اہم خبریں

ہسپتال میں بچی کے جھلسنے کا واقعہ: ’جب پٹیاں اُتاریں تو ٹانگیں مکمل طور پر جھلس چکی تھیں‘

’میری بیوی اور میں نے جب بہت شور کیا تو اُنھوں نے بچی ہمیں دے دی مگر اُس وقت اُس کی دونوں ٹانگوں پر پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں۔‘

یہ کیس ایک چار دن کی بچی کا ہے جس کے دونوں پاؤں جل گئے ہیں اور اس کے والدین کا دعویٰ ہے کہ بچی کے پاؤں ’انکیوبیٹر میں جلے ہیں۔‘

بچی کی پیدائش تین جولائی کو اسلام آباد میں واقع ایک نجی ہسپتال میں ہوئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بچی کے والد احسن نے دعویٰ کیا کہ جب بچی پیدا ہوئی تھی تو اُس کے دونوں پاؤں ٹھیک تھے۔ مگر ڈاکڑوں نے وزن کم ہونے کا بتا کر بچی کو انکیوبیٹر میں رکھنے کا کہا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں اگلے روز جب بچی کو لینے گیا تو ڈاکڑوں نے کہا کہ بچی کو الرجی ہو گئی ہے تو اس کو ہم نہیں دے سکتے، اُنھوں نے بچی ہمیں دینے سے منع کر دیا۔‘

جب بالآخر انھیں ان کی بیٹی واپس ملی تو اس کی ٹانگوں پر پٹیاں لپٹی دیکھ ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

پاکستان میں آئے دن یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ انکیوبیٹر میں کبھی خرابی، کھبی درجہِ حرارت زیادہ ہو جانے تو کھبی آگ لگ جانے کی وجہ سے نومولود بچے ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔

میڈیا پر خبر آنے کے بعد کبھی کیس کو دبا دیا جاتا ہے تو کھبی انکوائری کمیٹی بنا کر معاملے کو رفع دفعہ کر دیا جاتا ہے۔ رواں سال مئی میں لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں انکیوبیٹرز میں درجہِ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک بچہ ہلاک جبکہ دو بچے زخمی ہو گئے تھے۔

اسی طرح 2014 میں ایک واقعے میں انکیوبیٹر کے خراب ہونے کی وجہ سے آٹھ بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

ماں ’صدمے کی وجہ سے کئی بار بے ہوش ہو چکی ہیں‘

بچی کی والدہ مقدس اُس کو لے کر دوسرے ہسپتال پہنچیں تاکہ بچی کا علاج کروا سکیں، وہاں ڈاکڑوں نے بچی کی ٹانگوں پر سے جب پٹیاں اُتاریں تو وہ مکمل طور پر جھلس چکی تھیں۔

ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ ان کی بیٹی کو تھرڈ ڈگری برن ہو چکا ہے۔

دو دن کی بچی کے پاؤں دیکھ کر ہسپتال کے عملے نے والدین کو پولیس کو واقعے کو رپورٹ کر کے بچی کو پمز لے جانے کا کہا۔

بچی کے والد نے کہا ’میری پہلی بچی چھ ماہ کی بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئی تھی، دوسرے بچے کی مرتبہ مس کیرج ہو گیا اور دو سال بعد یہ تیسری بیٹی پیدا ہوئی تھی۔‘

دو بچے کھونے کے بعد مقدس کو اب تیسری بیٹی کی تکلیف برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔

چند دن کی بیٹی کے پاؤں دیکھ کر مقدس صدمے کی وجہ سے کئی بار بے ہوش ہو چکی ہیں۔

بی بی سی کی ٹیم جب پمز والدین سے ملنے پہنچی تو بچی کی والدہ بات کرنے کی حالت میں نہیں تھیں اس وجہ سے بچی کے والد اور تایا نے بتایا کہ ’اُنھوں نے اس بچی کے پاؤں دیکھنے کے بعد ہسپتال سے پوچھا کہ بچی جب پیدا ہوئی تو ٹھیک تھی دوسرے دن بچی کے پاؤں کیسے جل گئے۔

’ہمیں ڈیوٹی پر موجود ڈاکڑوں نے بتایا کہ انکیوبیٹر میں بلب پھٹنے کی وجہ سے بچی کے پاؤں جل گئے تھے۔ مگر کیا انکیوبیٹر میں بلب کے پھٹنے سے صرف ٹانگیں جلتی ہیں۔‘

بچی کے والدین کے مطابق ہسپتال کی انتظامیہ کی غلفت کے باعث اُن کی بیٹی کی ٹانگیں جل گئی ہیں۔ جس کے بعد انھوں نے ہسپتال کے خلاف ایف آر درج کرنے کی درخواست دی۔

