وہ 18 جون 2023 کی ایک عام سی اتوار کی شام تھی۔ دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر ‘فاردز ڈے’ منایا جا رہا تھا جبکہ کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے لیے معمول کے مطابق عقیدت مند جمع تھے کہ اچانک پارکنگ کے حصے سے فائرنگ کی آواز آنا شروع ہو گئی۔
کینیڈا کی پولیس کے مطابق دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے ایک شخص کو نشانہ بنایا اور ان پر پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔ پولیس نے مرنے والے شخص کی شناخت گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کے طور پر کی۔
کینیڈا کی سکھ برادری میں ان کے قتل پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے ‘سیاسی قتل’ قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
جولائی کے اوائل میں لندن، میلبرن اور سین فرانسسکو میں بھی اس قتل کے خلاف انڈین حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے کیونکہ مظاہرین کا خیال ہے کہ ہردیپ کی موت کا ذمہ دار انڈیا ہے۔
تین ماہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے قاتلوں کا تو پتا نہیں چل سکا لیکن ان کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے بارے میں مستقل الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
بہرحال پیر کو ٹھیک تین مہینے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جب ان کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کینیڈا سے انڈیا کے سفارتکار کو رخصت کر دیا تو یہ معاملہ بین الاقوامی سطح کی حیثیت اختیار کر گیا۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ‘کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں غیر ملکی حکومت کا کسی طرح بھی ملوث ہونا ناقابل قبول ہے اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ان بنیادی اصولوں کے منافی ہے جن کے ذریعے آزاد، کھلے اور جمہوری معاشرے اپنے آپ کو چلاتے ہیں۔‘
جبکہ اس سے قبل حال ہی میں دارالحکومت دہلی میں اختتام پزیر جی 20 کے سربراہی اجلاس میں انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم مودی نے ’کینیڈا میں انتہا پسند عناصر کی بھارت مخالف سرگرمیوں کو جاری رکھنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’وہ علیحدگی پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور انڈین سفارت کاروں کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہے ہیں، سفارتی احاطے کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور کینیڈا میں انڈین کمیونٹی اور ان کی عبادت گاہوں کو دھمکا رہے ہیں۔‘
ہردیپ سنگھ نِجر انڈیا کو کئی کیسوں میں مطلوب تھے کیونکہ وہ انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست کے حامی تھے اور وہ دنیا بھر میں اس کی حمایت میں آن لائن ریفرینڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔
نجر نے ایک آزاد سکھ ریاست خالصتان کے لیے تحریک چلائی تھی اور جولائی سنہ 2020 میں انڈیا نے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا اور ان کی گرفتاری کے لیے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔
انڈیا کے ان الزامات کو نِجر نے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کینیڈا میں پلمبنگ کا کام کرتے ہیں لیکن انھیں وہاں لوگ سکھ رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔
کینیڈا کی ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے مطابق انھیں ’ٹارگٹڈ شوٹنگ میں قتل‘ کيا گيا۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ کینیڈا کی انٹیلیجنس ایجنسی نے ان کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔
انڈیا کی ریاست پنجاب میں تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک پرتشدد خالصتان علیحدگی پسند تحریک نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
انڈیا میں وہ تحریک اب بظاہر دم توڑ چکی ہے لیکن اس تحریک کے زیادہ تر حامی بنیادی طور پر بیرون ملک آباد پنجابی ہیں اور کینیڈا میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر کون تھے؟
ہردیپ سنگھ نِجر کا تعلق انڈین ریاست پنجاب کے جالندھر ضلع کے گاؤں بھرا سنگھ پورہ سے تھا۔ انڈین حکومت کے مطابق نِجر علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے اور خالصتان ٹائیگر فورس کے ماڈیول ارکان کو آپریشن، نیٹ ورکنگ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے میں سرگرم تھے۔
پنجاب حکومت کے مطابق نیشنل انوسٹیگشن ایجنسی (این آئی اے) نے جالندھر کے پھیلور سب ڈویژن میں ان کے آبائی گاؤں بھرا سنگھ پورہ میں واقع نجر کی کل 11 کنال 13.5 مرلہ اراضی میں ضبط کر لی تھی۔
پنجاب میں نجر کی جائیدادیں 2020 میں ان کی آن لائن مہم ’سکھ ریفرنڈم 2020‘ کی وجہ سے ضبط کی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ آن لائن مہم کی جانب سے ایک علیحدہ سکھ ریاست خالصتان کے لیے سکھ فار جسٹس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔
نجر سنہ 1997 میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا آنے کے بعد کبھی انڈیا واپس نہیں گئے لیکن ان کے والدین کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے پہلے آبائی گاؤں ضرور آئے تھے۔ نجر شادی شدہ تھے اور انھوں سوگواروں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی اہلیہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔
