’بڑا خاندان، چھوٹا مکان اور بجلی کا بھاری بل۔۔۔‘ یہ پریشانی ہے وزیراں مہر کی جو صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کے رستم قصبے کی رہائشی ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی چوروں کے خلاف 7 ستمبر سے جاری آپریشن کے دوران سکھر الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے وزیراں مہر کے گھر کا بھی بجلی کا کنیکشن منقطع کر دیا تھا۔
وزیراں مہر گزشتہ سال سیلابی بارشوں سے متاثر ہوئی تھیں۔ ان کے گھر سمیت آس پاس کے علاقے میں بارشوں کا پانی جمع ہو گیا تھا۔ ابھی تک انھیں سرکاری معاوضہ نہیں مل سکا۔ دو کمروں پر مشتمل گھر میں وہ پانچ بیٹوں، دو بہووں اور سات پوتے پوتیوں سمیت رہتی ہیں۔
وزیراں مہر کا کہنا ہے کہ سیپکو نے ان کے گھر کی بجلی منقطع کر دی تھی، انھوں نے قسط کرائی اور آٹھ ہزار ادا کر کے بجلی بحال کرائی لیکن اب بھی 10 ہزار روپے بقایا ہے۔
وزیراں مہر کہتی ہیں کہ ان کا بل بہت زیادہ آتا ہے حالانکہ ’دن کو سولر بھی چلتا ہے اور رات کو صرف چار پنکھے چلاتے ہیں۔‘
’میرے بیٹے مزدوری کرتے ہیں۔ مزدوری کبھی لگتی ہے تو کبھی نہیں۔ جو بیٹا رکشہ چلاتا ہے، وہ کبھی پانچ سو تو کبھی چھ سو روپے دیتا ہے اس سے گھر چلاتے ہیں۔‘
وزیراں کے گھر میں دیوار کے ساتھ سیمنٹ کی بنی ہوئی الماری میں برتنوں کے ساتھ ادویات بھی پڑی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا جو بیٹا رکشہ چلاتا ہے اس کو ٹی بی ہو گئی ہے اور دیگر چھوٹے بچے بھی بیمار رہتے ہیں
’اگر بجلی نہیں تو بچوں کو ملیریا ہو جاتا ہے۔ دو تین بار بیمار ہوئے ہیں۔ اب دوائیں لیں یا یہ خرچے برداشت کریں۔ گرمی میں بچے ساری رات سو نہیں سکتے ہیں۔‘
بجلی اور ذہنی دباؤ
شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، جیکب آباد، سکھر ، لاڑکانہ اور شکارپور میں گرمی میں درجہ حرارت 40 سے زیادہ رہتا ہے۔ شکارپور کا شہر رستم بیس سے پچیس ہزار افراد پر مشتمل ٹاؤن کمیٹی ہے جہاں زیادہ تر لوگ غریب اور زراعت سے وابستہ ہیں۔
پروین مہر ایک غیر سرکاری ادارے میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار مڈل کلاس کے لوگوں کے ’مہینے کے پہلے 10 روز اس پریشانی میں گزرتے ہیں کہ بجلی کا کتنا بل آئیگا جبکہ اگلے 10 روز اس پریشانی میں گزرتے ہیں کہ اب اس کو کیسے ادا کیا جائے۔‘
’مڈل کلاس کے گھر میں تو ضرورت کی چیزیں چلتی ہیں، اس کے پاس چوری کا تو تصور نہیں۔ اگر خسارہ پورا کرنا ہے تو فیکٹری مالکان کو پکڑا جائے۔‘
رستم میں ہی مائی خیراں سے ملاقات ہوئی جو اپنے بل ہمارے پاس لیکر آئیں کہ اس کو کم کر دیں۔ ہم نے انھیں سمجھایا کہ ہم سیپکو کی ٹیم نہیں تو انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کا 10 ہزار روپے کا بل آیا ہے جبکہ ان کے گھر میں ’نہ فریج ہے نہ موٹر اور دن کو بھی سولر چلاتے ہیں۔‘
عبدالشکور عباسی نو شہرو فیروز میں شو روم کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس اتنی بڑی مہم کے باوجود بجلی کا تعطل برقرار ہے، اس میں بہتری نہیں آئی، الٹا جو لوگ بل ادا کر رہے ہیں ان پر سر چارج لگایا جا رہا ہے۔ بھگت پھر بھی لوگ رہے ہیں، چاہے جن کے پاس میٹر ہو یا جن کے پاس نہ ہوں۔‘
’بجلی خرید کر دے رہے ہیں‘
سکھر کے نیو پنڈ ایریا میں ایک درجن کے قریب سیپکو کے ملازمین، جن کے ہمراہ اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس بھی موجود تھی، بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر بیدریغ کنیکشن منقطع کر رہے تھے۔ ان میں چاہے غیر قانونی کنڈا ہو یا دو مہینے کا واجب الادا بل، کسی قسم کی کوئی بھی تفریق نہیں کی گئی۔
پولیس نے ہمارے سامنے تین افراد کو بجلی چوری کے الزام میں پکڑ کر گاڑی میں ڈال دیا۔ ان افراد میں شامل شہباز نے ہمیں بتایا کہ ان کی ویلڈنگ کی دکان ہے اور انھوں نے ’بل ادا کیا ہوا ہے لیکن کہا گیا کہ میٹر آہستہ چل رہا ہے۔‘
’یہ تو ان کا مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود بھی 11 ہزار کا بل آیا جبکہ پونے ایک بجے بجلی جاتی ہے اور پونے تین بجے آتی ہے، پھر جاتی ہے تو پانچ بجے شام کو آتی ہے۔ بمشکل ایک ڈیڑھ گھنٹے ہی کام کرتے ہیں۔ ہمیں خواہ مخواہ پکڑا ہے۔‘
ان کے ساتھ موجود شبیر، جو خود بھی دکاندار ہیں، کا بھی یہی موقف تھا۔ ان کہنا تھا کہ ’سیپکو حکام کہتے ہیں کہ میٹر کم چلا ہے۔ جب لائیٹ آئے گی تو ہم کام کریں گے نا۔‘
