈونیشیا نے انڈیا پاکستان تنازع کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا اور پاکستان کی خودمختاری کی زبانی اخلاقی حمایت سے بات آگے نہ بڑھی۔
افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا۔
انڈونیشیا کے صدر سوہارتو نے دسمبر 1980 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انھیں ضیا پشاور بھی لے کر گئے مگر سوہارتو نے سوویت افواج اور افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مذاکرات کے انعقاد کی اپیل کی۔ بعد میں بھی پالیسی بیانات تو مضبوط آتے رہے لیکن ان کا محور ہم مذہب افغانوں پر نہیں بلکہ ان کی ملکی خودمختاری پر حملے کی مذمت تھا۔
سنہ 1982 کے دورے میں پاکستان کے صدر ضیا نے انڈونیشیا کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ کی بات دہرائی لیکن مشترکہ اعلامیے سے پتا چلتا ہے کہ سہارتو اور ضیا نے ’افغانستان میں جاری بیرونی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔‘ دونوں رہنماوں نے ’سوویت افواج کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا تاکہ افغان عوام حق خودارادی کا استعمال کر سکیں۔‘
واہیو کے مطابق انڈونیشیا کو پتا تھا کہ افغانستان اس سے بہت دور ہے اور یہاں جاری کشمکش سے وہ متاثر نہیں ہو گا۔