اہم خبریں

یزیدی خواتین کی غلامی: ’میں اُن کی ذاتی ملکیت تھی، وہ جب چاہتے مجھے اُن کی بیویوں کی طرح برتاؤ کرنا پڑتا‘

نومبر 2015 میں، بہار اور اُن کے تین بچوں کو پانچویں بار فروخت کیا گیا تھا۔

وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ہاتھوں قید کی گئی اُن بہت سی یزیدی خواتین میں سے ایک تھیں جنھیں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سنہ 2014 کے اوائل میں شمالی عراق کے ضلع سنجار کے ایک گاؤں پر حملے کے نتیجے میں قید کیا تھا۔ دولت اسلامیہ عراق میں گذشتہ چھ ہزار سال سے آباد یزیدی مذہبی فرقے کے پیروکاروں کو ’کافر‘ قرار دیتے ہیں۔

بہار کا خیال ہے کہ اُن کے گاؤں پر حملے کے دوران اُن کے شوہر اور بڑے بیٹے کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہو گا اور انھیں کسی اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا ہو گا۔

بہار کو یاد ہے کہ کس طرح وہ اور اُن کے تین کم عمر بچے ایک کمرے میں قطار میں کھڑے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو اُن کے سر قلم کر دیں گے۔

اگرچہ انھیں قتل تو نہیں کیا گیا لیکن اس کے بجائے فروخت کر دیا گیا اور بہار کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب ان کی دہشت ناک کہانی کی آغاز ہوا۔

بہار کا کہنا ہے گاؤں پر حملے کے بعد وہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے قبضے میں آ چکی تھیں اور ان کی ذاتی ملکیت بن گئی تھیں اور اب انھیں بس جنگجوؤں کی خدمت کرنی تھی۔ ’جب وہ چاہتے، مجھے اُن کی بیویوں کی طرح برتاؤ کرنا پڑتا۔ وہ جب وہ چاہتے تب وہ مجھے مارتے۔‘

بہار کے مطابق ان کے بچوں کو، جن کی عمریں 10 سال سے کم تھیں، کو بھی مارا پیٹا گیا جبکہ اُن کی ایک بیٹی کے چہرے پر رائفل کے بٹ سے مارے گئے تھے۔

اس کے بعد وہ ایک ہاتھ سے دوسرے جنگجو کے ہاتھ فروخت ہوتی رہیں جبکہ ان کے چوتھے ’مالک‘ کا نام ابو خطاب تھا جو ایک تیونسی شہری تھا۔

’ہم اس کے گھر پر رہے، وہ میری خدمات مختصر عرصے کے لیے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے دو ٹھکانوں پر صفائی ستھرائی کے کام کرنے کے لیے بھی دے دیتا تھا۔ ان تمام جگہوں پر، میں کام کرتی تھی، صفائی ستھرائی کرتی اور وہ جب چاہتے میرا ریپ کر دیتے۔‘

’یہ وہ وقت تھا جب عراق میں ہر وقت فضائی حملے ہوتے رہتے تھے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے تھے، ہتھیار پکڑے ہوئے بمباری کے خوف سے چھپ رہے ہوتے تھے۔ ایک افراتفری کا عالم ہوتا تھا، یہ صورتحال کسی ڈراؤنے خواب سے بھی بدتر تھی۔‘

پھر ایک دن جب بہار اور اُن کے بچے ابو خطاب کے گھر پر تھے، تو ایک سفید کار اس گھر آئی، جس کی کھڑکیوں کے شیشے سیاہ تھے اور ڈرائیور لمبی داڑھی کے ساتھ سیاہ لباس میں ملبوس تھا، وہ دولت اسلامیہ کے بہت سے جنگجوؤں کی طرح ہی نظر آتا تھا۔

اسے دیکھ کر بہار کو احساس ہوا کہ انھیں اور اُن کے بچوں کو ایک بار پھر فروخت کیا جا رہا ہے۔ صورتحال سے مغلوب ہو کر بہار نے بچی کھچی ہمت جمع کی اور اس شخص پر یہ سوچتے ہوئے چیخ پڑیں کہ انھیں فروخت کرنے کے بجائے مار دیا جائے۔ وہ مزید برداشت نہیں کر سکتیں تھیں۔

لیکن آگے جو ہوا وہ ان کی زندگی بدلنے والا تھا۔

گاڑی میں انھیں اور بچوں کو بٹھا کر اس شخص کے گاڑی چلا دی۔ گاڑی چلاتے ہی ڈرائیور نے کہا کہ ’میں آپ کو کہیں اور لے جا رہا ہوں۔‘ بہار کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، وہ یہ بھی سوچ رہیں تھیں کہ آیا انھیں اس آدمی پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ جب وہ بے چین ہونے لگیں تو اسی دوران اس شخص نے گاڑی روکی، اور اپنے فون پر کسی کو کال کی۔

