ایشیا کپ کا جب آغاز ہوا تو بہت سوں کو توقع تھی کہ ٹورنامنٹ کی 40 سالہ تاریخ میں پہلی بار شاید کوئی پاکستان، انڈیا فائنل دیکھنے کو ملے گا کہ بہرحال یہی دونوں ٹیمیں بہترین بولنگ و بیٹنگ سے لیس تھیں۔ مگر توقعات منہ کے بل گر پڑیں اور شانکا کی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔
سپر فور میں جب سری لنکا سے مقابلہ گویا سیمی فائنل سا ٹھہرا تو پاکستان تب تک فیورٹ نہیں رہا تھا کیونکہ وہاں وہ اپنی بیٹنگ اور بولنگ کے اوّلین انتخاب سے معذور تھا۔ مگر اس کے باوجود بازی آخری گیند تک چلی اور پاکستان نے جی جان سے مقابلہ کیا۔
ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کے خلاف فتح کا حلیہ اگرچہ پاکستان کی توقعات کے عین مطابق نہ تھا مگر بہرطور تین ہفتے تک فتح کے ذائقے سے محروم رہنے کے بعد یہ اعتماد کی واپسی کی سمت پہلا قدم ضرور تھا اور اس جیت میں کئی ایک مثبت پہلو موجود تھے۔
ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد مڈل آرڈر نے جس طرح اننگز کو سنبھالا دیا، وہ حوصلہ بخش تھا اور اگرچہ ڈچ بولنگ کے خلاف آل آؤٹ ہو جانا قطعاً کوئی اچھا شگون نہیں تھا مگر بہتری یہ بھی ہوئی کہ پاکستانی الیون کے سبھی بلے بازوں کو میچ پریکٹس تو میسر آ گئی۔
اور جہاں پاکستانی سپنرز ایشیا کپ کی لاحاصل جہد سے اپنے وجود پر اٹھتے سوالات سے پریشان تھے، وہاں ڈچ بیٹنگ کے خلاف نہ صرف شاداب فارم میں واپس آئے بلکہ محمد نواز نے بھی نپی تلی بولنگ سے میچ پر گرفت بنائے رکھی۔
اب جبکہ کل پاکستان اور سری لنکا حیدرآباد میں مدِ مقابل ہوں گے تو حالیہ فتح سے حاصل شدہ اعتماد کے طفیل امکانات کا پلڑا واضح طور پر پاکستان کے حق میں جھکا نظر آتا ہے۔ اور پاکستان کے فیورٹ ہونے کی مزید وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں فقیدالمثال درگت بننے کے بعد سری لنکن ٹیم فی الحال دباؤ کا شکار بھی ہو گی۔
ورلڈ کپ کا آغاز ہر ٹیم جیت کے اعتماد کے ساتھ کرنا چاہتی ہے مگر سری لنکا کو وہ اعتماد میسر نہیں آ پایا۔ اور اگرچہ چار سیمی فائنلسٹس کی مختلف پیشگوئیوں کے بیچ سری لنکا کہیں نظر نہیں آتی مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ ایشیئن کنڈیشنز میں سری لنکن سپنرز اپنا جادو جگا پائیں تو بہرطور ممکنات کو پلٹتے دیر نہیں لگا کرتی۔
حیدرآباد کی کنڈیشنز میں بھی دہلی کی سی رنز کی برسات دیکھنے کو نہ ملے گی۔ یہاں سپن کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے اور اگر پہلے میچ کے برعکس سری لنکن تھنک ٹینک نے بہتر الیون منتخب کی تو گمان یہی ہے کہ لہیرو کمارا اور مہیش تیکشنا ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
سو، نیدرلینڈز کے خلاف میچ میں بھی اگر پاکستانی ٹاپ آرڈر ڈچ سپن کے خلاف مشکلات کا شکار رہا تو دنیتھ ویلالگے کے سرپرائز فیکٹر کے علاوہ مہیش تیکشنا بھی جس قسم کا تجربہ رکھتے ہیں، وہاں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ اگر سری لنکن سپنرز پاکستانی بیٹنگ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو رہے تو بابر اعظم کے لیے دشواری بڑھ سکتی ہے۔
دوسری جانب سری لنکن بیٹنگ ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جارحیت پر مائل نظر آئے گی۔ ایسے میں اگرچہ پاکستانی پیس اٹیک پر بظاہر کوئی سوالیہ نشان نہیں کہ حسن علی کی نپی تلی میڈیم پیس ان سست وکٹوں پر جارح مزاج بلے بازوں کے لیے دامِ تزویر ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ ایشیا کپ فائنل کی ہزیمت اور پہلے میچ کی خفت آمیز شکست کے بعد سری لنکن ٹیم جس دباؤ سے نکلنا چاہ رہی ہے، پاکستان اپنا پہلا میچ جیت کر پہلے ہی اس دباؤ سے نکل چکا ہے۔
مگر دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ اس شکست میں بھی سری لنکن بیٹنگ نے جنوبی افریقی بولنگ کو کہیں نک کہیں الجھائے رکھا۔ سو، پاکستانی پیس اٹیک بھلے اپنے حصے کا بوجھ اٹھا جائے، اصل امتحان ایک بار پھر پاکستانی سپنرز کا ہی ہو گا کہ سری لنکن بلے باز سپن سے نمٹنے میں ڈچ بیٹنگ سے بہت بہتر ثابت ہوں گے اور پاکستان کی حالیہ پریشانیوں میں سپن ہی نمایاں تر رہی ہے۔