امریکہ کی ایک جیل میں ٹیڈ کزنسکی نامی شخص، جو ’یونا بومبر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔
امریکی حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
20 سال تک امریکی حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا 81 سالہ ٹیڈ کزنسکی ایک زمانے میں امریکہ میں دہشت کی علامت بن چکا تھا۔
1978 سے 1995 تک متعدد بم بنا کر ٹیڈ نے مختلف مقامات پر ارسال کیے جن سے مجموعی طور پر تین افراد ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوئے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ٹیڈ ایک ماہر ریاضی دان تھا جسے امریکی حکام بلاخر مونٹانا ریاست میں ایک دور دراز مقام پر موجود کیبن سے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
گرفتاری کے بعد ٹیڈ نے اپنے جرائم کو تسلیم کیا اور 1996 میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
کئی دہائیوں تک ٹیڈ اور ان کی دہشت پھیلانے کی مہم کی وجوہات امریکہ میں توجہ کا مرکز رہیں اور ان پر متعدد ڈاکومینٹریز بھی بنیں۔
گذشتہ 30 سال سے ٹیڈ امریکہ کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ حالیہ برسوں میں وہ نارتھ کیرولینا کے فیڈرل میڈیکل سینٹر بٹنر میں قید تھے۔
امریکی جیل بیورو کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ہفتے کے دن جیل کے محافظوں نے ٹیڈ کو مردہ حالت میں پایا۔ ان کی موت کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی۔
ترجمان کے مطابق ان کی زندگی بچانے کی کوشش کی گئی اور ان کو مقامی ہسپتال بھی منتقل کیا گیا جہاں ان کو مردہ قرار دیا گیا۔
ٹیڈ کزنسکی کی پرتشدد مہم
ٹیڈ کزنسکی کی پرتشدد مہم نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی وجہ سے کئی لوگ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو گئے اور امریکہ میں خطوط بھیجنے کا طریقہ بدل دیا گیا۔
ان کے جرائم کا انکشاف اس وقت ہوا جب 1995 میں انھوں نے امریکی اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز کو مجبور کیا کہ وہ ان کا ایک مضمون شائع کریں۔ اس مضمون کا عنوان ’انڈسٹریل سوسائٹی اینڈ اٹس فیوچر‘ تھا۔
ٹیڈ کزنسکی نے امریکی اخبارات کو لکھا تھا کہ اگر ان کا مضمون کسی تبدیلی کے بغیر چھاپ دیا گیا تو وہ اپنی پرتشدد مہم ختم کر دیں گے۔
ایف بی آئی اور امریکی اٹارنی جنرل نے امریکی اخبارات کو تجویز دی کہ وہ ان کا مضمون چھاپ دیں۔
35 ہزار الفاظ پر مشتمل اس مضمون میں جدید طرز زندگی پر تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے امریکی عوام بے اختیار ہو رہے ہیں۔
تاہم یہ مضمون پڑھنے کے بعد ٹیڈ کے بھائی نے ان کی شناخت کر لی اور ایف بی آئی کو مطلع کیا جو کئی برسوں سے اس نامعلوم مجرم کی تلاش میں تھے جو خطوط کے ذریعے مختلف مقامات پر بم ارسال کر رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی تاریخ میں کسی بھی مجرم کی یہ سب سے طویل تلاش تھی۔
اپریل 1996 میں امریکی حکام نے آخرکار ٹیڈ کو گرفتار کر لیا۔ وہ امریکی ریاست مونٹانا میں لنکن کے مقام کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کیبن میں رہائش پذیر تھے۔
اس جگہ سے حکام کو متعدد جرنلز، ایک کوڈ والی ڈائری، دھماکہ خیز مواد اور دو تیار بم ملے۔
ٹیڈ کے بارے میں کئی لوگوں نے یہ گمان بھی کیا کہ وہ کسی سیاسی انقلاب کا پرچار کر رہے تھے تاہم خود انھوں نے کبھی بھی انقلابی ہونے کا دعوی نہیں کیا۔
اپنی ڈائری میں انھوں نے لکھا کہ وہ انسانیت کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ انتقام کے جذبے کے تحت یہ سب کر رہے تھے۔
