اہم خبریں

یوکلڈ ٹیلی سکوپ: کیا یہ مہم سائنس کے سب سے بڑے سوال کے جواب تلاش کر پائے گی؟

فلوریڈا سے یورپی ٹیلی سکوپ سائنس کی دنیا کے سب سے بڑے سوال کا جواب تلاش کرنے کی مہم پر روانہ ہو چکی ہے کہ کائنات کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟

یوکلڈ نامی مشن کی اس کوشش کے دوران تھری ڈی نقشہ بنایا جائے گا تاکہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی خصوصیات کا پتہ چلایا جا سکے۔

بظاہر یہ دونوں مل کر ہر اس شے کی شکل اور وسعت کو کنٹرول کرتے ہیں جو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم محققین تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں انجان ہیں۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی دونوں ہی براہ راست دیکھے نہیں جا سکتے۔

پروفیسر ازوبیل ہوک کا کہنا ہے کہ ’علم میں موجود اس بڑے خلا کی وجہ سے ہم اپنی ابتدا کی وضاحت نہیں کر سکتے۔‘ برطانیہ کی لینکاسٹر یونیورسٹی کی ماہر فلکیات کا ماننا ہے کہ یوکلڈ مشن انسان کی اس انجان مادے کے بارے میں سمجھ بوجھ کی جانب پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان بحری جہاز پر سفر پر نکلے لیکن اسے معلوم نہ ہو کہ زمین کہاں کہاں پر ہے۔ ہم کائنات کا نقشہ بنائیں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ہم کہاں فٹ ہوتے ہیں اور ہم اس مقام تک کیسے پہنچے، یہ کائنات بگ بینگ سے اتنی خوبصورت کہکشاوں تک کیسے پہنچی اور نظام شمسی کیسے بنا۔‘

ایک عشاریہ چار ارب پاؤنڈ کی لاگت سے تیار یوکلڈ فالکن نائن راکٹ کی مدد سے خلا کی جانب روانہ ہوئی جسے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور ایک مقام پر بھیجا جا رہا ہے۔

ماضی کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک انرجی پوری کائنات کی توانائی کا 70 فیصد ہے، ڈارک میٹر تمام نظر آنے والے مادے کا 25 فیصد حصہ ہے جبکہ باقی سب جس میں ستارے، گیس، سیارے اور ہم شامل ہیں صرف پانچ فیصد حصہ ہیں۔

اس 95 فیصد پراسرار حصے کو جاننے کے لیے یوکلڈ چھ سال پر محیط سروے کرے گی۔

اس کا سب سے اہم کام ڈارک میٹر کے پھیلاؤ کو جانچنا ہو گا جسے براہ راست چھوا اور محسوس نہیں کیا جا سکتا لیکن ماہر فلکیات کے مطابق یہ موجود ہے جس کا ثبوت مادے پر اس کے اثرات ہیں۔

مثال کے طور پر کہکشائیں اپنی شکل قائم نہیں رکھ سکتیں اگر ان کو کسی قسم کا سہارہ میسر نہ ہو اور اسی سہارے کو ڈارک میٹر مانا گیا ہے۔

اگرچہ اس مادے کو دیکھا نہیں جا سکتا لیکن ٹیلی سکوپ کی مدد سے اس کا پھیلاؤ ناپا جا سکتا ہے کیوں کہ دور دراز کہکشاؤں سے آنے والی روشنی اسی کی وجہ سے اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے۔ ہبل ٹیلی سکوپ کی مدد سے سب سے پہلی بار ایسی کوشش کی گئی تھی جب صرف دو سکوائر ڈگری کے چھوٹے سے حصے کو ناپا گیا تھا۔

یوکلڈ کی مدد سے آسمان کے 15 ہزار سکوائر ڈگری میں ڈارک میٹر کو ناپا جائے گا جس میں اس ٹیلی سکوپ کا مخصوص کیمرہ مدد دے گا۔

یو سی ایل کی ملارڈ سپیس سائنس لیبارٹری کے پروفیسر مارک کروپر کہتے ہیں کہ اس ٹیلی سکوپ کی مدد سے بہت بڑی تصاویر حاصل ہوں گی اور ان میں سے صرف ایک کو دیکھنے کے لیے 300 ہائی ڈیفینیشن ٹی وی درکار ہوں گے۔

دوسری جانب ڈارک انرجی یا تاریک توانائی ایک مختلف قسم کا تصور ہے۔

بظاہر یہ پراسرار طاقت کائنات کی وسعت کو تیز کر رہی ہے۔ 1998 میں تین سائنس دانوں کو اس کی دریافت پر نوبل انعام ملا تھا۔

یوکلڈ اس توانائی کی تحقیق کے لیے کہکشاؤں کے تین سمت میں پھیلاؤ کا نقشہ تیار کرے گی اور ان اشیا کے درمیان موجود خلا کو ایک پیمانے کے طور پر استعمال کیا جائے گا تاکہ وقت کے ساتھ ہونے والے پھیلاؤ کو ناپا جا سکے۔

یوکلڈ کی مدد سے زمین سے 10 ارب لائٹ سال دور تقریبا دو ارب کہکشاؤں کی پوزیشن کو ناپا جائے گا۔

سرے یونیورسٹی کے پروفیسر بوب نکول کا کہنا ہے کہ ’پھر ہم چند دلچسپ سوال پوچھ سکیں گے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کیا کائنات کی ہر سمت میں وسعت میں ایک طرح کی تیزی آئی؟ آج ہم ہر پیمائش کی اوسط نکالتے ہیں لیکن اگر وہاں کی تیزی اس انداز میں نہیں ہو رہی جیسی یہاں ہوتی ہے تو پھر؟ یہ سائنسی دریافت ہو گی۔‘

یوکلڈ کی مدد سے یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ کیا ڈارک میٹر ہے اور کیا ڈارک انرجی لیکن اس کی تحقیق موجودہ نظریات کو محدود کرنے میں مدد ضرور دے گی۔

مثال کے طور پر اس کی تحقیق سے نئی سوچ جنم لے سکتی ہے کہ ڈارک میٹر کی نمائندگی کرنے والے مادے کو کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اب تک ایسی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔

جہاں تک ڈارک انرجی کا سوال ہے، یوکلڈ سائنس دانوں کو بتا سکتی ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق خلا کی خالی جگہ میں موجود ہونے کے بجائے اس انجان طاقت کی وضاحت کشش ثقل کے کسی نئے نظریے کی مدد سے ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک نئی سائنسی دریافت ہو گی۔

پروفیسر مارک کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ ڈارک انرجی ایک پانچویں قوت ہو، کائنات کی ایک نئی قوت جو صرف بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے اور زمین پر زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتی۔‘

’لیکن یہ کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ کس حد تک پھیلے گی؟ کیا یہ ہمیشہ کے لیے پھیلتی رہے گی، بڑی سے بڑی ہوتی چلی جائے گی؟ یا یہ سب کسی دن تباہ ہو جائے گا۔‘