باس ڈی لیڈہ کے ارمان حسرت بن گئے۔ جس جرات و مہارت کا مظاہرہ وہ کرتے چلے آ رہے تھے، بعید نہ تھا کہ کوئی تاریخ رقم کر جاتے مگر یکے بعد دیگرے ان کے سبھی ہمراہی ہمت ہارتے چلے گئے۔
حیدرآباد کی اس پچ میں احمد آباد کی سی وہ خوبی نہ تھی کہ جہاں رچن روندرا اور ڈیون کانوے جیسی بے نیاز جارحیت کارگر ہو پاتی۔ یہاں رکنے سے پہلے روکنا ضروری تھا اور قدم جم جانے کے بعد ہی بازو کھولنے کو کوئی مہلت میسر ہو سکتی تھی۔
نیدرلینڈز کی خوش بختی رہی کہ نہ صرف سکاٹ ایڈورڈز ٹاس جیت گئے بلکہ آرین دت کی آف سپن بھی بائیں ہاتھ کے پاکستانی اوپنرز کی زندگی دشوار کرتی رہی۔ ایڈورڈز کی جارحانہ حکمتِ عملی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کو دفاعی خول میں دھکیل دیا۔
فخر زمان کے لیے بری فارم کا سلسلہ تھم نہ پایا اور امام الحق کے قدم بھی کریز میں مسدود رہ گئے۔ جہاں متوقع یہ تھا کہ پاکستانی ٹاپ آرڈر پاور پلے میں نوآموز ڈچ اٹیک کے بخئے ادھیڑ ڈالے گا، وہاں جارحیت کی بجائے بقا کی جنگ پنپنے لگی۔
ایسوسی ایٹ ٹیموں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ ان کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا اور اس امر کو مہمیز تب ملتی ہے جب کپتان بھی ایڈورڈز جیسا شاطر ہو جو بولنگ میں پے در پے یوں تبدیلیاں لاتے رہے کہ حریف بلے بازوں کو کہیں بھی شناسائی کا احساس نہ ہونے دے۔
پہلے پاور پلے میں ڈچ بولنگ یوں حاوی ہوئی کہ گویا پاکستان کا مقابلہ کسی ایسوسی ایٹ سائیڈ سے نہیں بلکہ توانا اور تجربہ کار ٹیم سے ہو۔ ایڈورڈز نے اپنے بولرز سے طویل سپیل نہیں کروائے بلکہ گاہے بگاہے اٹیک میں بدلاؤ لاتے رہے کہ کہیں بلے باز ہم آہنگ نہ ہو جائیں۔
محمد رضوان مگر کبھی گھبراتے نہیں۔ صورت حال کیسی بھی ہو، وہ چست چالاک کھیل پر مہارت دکھاتے ہیں اور حریف کپتان کو سوچ میں ڈال دیتے ہیں اور جب سعود شکیل کا اتم کھیل ان کے ہمرکاب ہوا تو پاکستان کی ڈولتی ناؤ پھر سے تیرنے لگی اور مرجھاتے ڈریسنگ روم میں زندگی لوٹ آئی۔
میچ سے قبل پاکستان کے لیے یہ طے کرنا دشوار تھا کہ سعود شکیل اور سلمان آغا میں سے کس کو فوقیت دی جائے اور سعود شکیل یہاں بالکل بجا انتخاب ثابت ہوئے کہ بہرحال نہ صرف وہ ایک مکمل بلے باز ہیں بلکہ پہلے بھی سپن دوست کنڈیشنز میں سلمان آغا سے بہتر ثابت ہو چکے ہیں۔
اس پچ پر بلے بازی ہرگز آسان نہ تھی۔ جس برق رفتاری سے سعود شکیل نے رنز بٹورے، دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی بلے باز ان کی رفتار سے قدم نہ ملا پایا۔ نہ صرف رضوان کے ہمراہ انھوں نے پاکستانی بیٹنگ کو بھنور سے نکالا بلکہ ان کے سٹرائیک ریٹ نے ہی سکاٹ ایڈورڈز کو بھی مخمصے میں ڈالے رکھا۔
سعود کی سرعت انگیزی نے ہی ایڈورڈز کو تجربات پہ مجبور کیا اور ریگولر بولرز کی بجائے وہ جز وقتی اٹیک کو مائل ہوئے جس نے کھیل کی چال میں بدلاؤ پیدا کیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب جارحیت کو مائل ڈچ سائیڈ مدافعت پر مجبور ہوئی۔
نسیم شاہ کی انجری کی شکل میں جو خلا پاکستانی پیس اٹیک میں پیدا ہوا ہے، اس کو پُر کرنے کے عمل میں بہت سے مباحث نے جنم لیا۔ کچھ کے خیال میں محمد وسیم بہتر متبادل تھے تو بعضے زمان خان کے حق میں بھی آواز اٹھاتے پائے گئے اور حسن علی کی واپسی کئی سوالات کی زد میں رہی۔
مگر یہاں ابتدا میں جب شاہین آفریدی کو نہ تو نئی گیند سے کوئی سوئنگ مل پائی اور نہ ہی پچ نے ان کی تائید کی، تب حسن علی کا میڈیم پیس ڈسپلن ڈچ اوپنرز کے ارادوں میں حائل ہو گیا اور پاکستانی بولنگ اپنی بیٹنگ ہی کی طرح کے غیر متوقع ابتدائی دباؤ سے بچ نکلی۔
وکرم جیت سنگھ نے اچھی پاکستانی بولنگ کے خلاف ایک بہترین اننگز کھیلی جو ان کے تجربے میں شاندار اضافہ ثابت ہو گی۔مگر شاداب خان بہت عرصے تک سوالات کی زد میں رہنے کے بعد بالآخر فارم میں واپس آ گئے اور بالآخر ڈچ اوپنر کو جال میں پھنسا لیا۔
اننگز کے بیچ میں جب ڈچ بیٹنگ پھر سے جڑ پکڑنے لگی تو بابر اعظم نے حارث رؤف کو اٹیک میں واپس لانے کا فیصلہ کیا۔ حارث رؤف کے اس ایک اوور نے نیدرلینڈز کے عزائم میں واضح دراڑ ڈالی اور مسابقت کا خواب دیکھتی نوآموز ٹیم کے ارادے ہوا ہو گئے۔
باس ڈی لیڈہ مگر ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ جس طرح اننگز کے عین بیچ ان کی سیم بولنگ کی کاٹ پاکستان کے لئے تیکھی پڑ گئی تھی، ویسے ہی ان کی بلے بازی بھی پاکستانی بولنگ کے لئے بھرپور امتحان ثابت ہوئی۔
شومئی قسمت کہ دوسرے کنارے سے انھیں کوئی بھی ہمت ور میسر نہ ہو پایا وگرنہ کیا خبر کہ تاریخ کوئی نیا ورق پلٹ دیتی اور ڈچ کرکٹ ایک اور سنگِ میل عبور کر جاتی مگر بحیثیتِ مجموعی پورے میچ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ایڈورڈز کو بھی کوئی سعود شکیل میسر ہوتا تو سکور لائن بھلے مختلف نہ ہوتی مگر مارجن میں تفاوت اتنا وسیع نہ ہو پاتا۔