ان کے جرائم کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے بھائیوں نے ان کو خاندانی کاروبار سے نکال دیا۔ اس کی وجہ ٹیڈ کی جانب سے ایک خاتون ساتھی کو گالیوں سے بھرپور تحریر ارسال کرنا تھا جنھوں نے دو بار ملاقات کے بعد ان کو چھوڑ دیا تھا۔
ٹیڈ مونٹانا کے دور دراز مقام پر منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک کیبن بنایا تھا۔ اس کیبن میں بجلی یا حدت کا انتظام نہیں تھا۔
حلموں کا آغاز
ٹیڈ نے سب سے پہلے الینوئے ریاست کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جہاں ایک سال میں دو بم پھٹے جن میں دو افراد زخمی ہوئے۔
نومبر 1979 میں ایک امریکی جہاز میں بم پھٹا جس میں 16 افراد دھویں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
ان ابتدائی حملوں کی وجہ سے ایف بی آئی نے نامعلوم مجرم کو ’یونا بومبر‘ کا نام دیا کیوں کہ وہ یونیورسٹیوں اور فضائی کمپنیوں کو ہدف بنا رہے تھے۔
آنے والے برسوں میں انھوں نے 13 مزید حملے کیے جن میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں ایک کمپیوٹر رینٹل سٹور کے مالک ہیو سکرٹون، ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹیو تھامس موسر اور لکڑی کی صنعت کے لیے لابی کرنے والے گلبرٹ مرے شامل تھے۔
لیکن ایف بی آئی کے لیے ان جرائم کا نامعلوم ماسٹر مائنڈ ایک پہیلی کی طرح تھا جو ایسی کوئی نشانی نہیں چھوڑتا تھا جس سے اس کی شناخت ہو سکے۔
ایف بی آئی کا اندازہ تھا کہ ان حملوں کے پیچھے چھپا شخص کوئی سائنس دان یا مکینک ہے۔
ایف بی آئی کا اندازہ تھا کہ حملوں کے پیچھے چھپا شخص کوئی سائنس دان یا مکینک تھا
ٹیڈ کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران تھامس موسر کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے شوہر جس دن ہلاک ہوئے اس دن انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ کرسمس درخت خریدنا تھا۔
انھوں نے اس حملے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ بہت ہلکی آواز میں کراہ رہا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلیاں لٹک رہی تھیں۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ مدد آنے والی ہے۔‘
ٹیڈ نے یہ سب کیوں کیا؟
ٹیڈ کی گرفتاری کے بعد اس بات پر کافی بحث ہوئی کہ انھوں نے یہ سب کیوں کیا۔
جب ٹیڈ چھوٹے تھے تو ایک ٹیسٹ کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ ان کا آئی کیو یعنی ذہانت ایک 167 ہے اور اس کا ثبوت اس وقت ملا جب انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں صرف 16 سال کی عمر میں داخلہ حاصل کیا جس کے لیے انھوں نے دو کلاسوں کو پڑھے بغیر ہی مکمل کیا۔
ایف بی آئی کے جن حکام نے ان سے تفتیش کی ان کے مطابق وہ بلا کے ذہین لیکن دماغی طور پر عجیب شخص تھے جو ایک بہترین نامعلوم قاتل بننا چاہتے تھے۔
جیل میں ان کا انٹرویو کرنے والے ایک ماہر نفسیات کے مطابق ان کو شیزوفرینیا تھا۔
سیلی جانسن نامی ماہر نفسیات نے 47 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں لکھا کہ ٹیڈ کا خیال تھا کہ جدید سوسائٹی اور ان کا خاندان ان کو بدنام کر رہا ہے اور ہراساں کر رہا ہے۔
تاہم ٹیڈ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور جب ان کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے پاگل پن کے بنیاد پر کیس لڑنے کی کوشش کی تو ٹیڈ نے قید میں اپنی جان لینے کی کوشش کی۔
1999 میں ٹائمز میگزین کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کو کوئی دماغی مسئلہ نہیں ہے۔
’مجھے یقین ہے کہ میری ذہنی حالت بلکل ٹھیک ہے۔‘