رواں سال کے آخر میں جب کولکتہ (کلکتہ) شہر کے مسافر انڈیا کی پہلی زیر آب ٹرین میں سوار ہوں گے تو اغلب ہے کہ ان کے ذہن میں بنگال میں پیدا ہونے والے برطانوی انجینیئر کا خیال بھی نہیں آئے گا جس نے ایک صدی قبل اس شہر کے لیے ایک زیر زمین ریلوے کا تصور پیش کیا تھا جو پورا نہ ہو سکا۔
سر ہارلے ڈیلریمپل ہے نے 10.6 کلومیٹر (6.5 میل) زیر زمین ریلوے کا تصور پیش کیا تھا جس میں انھوں نے 10 سٹاپ کی تجویز پیش کی تھی اور کولکتہ کو اس کے جڑواں شہر ہاوڑہ سے جوڑنے کے لیے دریائے ہُگلی کے نیچے ایک سرنگ کی بات کہی تھی جہاں سے ریل گزرے گی۔
بہر حال ناکافی فنڈنگ اور شہر کی ارضیاتی خصوصیات کے بارے میں موجود شکوک و شبہات کی وجہ سے اس عظیم الشان منصوبہ کو کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔
اس کے باوجود اکتوبر سنہ 1984 میں کولکتہ انڈیا کا پہلا شہر بنا جہاں میٹرو ریل چلائی گئی۔ ابتدا میں یہ صرف 3.4 کلومیٹر طویل ٹریک تھا اور اس میں پانچ سٹیشن تھے لیکن یہ آج 26 سٹیشن والا 31 کلومیٹر پر محیط ایک مصروف نیٹ ورک ہے، جس میں سے نصف حصہ زیر زمین ٹریک ہے۔
اب دسمبر میں یہ میٹرو انڈیا کا پہلا زیر آب سیکشن کھولنے جا رہا ہے جو دریائے ہگلی کو عبور کرے گا۔
دریا کے نیچے جڑواں سرنگیں 520 میٹر لمبی ہیں اور یہ کولکتہ کو ہاوڑہ سے جوڑنے والی میٹرو ریل کے 4.8 کلومیٹر فاصلے کا حصہ ہیں۔ یہ ریلوے ٹریک دریا کے تلے کے 52 فٹ نیچے سے گزرے گا اور جب یہ اپنا کام کرنے لگے گا تو ہر گھنٹے ممکنہ طور پر 3,000 سے زیادہ مسافروں کو لانے لے جانے کا کام کرے گا۔
میٹرو کا یہ زیر آب حصہ مشرقی کولکتہ میں ہاوڑہ اور سالٹ لیک کے درمیان ایک طویل لنک کا حصہ ہے جو تقریباً سر ہارلے کے سنہ 1921 کے ڈیزائن کی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن سر ہارلے نے صرف ایک میٹرو لائن ڈیزائن نہیں کی تھی، انھوں نے تو کولکتہ کے لیے ایک مکمل زیر زمین ماسٹر پلان ڈیزائن کیا تھا جس کی لائنیں وسطی کولکتہ کے شمال اور دور دراز جنوب تک پھیلی ہوئی تھیں۔
انھوں نے اپنے منصوبے کی تفصیل ‘کلکتہ ٹیوب ریلوے’ نامی کتاب میں پیش کی ہے۔ یہ کلکتہ کے پیچیدہ اور احتیاط کے ساتھ مختلف رنگوں سے تیار کردہ نقشوں، مجوزہ میٹرو لائنوں کی ڈرائنگ اور ٹیوب ریل میں آنے والی لاگت کے تفصیلی تخمینوں کا ایک مربوط مجموعہ ہے۔
انجینیئر نے تمام سٹیشنوں پر ایسکلیٹرز اور پنکھے لگانے کی سفارش کی تھی۔ سر ہارلی نے لکھا: ‘ٹرینوں میں اور زیر زمین سٹیشنوں پر مناسب درجہ حرارت کو برقرار رکھنا بڑا سوال ہے اور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر کلکتہ میں سال کے مخصوص موسموں میں زیادہ درجہ حرارت کے حوالے سے۔’
جب سر ہارلے نے کلکتہ کے لیے اپنے منصوبے کا تصور پیش کیا تھا تو اس وقت لندن، پیرس اور نیویارک میں زیر زمین ریلوے پہلے سے چل رہی تھی۔
10 جنوری سنہ 1863 کو میٹروپولیٹن ریلوے نے جب لندن میں پیڈنگٹن (جسے اس وقت بشپس روڈ کہا جاتا تھا) اور فارنگڈن سٹریٹ کے درمیان زیر زمین ریل چلائی تھی تو وہ دنیا کی پہلی زیر زمین ریلوے تھی۔
اسی طرح دنیا کی پہلی زیر آب سرنگ دریائے ٹیمز کے نیچے ‘ٹیمز ٹنل’ کے طور پر جنوری سنہ 1843 میں کھولی گئی۔ اسے سر مارک برونیل اور ان کے بیٹے اسیمبارڈ نامی ایک انجینئر نے مصروف دریا کے نیچے سے سامان کے نقل و حمل کی غرض سے تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں ان کے سارے پیسے ختم ہو گئے تھے لہذا انھوں نے اسے صرف پیدل چلنے والوں کی دلچسپی کے لیے کھول دیا۔ بہر حال سنہ 1921 تک ٹیمز کے نیچے سڑک کے طور پر گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے کم از کم 10 سرنگیں کام کر رہی تھیں۔
