یوکرین کا کہنا ہے کہ خارکیو کے جنوب مشرقی گاؤں ’ہروزا‘ میں روسی افواج کے حملے کے نتیجے میں ایک آٹھ برس کے بچے سمیت کم از کم 51 لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ سب لوگ گاؤں کے ایک شخص کی آخری رسومات کے لیے جمع تھے جب مقامی وقت کے مطابق سوا تین بجے انھیں ایک روسی میزائل نے نشانہ بنایا۔
یوکرین کی وزارت دفاع کے مطابق یہ واقعہ جہاں پیش آیا وہ عام آبادی والا علاقہ تھا جہاں یوکرین کی کوئی فوجی تنصیبات نہیں تھیں۔ خارکیو کے علاقائی سربراہ اولح سنی یوباو کے مطابق یہ حملہ روس کی جانب سے کیے گئے جنگی جرائم میں ’سب سے سنگین‘ تھا۔
ان کے مطابق ہلاک والے تمام افراد اس گاؤں کے رہائشی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اِس حملے میں گاؤں کے 20 فیصد لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔ اولح کا قومی ٹی وی چینل پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ اس ’گاؤں کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ صرف ایک دہشتگرد حملے میں مارا گیا ہے۔‘
یوکرین کے وزیر داخلہ ایہور کلیمینکا کا کہنا ہے کہ اس حملے سے پورا گاؤں متاثر ہوا ہے کیونکہ ’گاؤں کے ہر گھر کے لوگ اُس جنازے میں لوگ شریک تھے۔‘
انٹرفیکس یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ جنازہ یوکرین کے ایک فوجی کا تھا۔ اس اخبار میں مقامی وکیل دمیترو چوبینکو کے بیان کے مطابق اُس فوجی کی بیوہ، بیٹا اور بہو بھی مارے گئے۔
ابتدا میں اس فوجی کو نیپرو میں دفنایا گیا تھا مگر بعد میں ان کے رشتہ داروں نے کہا تھا کہ وہ انھیں دوبارہ اپنے آبائی گاؤں میں دفنانا چاہتے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ ’اس حملے کو درندگی بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ درندے کی بھی توہین کے مترادف ہو گا۔‘
انھوں نے روس پر جان بوجھ کر اس گاؤں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب لوگ آخری رسومات ادا کر رہے تھے۔ ان کے مطابق ’یہ انجانے میں کیا گیا حملہ نہیں تھا۔‘
یوکرین کے صدر کے مطابق ’نہتے لوگوں پر کون میزائل حملہ کرے گا؟ کون؟ وہی جو سر تا پا شیطان ہو گا۔‘ کُپی اینسک ضلع، جہاں یہ گاؤں واقع ہے، گذشتہ برس فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد لڑائی میں فرنٹ لائن پر رہا ہے۔
جنگ کے آغاز پر یہ روسی افواج کے لیے ’سپلائی‘ کا مرکز تھا مگر یوکرین نے ستمبر 2022 میں کئی ماہ کی جنگ کے بعد اسے دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
روس نے ایک ایسے وقت پر اس گاؤں پر حملہ کیا ہے جب یوکرینی صدر زیلنسکی سپین میں یورپی رہنماؤں کی ایک کانفرنس میں شریک ہیں۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے اس کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ اندرونی سیاسی رسہ کشی امریکہ کی یوکرین کے لیے فوجی مدد کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کانگرس میں طے پانے والی ’بجٹ ڈیل‘ میں یوکرین کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے گئے ہیں۔
جوزپ بوریل کا کہنا ہے کہ امریکی امداد نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے کسی بھی خلا کو کوئی بھی یورپی ملک پُر نہیں کر سکے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کیا یورپ امریکہ کی طرف سے پیدا کردہ خلا کو پر کر سکے گا، یقیناً یورپ اس حوالے سے امریکہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘
جمعرات کو صدر زیلنسکی نے یورپین رہنماؤں سے مزید ایئر ڈیفنس میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دوسرے ممالک کو یوکرین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انھیں روسی جارحیت سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
امریکہ نے ایران سے ضبط کردہ گولہ باردو یوکرین کو دیا
دوسری جانب امریکہ کی فوج نے کہا کہ گذشتہ سال ایران سے پکڑی گئی تقریبا 11 لاکھ گولیاں یوکرین بھیجی گئی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں کارروائیوں کی نگرانی کرنے والی امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کا کہنا ہے کہ دسمبر میں یمن جانے والے ایک بحری جہاز سے یہ گولہ بارود ضبط کیا گیا تھا۔
یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے حال ہی میں متنبہ کیا ہے کہ جس حساب سے یوکرین گولہ بارود استعمال کر رہا، اُن کی (گولہ بارود کی) پیداواری صلاحیت اس شرح کو برقرار رکھنے کے لیے مشکل ہے۔
سینٹ کام کا کہنا ہے کہ ایرانی گولہ بارود رواں ہفتے پیر کے روز یوکرین منتقل کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گولیاں 7.62 ملی میٹر کیلیبر کی تھیں جو سوویت دور کی رائفلوں اور ہلکی مشین گنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
اگرچہ یہ تعداد اہم ہے لیکن یہ تناسب میں اب بھی اتحادیوں کی طرف سے یوکرین کو پہلے ہی فراہم گولہ بارود کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ امریکہ پہلے ہی 20 کروڑ سے زیادہ گولیاں اور دستی بم یوکرین کو فراہم کر چکا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی اسلحہ اصل میں امریکی بحری افواج نے نو دسمبر 2022 کو ’مروان 1‘ نامی ایک ایسے بحری جہاز سے ضبط کیا تھا جس پر کسی ریاست نے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔
امریکی حکومت نے جولائی میں اس گولہ بارود کی ملکیت سول ضبطی کے نام سے جانے جانے والے ایک عمل کے ذریعے حاصل کی تھی، جس کے ذریعے کسی اثاثے کو ضبط کیا جا سکتا ہے اگر اس کا مالک مجرمانہ سرگرمی میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔
اس معاملے میں یہ دعویٰ ایران کے پاسداران انقلاب کے خلاف کیا گیا تھا، جو ایرانی مسلح افواج کی ایک شاخ ہے جسے ملک کی حکومت کے تحفظ کا کام سونپا گیا ہے۔
ایک بیان میں سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ خطے میں ہر طرح سے ایران کی مہلک امداد کے بہاؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