سکھر الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ماتحت شمالی سندھ کے 10 اضلاع آتے ہیں۔ حکام کے مطابق ان کی ڈیمانڈ 1000 میگاواٹ ہے۔ اس وقت بھی ان کے 177 ارب روپے بقایا ہیں۔
چیف ایگزیکٹیو سعید احمد ڈواچ کہتے ہیں کہ ’اس آپریشن کو جبری وصولی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یوٹیلیٹی سروس دے رہے ہیں جس کا مقصد جو چیز فروخت کر رہے ہیں وہ خرید کر فراہم کر رہے ہیں اور صارف کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ بل ادا کرے کیونکہ بجلی چوری جرم ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ توانائی کی بچت کرنے کے لیے حکومت نے پیکج دیا ہے جیسے 200 یونٹ مسلسل 6 ماہ آئیں تو بل 50 فیصد کم ہوجاتا ہے۔
چوری اور بقایا جات سے سالانہ 589 ارب کا نقصان
نگران حکومت نے بجلی چوری اور باقیداروں سے وصولی کے لیے آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ ہر علاقے میں چوری کی مختلف سطحیں ہیں لیکن چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سالانہ 589 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
’بجلی چوروں اور بل ادا کرنے سے انکار کرنے والوں کی وجہ سے دوسروں کو زیادہ بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جب تک یہ نہیں روکا جاتا، بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔‘
وفاقی وزیر نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور اسلام آباد میں ڈسپیچ کمپنیوں میں ریکوری نسبتاً بہتر ہے جبکہ پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور آزاد جموں و کشمیر میں ڈسکوز کو 60 فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔
چوری یا لائن لاسز
پاکستان میں بجلی کی چوری ہی بڑا مسئلہ ہے یا لائن لاسز بھی اس خسارے کی وجہ ہے؟ صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کہتے ہیں کہ نیپرا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں 343 ارب روپے کے لائن لاسز ہوئے اور ظاہر ہے کہ یہ صارفین کو ہی ادا کرنے پڑے ہیں۔
’پاکستان میں کوئلے، آر ایل این جی اور فرنس آئل سے پہلے ہی مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ دوسرا جب اس کی ترسیل کی جاتی ہے تو پاور پلانٹ سے لیکر گھریلو یا کمرشل صارف تک جاتے جاتے اس میں کافی لائن لاسز ہوجاتے ہیں جو 20 فیصد تک آ جاتے ہیں جس کا بل صارفین کو ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔‘
سیکریٹری پاور ڈویژن راشد لنگڑیال کہتے ہیں کہ ’لائن لاسز دو اقسام کے ہیں ایک وہ جو ٹرانسمیشن لائن میں ہیں دوسرے وہ جو ڈسٹری بیوشن لائن میں ہیں۔‘
’ٹرانسمیشن لائن بڑی ہوتی ہیں جو گرڈ سٹیشن تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، یعنی 500 کے وی یا 100 کے وی، اس میں بہت کم لاسز ہوتے ہیں، اندازاً ایک سے دو فیصد جبکہ زیادہ لائن لاسز ڈسٹری بیوشن لائن میں ہوتے ہیں جو 11 کے وی کی لائن جو گرڈ اسٹیشن سے، جو ٹرانسفارمر لگا ہوا ہے وہاں تک جاتی ہے۔‘
نیپرا اس کو ساڑے 11 فیصد تک قبول کرتا ہے تاہم ان کی ذاتی رائے ہے کہ اس کو سات سے آٹھ فیصد تک ہونا چاہیے۔
’جو ڈسپیچ کمپنی اچھی چل رہی ہیں جیسے گوجرانوالا الیکٹرک کمپنی اس میں لاسز کم ہیں لیکن نیپرا پشاور الیکٹرک کو 20 فیصد اور ملتان کو بارہ فیصد لاسز تک کی اجازت دیتا ہے۔‘
پاکستان بھر کی 10 ڈسپیچ کمپنیوں کے علاقوں میں حالیہ آپریشن کے دوران 17 ہزار ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں جبکہ 3 ہزار افراد کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
سیکریٹری پاور ڈویژن راشد لنگڑیال کہتے ہیں کہ صنعتوں میں بجلی کی چوری نہیں ہوتی۔ بقول ان کے ’کسی زمانے میں صنعتوں میں زیادہ چوری ہوتی تھی لیکن موجودہ وقت گھریلو اور کمرشل میں چوری زیادہ ہے۔‘
پاور ڈویژن کے مطابق بجلی چوری میں ملی بھگت کے الزام میں ایس ڈی او سے لیکر سپرٹینڈینٹ انجینیئر تک کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ سیکریٹری پاور ڈویزن کے مطابق بعض کے خلاف ایف آئی اے کو کیسز دیے گئے ہیں۔ سیپکو کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ’گھر سے احتساب کرنا ہو گا اور کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا۔‘