اس نے پھر فون بہار کے حوالے کر دیا۔ دوسری طرف سے آنے والی آواز ابو شجاع کی تھی، جس کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ اس نے بہت سی یزیدی عورتوں اور بچوں کو بچانے کا انتظام کیا ہے۔ ابوشجاع سے بات کر کے انھیں معلوم ہوا کہ ڈرائیور نے اگرچہ انھیں خرید لیا ہے مگر اب انھیں اور اُن کے بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

بہار کو شام میں رقہ کے قریب ایک تعمیراتی جگہ پر لے جایا گیا۔ انھیں اس مقام پر چھوڑ دیا گیا اور بتایا گیا کہ ایک آدمی آئے گا اور کوڈ ورڈ ’سید‘ کہے گا جس کے جواب میں انھیں اس کے ساتھ جانا ہو گا۔

اور ایسا ہی ہوا۔ تھوڑی دیر میں ایک شخص وہاں موٹر سائیکل پر آیا اور وہی کوڈ ورڈ بولا۔ اس کے جواب میں بہار اور ان کے تین بچوں سے کہا کہ وہ اس کی موٹر سائیکل پر سوار ہو جائیں۔ اس شخص نے کہا کہ ’سنو، ہم دولت اسلامیہ کے علاقے میں ہیں، یہاں ان کی چوکیاں ہیں، اگر وہ آپ سے کچھ پوچھیں تو ایک لفظ بھی نہ بولیں، تاکہ وہ آپ کے یزیدی لہجے کو پہچان نہ سکیں۔‘

بہار کا کہنا ہے کہ وہ شخص انھیں اپنے گھر لے گیا۔ ’وہ وہاں ہمارے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئے۔ ہم نے غسل کیا، انھوں نے ہمیں کھانا اور درد کش ادویات دیں اور کہا کہ ’اب آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں‘۔‘

ایک اور شخص نے بہار اور ان کے بچوں کی تصویریں بنائیں اور ابو شجاع کو بھیج دیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ اُن کے پاس صحیح لوگ ہیں۔ پھر اگلی صبح تقریباً تین بجے اس خاندان کو بیدار کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ دوبارہ سفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ جس شخص کے گھر وہ رہ رہی تھیں اس نے بہار کو اپنی والدہ کا شناختی کارڈ دیا اور کہا کہ اگر کوئی روک کر پوچھے تو کہنا کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہی ہیں۔

بہار بتاتی ہیں کہ ’ہم دولت اسلامیہ کی بہت سی چوکیوں سے گزرے لیکن کسی نے ہمیں نہیں روکا۔‘

آخر کار وہ شام اور عراق کی سرحد پر ایک گاؤں پہنچ گئے جہاں بہار کی ملاقات ابو شجاع اور اُن کے بھائی سے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں تباہی کے دہانے پر تھی، بس مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ 6,400 سے زیادہ یزیدی خواتین اور بچوں کو دولت اسلامیہ نے سنجار ضلع پر قبضہ کرنے کے بعد بطور غلام فروخت کیا تھا۔ مزید 5000 یزیدیوں کو قتل کیا گیا جسے اقوام متحدہ کے کمیشن نے نسل کشی قرار دیا۔

ابو شجاع، جنھوں نے بہار کی بازیابی کا انتظام کیا، وہ واحد شخص نہیں تھے جو دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا ہونے والی خواتین اور بچوں کے بارے میں فکر مند تھے۔ تاجر بہزاد فرحان نے یزیدی خواتین اور بچوں کو بچانے اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے جرائم کو ریکارڈ کرنے کے لیے ’کنیت‘ نامی ایک گروپ قائم کیا تھا۔

’کنیت‘ کو یہ اطلاع ملی کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو اغوا شدہ یزیدی خواتین اور بچوں کی آن لائن خرید و فروخت کر رہے ہیں، خاص طور پر ٹیلی گرام پر۔ بہزاد کہتے ہیں کہ ’ہم اُن آن لائن گروپوں میں جعلی ناموں سے یا دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ناموں کے ساتھ شامل ہونے لگے۔‘

عراق کے کرد علاقے میں اپنے دفتر کی دیوار پر، انھوں نے ٹیلی گرام چیٹس کے سکرین شاٹس کی طرف اشارہ کیا۔ اُن میں سے ایک انگریزی میں ہے جس میں ایک لڑکی برائے فروخت کا اشتہار ہے۔ اشتہار کی عبارت کچھ یوں تھی ’12 سالہ لڑکی، کنواری نہیں ہے مگر بہت خوبصورت ہے۔‘ شام کے علاقے رقہ میں موجود اس لڑکی کی قیمت 13 ہزار ڈالر لکھی گئی تھی۔

اس کے بعد انھوں نے مجھے اس لڑکی کی تصویر دکھائی جو لیدر کے صوفے پر پرکشش انداز میں بیٹھی تھی۔

بہزاد کا کہنا ہے کہ ان ٹیلی گرام چیٹس سے انھیں یہ تفصیلات معلوم ہوتیں کہ مغوی یزیدی خواتین کو کہاں رکھا گیا ہے۔ ’ہم وہاں کے آس پاس رہنے والے لوگوں سے رابطہ کرتے اور انھیں ان مغویوں کا پتا لگانے کا ٹاسک دیتے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اغوا ہونے والے نوجوان یزیدی لڑکوں کو تلاش کرنا آسان تھا کیونکہ انھیں عموماً گھر سے باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ ’ہم (اغوا ہونے والے افراد کے) خاندان سے بھی معلومات موصول کر کے اپنے پاس رکھتے تاکہ جب ہمارا مغویوں سے آمنا سامنا ہو تو ہم انھیں یہ ثبوت دے سکیں کہ ہم حقیقت میں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘

’جب ہم خاندانوں کو بچا رہے تھے، جیسا کہ خواتین اور ان کے بچوں کو، تو ہمارے پاس کوڈز یا سگنلز کی ایک سیریز ہوتی تاکہ ہم انھیں خفیہ زبان میں یہ پیغام پہنچا سکیں کہ ہم انھیں بچانے کے لیے وہاں موجود ہیں، اور جب وہ اکیلے ہوں تو وہ ہمیں کوڈز کے ذریعے اس بارے میں بتا سکیں تاکہ ان کے فرار میں مدد کی جا سکے۔‘

تاہم ہر مغوی کی بازیابی کا عمل مختلف ہوتا تھا۔ لیکن ہر بار ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ رقم دینے اور دولت اسلامیہ کی چیک پوائنٹس سے گزرنے اور جعلی دستاویزات کا عمل ضرور شامل ہوتا تھا۔

یزیدیوں کے لیے دولت اسلامیہ کے علاقوں میں داخل ہونے کا عمل بہت خطرناک تھا، اس لیے مغویوں کے ریسکیو کا کام سگریٹ اور شراب کے مقامی سمگلروں کے ذریعے ہوتا۔

بہزاد کہتے ہیں کہ سمگلر یہ کام پیسے کے عوض کرتے تھے۔ ’یہ اُن کا واحد مقصد تھا۔ بہت سی یزیدی لڑکیوں کو واپس خریدنے کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کیے گئے۔‘

کنیت کا کہنا ہے کہ 6,417 یزیدیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا، لیکن 3,568 یا تو فرار ہو گئے یا انھیں بچا لیا گیا۔ بہزاد نے خود 55 افراد کو بچایا، لیکن اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مائیگریشن کے مطابق تقریباً 2,700 یزیدی خواتین اور بچے اب بھی لاپتہ ہیں۔ ان میں سے بہت سے اب بھی اپنے اغوا کاروں کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔

بہزاد کا کہنا ہے کہ متاثرین کا پتہ لگانا مشکل سے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد جنگجو اور ان کے اہلخانہ دوسرے علاقوں میں بھاگ گئے ہیں۔ کچھ ترکی، عراق، شام میں ہیں جبکہ کچھ یورپ بھی گئے ہیں۔

بہزاد کا کہنا ہے کہ ایسے یزیدی بچے بھی ہیں جن کی عمر پانچ یا چھ تھی جب وہ اغوا کیے گئے تھے، اور جو اپنی زبان بالکل بھول چکے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کون ہیں۔ ’وہ اپنے یزیدی ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی بھول گئے تھے۔‘

یزیدی لوگوں کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔

یزیدیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بڑی تنظیم ’یزدا‘ کے سربراہ حیدر الیاس کہتے ہیں کہ ’یزیدی کئی صدیوں سے حملوں کی زد میں ہیں، اور مسلمانوں کے بہت سے فرقے اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یزیدیوں کو یا تو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے یا انھیں مار دیا جانا چاہیے۔‘

’اور اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ داعش کے خاتمے کے ساتھ یہ معاملہ ختم نہیں ہو گا۔‘

بہار کو دولت اسلامیہ کے جنگجووں سے خریدنے اور آزاد کروانے پر تقریباً 20 ہزار ڈالر لاگت آئی۔ اُن کی عمر اب 40 سال ہے، لیکن وہ اپنی عمر سے بہت بڑی نظر آتی ہیں۔ اُن کے سر کے سکارف کے نیچے موجود زیادہ تر بال اب سفید ہو چکے ہیں۔

وہ آزاد ہونے کے بعد گذشتہ آٹھ سال سے ایک کیمپ میں رہ رہی ہے۔ اپنے خیمے کے فرش پر ایک پتلے گدے پر بیٹھی، وہ اپنے لاپتہ کنبہ کے افراد کی تصاویر کا البم نکالتی ہیں۔

وہ حقیقت میں یہ نہیں جانتیں کہ ان کے شوہر اور بڑے بیٹے کا کیا بنا۔ اس کے ساتھ بار بار ریپ کیے جانے کے صدمے نے انھیں جسمانی اور جذباتی طور پر بہت کمزور اور بیمار کر دیا ہے۔

اُن کے بچ جانے والے بچے اب بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ بہار بتاتی ہیں کہ ان کے بچے اب بھی صدمے میں اور ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی کو مار پیٹ کے نتیجے میں کافی زخم آئے تھے۔ مگر مجھے لڑتے رہنا ہے اور چلتے رہنا ہے۔ لیکن اس وقت جس حالت میں ہم رہ رہے ہیں زندہ لاش کے ہونے کے مترادف ہے۔‘