یہ ایک ایسے قدیم شہر کی کہانی ہے جہاں تاریخ عظیم میناروں اور ریت تلے دبے کھنڈرات میں بکھری ہوئی ہے۔ یہاں آسمان میں بلند ہوتے صوفیا کے مزار ہیں اور وسیع قطع اراضی پر پھیلے رنگ برنگے بازار بھی۔ جنوبی قزاقستان کا شہر ترکستان قازق آرٹ اور انواع و اقسام کے پکوانوں کا مرکز ہے۔
ترکستان کے لفظی معنی ’تُرکوں کی سرزمین‘ کے ہیں۔ یہ شہر پہلی مرتبہ چھٹی صدی کے اوائل میں اُن تُرک خانہ بدوشوں نے آباد کیا تھا جو شاہراہ ریشم (سِلک روڈ) پر سفر کرتے ہوئے یہاں پڑاؤ ڈالتے تھے۔ ماضی میں یہ شہر ’شاوگر‘ اور ’یاسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے اس کا موجودہ نام 16ویں صدی میں اس وقت ملا جب یہ شہر کازاخ کانتیہ کا دارالحکومت بنا۔
آج کا ترکستان قازقوں سے لے کر ازبکوں تک ترک نسل کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی جڑیں اسلامی تاریخ سے اتنی مضبوط جڑی ہوئی ہے کہ ترک بولنے والی ریاستوں کی تعاون کونسل اسے ’ترک دنیا کا روحانی دارالحکومت‘ قرار دیتی ہے۔
دولت میلدیخانوف نے گذشتہ سات سال شاہراہ ریشم پر بطور ٹور آپریٹر اور گائیڈ کے طور پر کام کرتے گزارے ہیں جو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو ترکستان کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔
میلدیخانوف کہتے ہیں کہ ’ترکستان ایک منفرد شہر ہے، اور آثار قدیمہ پر حالیہ تحقیق اس شہر کی تاریخ دو ہزار سال سے بھی پرانی بتاتی ہے۔‘
ترکستان میں آنے والے سیاحوں کے لیے میلدیخانوف پانچ ایسے مقامات کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں آپ کو شہر کے فن تعمیرات، ثقافت، روایتی پکوانوں، تفریح کے لیے ضرور جانا چاہیے۔
شاہراہ ریشم کا بہترین نمونہ: خواجہ احمد یسوی کا مقبرہ
خواجہ احمد یسوی مشہور شاعر، فلسفی اور صوفی تھے جنھوں نے ترک دنیا میں صوفی ازم کے فروغ اور اسے پھیلانے میں مدد کی۔ سنہ1166 میں یاسوی کی موت کے بعد ان کی آخری آرام گاہ ’صوفی سلک روڈ‘ کے مسافروں کے لیے مقدس جگہ کے طور پر کام کرتی ہے۔
میلدیخانوف نے کہا کہ ’یہاں ہم 600 سال سے زائد عرصے پر محیط مسلم ورثے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دیواروں کے کچھ عرصے اپنی اصل شکل میں آج بھی محفوظ ہیں، اور یہاں تک کہ 14ویں صدی کی کچھ سجاوٹی اشیا آج بھی یہاں موجود ہیں۔‘
یہ مقبرہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے، یہ مقبرہ 38.7 میٹر بلند ہے اور اس پر فیروزی گنبد ہے جو وسطی ایشیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ اس مقبرے کو 14ویں صدی میں اس علاقے پر حکمرانی کرنے والی تیموری سلطنت کے بہترین فنِ تعمیرات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
35 کمروں پر مشتمل اس مقبرے میں قدیم فارسی پینٹنگز، ایک مسجد اور اس یادگار کے بیرونی حصے پر نصب قدیم پتھر ہیں۔ اس مقبرے کا بنیادی ڈھانچہ شاہراہ ریشم کے دور کے اختتام کے قریب بنایا گیا تھا۔
میلدیخانوف کے ساتھی، مرود نظروف نے کہا کہ ’جب شاہراہ ریشم کا زیادہ تر حصہ تاریخ میں دھندلاتا جا رہا ہے، خواجہ احمد یساوی کا مقبرہ اپنی ماضی کی شان کے ایک اہم ثبوت کے طور پر آج بھی کھڑا ہے۔‘
ایزت سلطان میوزیم
اگر خواجہ احمد یساوی کے مقبرے کی صورت میں نظر آنے والی تاریخ آپ کو مزید کچھ کھوجنے پر آمادہ کرے تو ازرت سلطان میوزیم آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ 1,235 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اور تحریری، تعمیراتی اور ثقافتی نوادرات کی ایک شاندار صف کو پیش کرتے اِس میوزیم کو قزاقستان کی قومی تاریخ کو مقبول بنانے میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اتنے بڑے رقبے پر پھیلے میوزیم کو دیکھنے کے لیے آپ کو یہاں بہت بار آنا پڑے گا، لیکن میلدیخانوف یہاں واقع چند جگہوں پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