لہذا جب سر ہارلے نے سنہ 1921 میں اسے ڈیزائن کیا تھا تو بہت حد تک کولکتہ میں ہگلی کے نیچے ایک سرنگ کی تجویز کوئی بڑی بات نہیں رہ گئی تھی۔
دریائے ہگلی کے نیچے اپریل میں ٹرائل ٹرین چلائی گئی
سر ہارلے سنہ 1861 میں مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے برطانیہ کے شہر ایڈنبرا میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور پھر وہ لندن انڈر گراؤنڈ میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے بیکرلو لائن، دی ہیمپسٹیڈ ٹیوب اور پکاڈیلی لائن پر کام کیا۔ جب برطانوی ہندوستان پر حکمرانی کرنے والی امپیریل لیجسلیٹو کونسل نے فیصلہ کیا کہ کولکتہ میں ٹیوب ریل ہونی چاہیے تو اس نے سنہ 1921 میں سر ہارلے کو یہ کام سونپ دیا۔
اگرچہ اس وقت تک کولکتہ انڈیا میں برطانوی راج کا دارالحکومت نہیں رہ گیا تھا لیکن وہ تجارت کا ایک مصروف مرکز تھا۔ ہاوڑہ میں کارخانے پھل پھول رہے تھے۔ دونوں شہروں میں کام کرنے کے لیے ہندوستان بھر سے لوگ آتے تھے۔ لیکن پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم تھی۔ اس وقت کولکتہ اور ہاوڑہ کے درمیان واحد سڑک کا راستہ دریائے ہگلی پر ایک عارضی پونٹون پل تھا۔ عام طور پر دریا عبور کرنے کے لیے کشتیاں ہوا کرتی تھیں۔ اور مشہور ہاوڑہ پل اس کے 22 سال بعد کہیں سنہ 1943 میں جا کر کھولا گیا۔
سر ہارلے نے کولکتہ میں قدم رکھے بغیر شہر کے لیے ٹیوب ریل ڈیزائن کی۔ انھوں نے ایک اسسٹنٹ کو ‘تمام ضروری معلومات حاصل کرنے اور ایسے سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے بھیجا جس سے وہ کلکتہ اور اس سے ملحقہ میونسپلٹی ہاوڑہ میں ٹیوب ریلوے کی تعمیر کے متعلق رپورٹ تیار کرنے کے قابل ہو سکیں۔’
سر ہارلے کے مجوزہ نیٹ ورک کے پہلے مرحلے میں مشرقی کولکتہ کے پڑوس میں آباد باگماری کو ہاوڑہ میں بنارس روڈ نامی جگہ سے جوڑنا تھا۔
دسمبر سنہ 1947 میں جب کہ ہندوستان آزاد ہو چکا تھا تو کلکتہ میونسپل گزٹ نے شہر کے ٹیوب ریل کے خوابوں کے خاتمے کی صفحہ اول پرخبر شائع کی تھی۔
زیر زمین ریل میں شامل اخراجات کے پیش نظر ایک میٹنگ میں ایک میونسپل کونسلر نے کہا: ‘اس میں شامل لاگت کے حوالے سے، انھوں نے سوچا کہ دریا کے اوپر ہی ریلوے پل ہونا ہی زیادہ بہتر ہے۔’ اس بارے میں بھی شکوک و شبہات تھے کہ آیا کولکتہ کی سیلاب سے جمع کردہ ‘ریتیلی، چکنی اور سست’ مٹی ہوگلی کے نیچے سرنگ بنانے کے راستے میں تو نہیں آئے گی۔
اس طرح ہندوستان کی پہلی زیر آب ریلوے کا عظیم الشان منصوبہ سرکاری طور پر دفن ہو کر رہ گیا۔
اگرچہ سر ہارلی کے ٹیوب ریل کے منصوبہ پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا جا سکا لیکن انھوں نے کولکتہ پر اپنا ایک نقش چھوڑا ہے۔ سنہ 1928 میں شہر کی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سی ای ایس سی نے ان سے کولکتہ سے ہاوڑا کے درمیان بجلی کی تاریں بھیجنے کے لیے ہوگلی کے نیچے سے ایک سرنگ بنانے کو کہا۔ انھوں نے یہ چیلنج اس شرط پر قبول کیا کہ سی ای ایس سی اس کے لیے اس ٹھیکیدار کا استعمال کرے گا جس پر انھیں بھروسہ ہے۔ سی ای ایس سی نے شرط مان لی اور سنہ 1931 میں کولکتہ کی پہلی زیر آب سرنگ وجود میں آئی۔
ہگلی کے نیچے سر ہارلی کی سرنگ آج تک زیر استعمال ہے۔ بس یہ کہ اس میں سے صرف پاور کیبلز گزرتی ہیں، ٹرینیں نہیں۔