انڈیا کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے الزام عائد کیا تھا کہ نجر مبینہ طور پر سنہ 2013-14 میں خالصتان ٹائيگر فورس (کے ٹی ایف) کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے کے لیے پاکستان گئے تھے۔
تارا کو سنہ 2015 میں تھائی لینڈ سے گرفتار کر کے انڈیا لایا گیا تھا۔
ایجنسی کے مطابق نجر کا تعلق انڈیا میں کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس سے بھی تھا۔ نجر کو حال ہی میں آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔
نجر پر الزامات
این آئی اے نے نجر پر 10 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔
پنجاب پولیس کے مطابق نجر کا نام اس مطلوبہ فہرست میں شامل تھا جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے سنہ 2018 میں انڈیا کے دورے پر آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو پیش کی تھی۔
دسمبر 2020 میں این آئی اے کے ذریعہ درج ایف آئی آر میں بھی نجر کا نام شامل تھا جب پنجاب اور دیگر ریاستوں کے کسان دہلی میں زراعت سے متعلق تین وفاقی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مستقل احتجاج کے بعد یہ قوانین واپس لے لیے گئے۔
این آئی اے نے اس ایف آئی آر میں کئی سکھ کارکنوں کا نام لیا تھا۔
ان میں ہردیپ سنگھ نجر، گروپتونت سنگھ پنوں اور پرمجیت سنگھ پما شامل تھے۔
ان پر لوگوں میں خوف پیدا کرنے، لوگوں میں مایوسی پیدا کرنے اور انھیں انڈیا کے خلاف اکسانے اور بغاوت کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
وینکوور پوسٹ کے مطابق سنہ 2016 میں حکومت ہند نے نجر پر ہندوستان میں ایک ہندو پجاری کے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ انڈین میڈیا رپورٹس نے سنہ 2007 میں پنجاب کے ایک سینما ہال میں ہونے والے بم دھماکے سے بھی انھیں منسلک کیا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وینکوور پوسٹ کے مطابق نجر نے پوسٹ میڈیا کو بتایا تھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں 1997 سے یہاں رہ رہا ہوں۔ میں ہندوستان واپس نہیں گیا۔ نجر گذشتہ سال پوسٹ میڈیا کے رپورٹر کم بولان کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’میں ایک پلمبر ہوں اور گرودوارے کے لیے سخت محنت کر رہا ہوں۔ میں ایک کمیونٹی سرونٹ ہوں، ٹھیک ہے؟‘
یہاں تک کینیڈین اخبار کے مطابق انھوں نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو خط لکھا تھا اور ان پر زور دیا تھا: ’میرے خلاف انڈین حکومت کے من گھڑت، بے بنیاد، فرضی اور سیاسی طور پر متاثر الزامات کو ختم کریں۔‘
حال میں وفات پانے والے خالصتان کے حامیان
ہردیپ سنگھ نجر کا قتل رواں سال 18 جون کو کینیڈا کی ریاست برٹش کولمیبا کے شہر میں ہوا۔
اوتار سنگھ کھنڈا برطانیہ میں خالصتان تحریک کے حامی کارکن اور وارث پنجاب دے کے سربراہ امرت پال سنگھ کے قریبی ساتھی تھے۔ وہ رواں سال 15 جون کو برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ کھنڈا کی موت کی اصل وجہ کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
اسی سال مئی میں یہ خبریں آئیں کہ خالصتان کے حامی پرمجیت سنگھ پنجوار کو مبینہ طور پر پاکستان کے شہر لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ وہ انڈیا میں سب سے زیادہ مطلوب مجرموں میں سے ایک تھے۔ تاہم ان کی موت کی کبھی سرکاری تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پرمجیت سنگھ کا تعلق پنجاب کے ضلع ترن تارن کے گاؤں پنجوار سے تھا۔ وہ سنہ 1986 میں خالصتان کمانڈو فورس میں شمولیت سے قبل سینٹرل کوآپریٹو بینک میں کام کرتے تھے۔ ان کی آخری دعائیہ تقریبات ان کے آبائی علاقے پنجاب میں ادا کی گئی۔
ملک اور شریک ملزم عجائب سنگھ باگری کو سنہ 2005 میں طیارہ اغوا کرنے اور 1985 کے دو بم دھماکوں سے متعلق سازش کرنے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا جن میں 331 لوگ مارے گئے تھے۔
رپودمن ملک کا تعلق علیحدگی پسند تنظیم ’ببر خالصہ‘ سے تھا۔ ان کا نام حکومت ہند نے بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا۔ انھوں نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی تھی۔
فروری سنہ 2022 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے پہلے ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا جس میں سکھوں کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
ملک کے خط میں بی جے پی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے مختلف سکھ نواز اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا تھا جن میں 1984 کے فسادات کے مقدمات کو دوبارہ کھولنا بھی شامل تھا۔
واضح رہے کہ سکھ علیحدگی پسند تحریک کو ختم کرنے کے لیے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جو بلیو سٹار نامی آپریشن شروع کیا تھا اس کے نتیجے میں انھیں ان کے ہی دو سکھ باڈی گارڈ نے انھی کی رہائش گاہ پر انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ملک گیر سطح پر سکھ مخالف فسادات دیکھے گئے تھے اور ہزاروں جانیں تلف ہوئی تھیں۔