پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ چار اگست کو عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائے جانے کے بعد انھیں لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے صوبہ پنجاب کے سرحدی ضلع اٹک کی جیل میں کو منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم بعدازاں ان کے وکلا کی جانب سے سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیر کے روز اس ضمن میں مختصر فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد منگل کی صبح تحریری حکمنامہ جاری کیا گیا جس میں سابق وزیر اعظم کو اٹک جیل میں قید رکھنے کا نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے ان کی ضمانت پر رہائی کے حکم دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی سائفر گمشدگی کیس میں ان کی گرفتاری ڈال کر انھیں ان کو زیر حراست رکھنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ منگل (آج) کے روز سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع کی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس حوالے سے دائر کردہ درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی تھی۔ عدالت نے اپنی تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں وہ تمام سہولیات مہیا کی جائیں جس کے وہ حقدار ہیں
عمران خان کے اڈیالہ جیل پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟
اڈیالہ جیل کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو جب اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے گا تو معمول کے طریقہ کار کے مطابق ان کی منتقلی سے متعلق عدالت کا تحریری حکم چیک کیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کا اگر کوئی سابقہ میڈیکل ریکارڈ یا رپورٹ ہے تو اس کی جانچ کی جائے گی، جس کے بعد جیل میں ہی ان کا ایک تازہ میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے گا۔
جیل حکام کے مطابق جیل میں کسی بھی قیدی کی آمد پر اس کا میڈیکل ٹیسٹ کروانا لازمی ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ جیل کے قوانین کے مطابق عمران خان کو سابق وزیراعظم ہونے کی وجہ سے اڈیالہ جیل میں ’اے کلاس کیٹیگری‘ دی جا سکتی ہے تاہم اب تک اس بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے کہ انھیں جیل میں کون سی کیٹیگری میں رکھا جائے گا۔
اٹک کی جیل کے وارڈن نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ اٹک جیل میں اے یا بی کلاس کیٹیگری کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔
جیل حکام کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 42 جیلوں میں سے صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان دو جیلوں میں بہاولپور جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہے۔
یاد رہے کہ 26 ستمبر کو جاری کردہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں وہ تمام سہولیات مہیا کی جائیں جس کے وہ حقدار ہیں۔
جیل میں قیدیوں کو تین کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے۔ سی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔
بی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں تاہم اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ گریجوئیشن پاس قیدی بھی بی کلاس لینے کا اہل ہوتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اے کلاس کیٹگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وزرائے اعظم، سابق وفاقی وزرا اور ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔
اے اور بی کیٹیگری کے قیدیوں کو ملنے والی سہولیات
جیل مینوئل کے مطابق جن قیدیوں کو اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ سے بیرک دیا جاتا ہے جس کے ایک کمرے کا سائز نو ضرب 12 فٹ ہوتا ہے۔
قیدی کے لیے بیڈ، ایئرکنڈیشن، فریج اور ٹی وی کے علاوہ الگ سے باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اے کلاس کے قیدی کو جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی بھی دیے جاتے ہیں۔
جیل حکام کے مطابق اگر قیدی چاہے تو دونوں مشقتی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور اگر قیدی چاہے تو مشقتی کام مکمل کر کے اپنے بیرکوں میں واپس بھی جا سکتے ہیں۔
جیل قوانین کے مطابق جن قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے ان کو ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے تاہم اگر جیل سپرنٹنڈنٹ چاہیے تو مشقتیوں کی تعداد ایک سے بڑھا کر دو بھی کر سکتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق جن مشقتیوں کو اے اور بی کلاس کے قیدیوں کے لیے بطور خدمت گزار دیا جاتا ہے وہ معمولی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
اڈیالہ جیل کہاں واقع ہے اور اس کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟
اڈیالہ جیل دراصل سینٹرل جیل راولپنڈی ہے اور اسے اڈیالہ جیل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ضلع راولپنڈی کا ایک گاؤں اڈیالہ اس سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام اڈیالہ جیل پڑ گیا ہے۔
یہ جیل راولپنڈی اڈیالہ روڈ پر ضلعی عدالتوں سے تقریباً 13 کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں دہگل کے قریب واقع ہے اور پرانی ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی ہے۔
اسے 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیا الحق کی حکومت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
اس سے قبل راولپنڈی کی ضلعی جیل اس مقام پر واقع تھی جہاں آج جناح پارک واقع ہے اور یہ وہی جیل تھی جس میں ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دورِ حکومت میں قید رکھا گیا اور اسی جیل سے متصل پھانسی گھاٹ میں انھیں پھانسی بھی دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد آنے والے برسوں میں اس جیل کو ختم کر کے یہاں پارک بنایا گیا اور 1986میں جیل کو اڈیالہ منتقل کر دیا گیا۔
اڈیالہ جیل کا نام ہمیشہ پاکستانی سیاست میں گونجتا رہا ہے۔ یہ وہ قید خانہ ہے جہاں ملک کے تین وزرائے اعظم سمیت متعدد اہم سیاست دان قید رہ چکے ہیں اور اب عمران خان ایسے چوتھے وزیراعظم ہیں جنھیں اس جیل میں رہنا ہو گا۔
پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف دو مرتبہ اس جیل میں قید کیے گئے۔ پہلی مرتبہ 1999 میں ملک میں فوجی بغاوت کے بعد جب انھیں طیارہ سازش کیس میں سزا سنائی گئی تو اس کے بعد وہ کچھ عرصہ یہاں قید رہے اور اس کے علاوہ انھیں اٹک قلعے میں بھی قید رکھا گیا تھا۔
دوسری مرتبہ اڈیالہ جیل نواز شریف کا مسکن پانامہ کیس میں انھیں دی جانے والی سزا کے بعد بنی۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل کے علاوہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بھی قید رہے تھے۔
اس موقع پر ان کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اپنی زندگی کا کچھ وقت اڈیالہ جیل میں گزار چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی ستمبر 2004 سے 2006 تک ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ اڈیالہ جیل میں گزارا اور انھوں نے اپنے اس قیام کے دوران ایک کتاب بھی لکھی۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی مشرف دور میں اڈیالہ جیل میں قید رہ چکے ہیں جبکہ سابق شاہد خاقان عباسی بھی کچھ وقت یہاں گزار چکے ہیں۔
اس کے علاوہ موجودہ وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سعد رفیق بھی مشرف دور میں کچھ وقت کے لیے اڈیالہ جیل میں قید رکھے گئے جبکہ نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی بھی چند ماہ تک اڈیالہ جیل کے قیدی تھے۔
ان کے علاوہ سابق چیئرمین نیب سیف الرحمان، نومبر آٹھ کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری اور منی لانڈرنگ کیس میں معروف ماڈل ایان علی بھی یہاں قید کی سزا کاٹ چکے ہیں۔