بی بی سی نے جب اس نجی ہسپتال کی ڈاکٹر مدیحہ سے بات کر کے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی جو کہ اُس حادثے کے بعد موقع پر پہنچنے والے افراد میں شامل تھیں تو انھوں نے بتایا کہ ’بچی کو جب یہ حادثہ پیش آیا اُس وقت وہ انکیوبٹر میں موجود نہیں تھی۔ وہ کاٹ میں تھی۔ بار بار بجلی آنے جانے کی وجہ سے بچی کے اوپر موجود بلپ پھٹنے کی وجہ سے وہ جس شیٹ میں تھی اُس میں آگ لگ گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بچی کی ٹانگوں پر آگ کا شعلہ آ کر گرا جس کی وجہ سے اُس کا بائیاں پاؤں جل گیا۔ جب بھی کوئی جلتا ہے تو فوری یہ بتایا نہیں جا سکتا کہ برنز کس ڈگری کے ہیں، ہمیں بھی ابتدا میں یہ سیکنڈ ڈگری کا برن لگا۔‘

ڈاکڑ مدیحہ نے والدین کے اس موقف کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے والدین کو بتایا تھا کہ بچی کے پاؤں جھلس چکے ہیں۔

’ہم نے آغاز میں اُنھیں نہیں بتایا کیوں کہ ہم چاہتے تھے کہ اُن کو بیٹھا کر بتائیں کہ بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے مگر اُنھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی۔ میں نے جب ڈس چارج پیپر بنایا تو اُس پر میں نے ہیٹ برن لکھا۔‘

میڈیا پر اس خبر کے وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد کے محکمہ صحت نے مذکورہ ہسپتال کی این آئی سی یو اور آپریشن ٹھیٹر کو سیل کر دیا ہے جبکہ پولیس نے بھی ہسپتال سے وقوعہ کے وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔

ڈاکڑ مدیحہ نے بتایا کہ اُنھوں نے پولیس کو تمام ثبوت فراہم کر دیے ہیں جس میں جلنے ولی شیٹ، بلب کے ٹکڑے بھی شامل ہیں۔

پولیس نے بچی کے والدین کو ہسپتال انتظامیہ اور غفلت کرنے والے ڈاکڑوں کے خلاف کارروائی کا یقین کروایا ہے۔

پیمز کے این آئی یو سی میں موجود بچی کی حالت کے بارے میں باتے کرتے ہوئے چائلڈ سپیشلسٹ محمد طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچی کی ٹانگیں شدید جل چکی ہیں۔ اُس کی ٹانگوں پر کٹ لگا کر فلوئڈ کے باہر آنے کی جگہ بنائی گئی ہے اور بچی کو سیپسس (انفیکشن) بھی ہو گیا ہے۔‘

’بچی کی ٹانگوں کو کاٹنے سے بچانے کے لیے ابتدائی طور پر یہ عمل کیا گیا ہے، کیونکہ ٹانگ کی نسیں بھی جل چکی ہیں۔ ابھی بچی کی آکسیجن بھی کم ہو چکی ہے اور اس کی ٹانگیں بھی نیلی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔‘

نوزائیدہ بچوں کو انکیوبیٹر میں کیوں رکھا جاتا ہے؟

اس واقعے کے بعد کئی لوگ یہ سوال کر رہیں کہ اگر ایک بچہ نارمل پیدا ہوا ہے تو اس کو انکیوبیٹر میں کیوں رکھا جاتا ہے اس بارے میں ہم نے ڈاکڑ طارق سے جاننے کی کوشش کی۔

ہم اکثر سنتے ہیں کہ بچے کو انکیوبیٹر میں رکھا گیا ہے، یا کچھ دن کے لیے بچہ انکیوبیٹر میں رکھا جائے گا۔

ڈاکڑ طارق کے مطابق نارمل بچے کو ابتدا میں دو سے تین گھنٹے کے لیے انکیوبیٹر میں رکھا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچے کے تمام اعضا کام کر رہے ہیں اور بچہ ٹھیک ہے۔

انکیوبیٹر ایک ایسی مشین ہے جس کے مخصوص درجہ حرارت میں بچے کو رکھا جاتا ہے۔ ’ایک بچہ اگر ساتویں ماہ میں پیدا ہوا ہے تو پری میچور بچے کو 32 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ اُس کے اعضا مکمل طور پر بن سکیں۔ اس سے کم درجہِ حرارت پر بچے کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔‘

ڈاکر طارق کا کہنا ہے اس کے علاوہ جب کسی بچے کو انفیکشن ہوجائے یا پھر کسی بھی طرح کی بیماری کا شبہ ہو تو ایسے میں بچے کو انکیوبیٹر میں رکھا جاتا ہے۔

کیا انکیوبیٹر میں درجہِ حرارت زیادہ ہونے سے بچے جل سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکڑ طارق نے کہا کہ انکیوبیٹر میں زیادہ سے زیادہ درجہِ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔

’انکیوبیٹر کے درجہِ حرارت میں بچہ جل نہیں سکتا، جب کسی بھی بچے کو انکیوبیٹر میں رکھا جاتا ہے تو جو درجہ ِحرارت سیٹ کیا جاتا ہے اس سے زیادہ ہونے پر انکیوبیٹر میں لگا آلارم بجنا شروع ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکڑ طارق نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ شارٹ سرکٹ، یا دوسری کسی خرابی کی صورت میں انکیوبیٹر میں آگ لگ سکتی ہے۔