خواجہ احمد یساوی کے مزار کے نیچے ’ہلویٹ‘ ہے۔ یہ درحقیقت خواجہ یساوی کے ہاتھ سے کھودی گئی نیم زیرِ زمین مسجد ہے جو تصوف کا گہوارہ کہلائی جاتی ہے۔ یہ مسجد خواجہ یساوی کا پرائیویٹ کمرہ ہے جسے سورج کی روشنی کی رُخ اور چار میٹر گہرائی میں کھودا گیا ہے اور اسے نماز کے معمولات کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط سے تیار کیا گیا تھا۔
یونیسکو نے اس مسجد کو ’دوسرا مکہ‘ کا نام دیا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر کے صوفی زائرین کے لیے ایک انتہائی اہم جگہ ہے اور قازق فن تعمیر کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔
میوزیم کی معروف اشیا میں سے ایک اس کے غسل خانے ہیں۔ مزار اور مسجد سے اسی میٹر کے فاصلے پر، زائرین مشرقی حمام کی اینٹوں کی دیواروں میں داخل ہو سکتے ہیں جو کہ 1580-1590 کے درمیان تعمیر کیے گئے۔
سنہ 1979 تک یہ گرم پانی کے حمام فعال تھے اور خواجہ یساوی کے مقبرے پر آنے والے زائرین وہاں جانے سے قبل یہاں غسل اور اپنے جسم کی صفائی کرتے تھے۔ اگرچہ اب یہاں غسل کے لیے گرم پانی دستیاب نہیں مگر یہ غسل خانے اب بھی میوزیم میں ایک نمائشی چیز کے طور پر موجود ہیں۔
میلدیخانوف نے ہمیں چِلّہ خانے کی دیواروں دکھائیں اور ان کی تعریف بھی کی۔ ایک گنبد نما اینٹوں کا ڈھانچہ جس میں کبھی مقدس رسومات ادا کی جاتی تھیں اور آج بھی صرف مقامی گائیڈ کے ذریعے ہی اس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہاں رابعہ سلطان بیگم کا مقبرہ بھی رکنے اور دیکھنے کے لائق ایک جگہ ہے۔
بہترین تفریحی تجربہ: کاروان سرائے کمپلیکس
بعض افراد اس علاقے کو یہاں موجود ایک نہر کی وجہ سے ’قازق وینس‘ بھی کہتے ہیں مگر یہ کاروان سرائے نامی کمپلیکس ہے۔
کاروان سرائے ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہے، جو ثقافتی فخر اور مہمان نوازی کا مرکز ہے اور ترکستان میں تفریح کی ایک دنیا ہے۔ یہاں آنے والوں کو چاہیے کہ وہ رات کے وقت کشتی پر سفر کے لیے یہاں ضرور رکیں جس کے ذریعے آپ قازق رومیو اور جولیٹ کی کہانی سن پائیں گے۔
یہاں کاروان سرائے میں ایک بہت دلچسپ فلائنگ تھیئیٹر ہے جہاں آپ کسی اڑتے پرندے کی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔
قازق کھانوں کے لیے بہترین، کورنیش بازار
چاہے یہ تازگی بخش مشروب ہو یا پیٹ بھر دینے والا کھانا میلدیخانوف مسافروں کو ترکستان کے بہت سے بازاروں میں سے ایک، کورنیش بازار، پر رکنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ میلدیخانوف نے کہا کہ ’آپ کو کھانے، تازہ پھل، سبزیاں، کپڑے اور بہت کچھ یہاں مل سکتا ہے۔‘
خواجہ احمد یساوی کے مزار سے صرف 10 منٹ کی دوری پر یہ بازار قازق فن اور کھانوں کو روایتی انداز میں پیش کرتا ہے۔ مقامی دکاندار مہارت کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے اور مٹی کے منقش برتن فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منہ میں پانی بھرنے والی کھانوں کی خوشبوئیں گوشت کے لیے قزاقستان کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
میلدیخانوف نے ازراہ تفنن بتایا کہ ’یہاں قزاقستان میں لطیفہ مشہور ہے کہ [قزاقستان] گوشت کا استعمال کرنے والوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اور جب ہر کوئی پوچھتا ہے کہ پہلے نمبر پر بڑا گوشت خور کون ہے تو ہم کہتے ہیں بھیڑیا۔‘
سفر کا بہترین طریقہ: ترکستان سٹیشن
ترکستان ریلوے سٹیشن بذات خود ایک دلکش جگہ ہے، جو اپنی منفرد گول محرابی اور دلکش ٹکسال رنگ کی دیواروں کے لیے مشہور ہے۔ یہ 20 ویں صدی کے سوویت فن تعمیر سے متاثر ہے جسے قازق ٹائل کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 1864 میں یہ شہر روس کے زیر قبضہ آیا تھا۔
میلدیخانوف کے مطابق یہ ریلوے سٹیشن ترکستان میں روسی فن تعمیر کی قزاق فن تعمیر میں آمیزش کی سب سے عمدہ اور مستند مثال ہے۔ ریل کے سفر کے ذریعے سیاح ترکستان اور دیگر قریبی شہروں کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