اہم خبریں

ہتھیاروں سے بھرے ’التانیا‘ بحری جہاز پر وہ حملہ جو اسرائیل کو خاتمے کے دہانے پر لے آیا تھا

وہ 22 جون 1948 کی سہ پہر لگ بھگ چار بجے کا وقت تھا جب حال ہی معرض وجود میں آنے والی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نے تل ابیب کے ساحل پر لنگر انداز ہونے والے ایک بحری جہاز پر فائرنگ کا حکم دیا۔

اسرائیل اپنے وجود کے ساتھ ہی اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ حالت جنگ میں تھا لیکن التالینا نامی اس جہاز پر ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے عام یہودی ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہتھیار، گولہ بارود اور مسلح ملیشیا کے اہلکار بھی موجود تھے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے حکم پر بحری جہاز کے خلاف ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں ایک مارٹر گولہ جہاز سے جا ٹکرایا جس سے آگ لگ گئی اور اس کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک جبکہ کئی درجن زخمی ہوئے۔ یہ وہ واقعہ تھا جس کے نتیجے میں خود نوزائیدہ اسرائیلی ریاست ہی سمندر کی تہہ میں غرقاب ہونے کو تھی۔

یہ وہی واقعہ تھا جو اسرائیل کو خانہ جنگی کے بہت قریب لے آیا تھا۔

رواں سال التالینا کے واقعے کی 75ویں سالگرہ ہے۔ یہ اسرائیل کی ابتدائی تاریخ کے سب سے متنازع معاملات میں سے ایک ہے، جس نے اسرائیلی ریاست کے دو بانی رہنماؤں ڈیوڈ بین گوریون اور میناچم بیگن کو یہودی ملیشیا ہاگناہ کے خلاف کھڑا کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ یہودی ملیشیا ہاگناہ اور ارگن فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست بنانے کے لیے لڑی تھیں۔ ہاگناہ پہلے ہی ایک خودساختہ فوج میں تبدیل ہو گئی تھی۔

اگرچہ یہ جہاز اب بھی تل ابیب کے ساحل پر پڑا ہے لیکن یہ ایک ایسا تنازع ہے جس کی گونج آج بھی اسرائیل والوں کے دلوں میں باقی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں یہودی تاریخ کے پروفیسر ڈیرک پینسلر نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ وقت میں اسرائیل ‘ایک گہرے سیاسی بحران کی زد میں ہے اور یہاں ’خانہ جنگی کا امکان، جو سنہ 1948 میں بہت حقیقی تھا، ایک بار پھر سامنے ہے۔‘

لیکن آئیے ہم سنہ 1948 کی طرف واپس چلتے ہیں اور یہ جانتے ہیں اس نوزائیدہ ملک کو اس کھائی میں کس چیز نے دھکیلا تھا؟

اُسی سال 14 مئی کو فلسطین کے لیے برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے کے بعد ڈیوڈ بین گورین نے تل ابیب میوزیم آف آرٹ میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

ایک ریاست کو متحد فوج کی ضرورت تھی اس لیے یہودی ہاگناہ ملیشیا جو کہ پچھلی دہائیوں میں سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی تھی، وہ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) بن گئی۔

اس علاقے میں کام کرنے والے دیگر دو خفیہ نیم فوجی گروپ لیجی اور ارگن کو بھی اسرائیلی ڈیفنس فورس میں شامل کر لیا گیا۔ ارگن کی قیادت میناجم بیگوئن کر رہے تھے اور ان کی ملیشیا کو بتدریج ہگناہ میں ضم کیا جانا تھا لیکن کچھ عرصے کے لیے انھوں نے آئی ڈی ایف کے اندر اپنی منفرد اکائیاں برقرار رکھی تھیں۔

ایک ہی مقصد لیکن مختلف حکمت عملی

اگرچہ تینوں ملیشیاؤں کا مقصد فلسطین میں یہودی آبادی کا دفاع اور ان کی آزادی کے لیے انگریزوں کو علاقے سے بے دخل کرنا تھا، لیکن ان کی حکمت عملی بہت مختلف تھی۔

سنہ 1920 میں اپنے قیام کے بعد سے ہاگناہ نے آزادی کے لیے ایک طریقہ کار اور ترقی پسند حکمت عملی اپنائی تھی اور کئی مواقع پر اس نے برطانویوں کے ساتھ تعاون کیا، جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے جرمنی کے ساتھ کام کرنے والی طاقتوں سے نمٹنے میں برطانیہ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔

تاہم سنہ 1931 میں ہاگناہ سے الگ ہونے والے گروپ ارگن نے ابھرنا شروع کیا اور اس نے شروع سے ہی تصادم کی حکمت عملی اپنائی جس میں وہ فلسطین میں آباد عرب آبادی کے خلاف بھی تھے اور انگریزوں کے خلاف بھی، خاص طور پر اس وقت سے جب برطانیہ نے یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔

پینسلار کا کہنا ہے کہ اگرچہ ارگن برطانوی فوجیوں یا فلسطینیوں کے خلاف حملوں میں مہلک تشدد میں ملوث تھے ’جس کو ہم دہشت گردی کی خالص کارروائیوں کے طور پر بیان کر سکتے ہیں‘ اور اس کے تحت وہ بازاروں میں بم دھماکے کر رہے تھے جس سے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے برعکس ہاگناہ ’زیادہ اعتدال پسند تھے۔ اور اپنے حملوں کو برطانوی املاک اور عمارتوں تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔‘

بہرحال ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا تھا۔

اپریل 1948 میں ارگن اور لیجی نے یروشلم کے مضافات میں واقع چھوٹے سے قصبے دیر یاسین پر ہاگناہ کی اجازت سے حملہ کیا۔ یہ حملہ ایک قتل عام میں بدل گیا جس میں سو سے زائد فلسطینی مارے گئے۔ ہارورڈ کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’ہاگناہ نے کہا کہ وہ انھیں روک نہیں سکتے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سوچتے ہوں کہ اس کی اپنے آپ میں ایک سٹریٹجک اہمیت ہو۔‘

پینسلر کے مطابق لیجی ایک چھوٹی ملیشیا تھی لیکن وہ براہ راست ’ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس نے دہشت پھیلانے کی غرض سے عام شہریوں کو قتل کیا۔‘ لیجی کو سنہ 1944 میں برطانوی ریذیڈنٹ منسٹر برائے مشرق وسطیٰ لارڈ موئن اور سنہ 1948 میں اقوام متحدہ کے ثالث فوک برناڈوٹے کے قتل کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ان کے اختلافات ایسے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جسے ’شکار کے موسم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ہاگناہ نے یہاں تک کہ ارگن کے ارکان کو برطانوی حکام کے حوالے کر دیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حریف ملیشیا کی سرگرمیاں اسرائیل کی آزادی کی راہ میں خطرہ ہیں۔

دو مخالف رہنما

لیکن یہ یہودی ملیشیا اپنے لیڈرز ڈیوڈ بین گوریون اور میناچم بیگن کی طرح مختلف تھے۔

یہ دونوں وژن رکھنے والے اور پرجوش صیہونی تھے۔ دونوں نہ صرف اسرائیل کی آزادی حاصل کرنے کے اپنے خیال میں، بلکہ اپنی جمالیات، اپنی زبان اور ملک کے لیے اپنے اقتصادی منصوبے میں بھی ایک دوسرے سے یکسر مخالف تھے۔

بین گورین اسرائیل کی یہودی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ یہ وہ تنظیم تھی جس نے فلسطین کے لیے برطانوی مینڈیٹ میں یہودی کمیونٹی کے لیے ایک قسم کی حکومت کے طور پر کام کیا۔ اور اس کا سرا سوشل ڈیموکریٹک روایت سے ملتا ہے۔ وہ مزدور تحریکوں میں یقین رکھتے تھے، اس کے ساتھ ملکی معیشت کے حکومتی ضابطے میں، اور مردانہ پن کو مزدور کے لیے مثالی تصور کرتے تھے۔ (پینسلر کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالانکہ اپنی زندگی میں صرف چند ہفتے ہی مزدور کے طور پر کام کیا ہوگا)۔

بن گورین کے مطابق نئے اسرائیلی کا آئیڈیل کببٹز کے مضبوط اور پیداواری کارکن تھے۔ کببٹز وہ اجتماعی کاشتکاری کے گروپ تھے جو فلسطین میں قائم کیے گئے تھے۔

ان کا سیکولر اور بائیں بازو کا منصوبہ بتدریج علاقے پر قبضہ کرنا اور وقت آنے پر آزادی پر متفق ہونے کے لیے انگریزوں کے ساتھ تعاون پر مشتمل تھا۔

جبکہ میناجم بیگن زیادہ مختلف نہیں ہو سکتے تھے۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق پولش خاندان سے تھا جو کہ ہولوکاسٹ میں تباہ ہو گیا تھا۔ ’بیگن کا خیال تھا کہ نئے یہودی کو باغی، انقلابی، اور لڑاکا ہونا چاہیے، اور یہ کہ یہودیوں کی سب سے بڑی بہادری جنگ میں لڑنا اور مرنا ہے۔‘

اپنے شاندار سوٹ اور اپنی تعلیم کے ساتھ ہمیشہ نفیس نظر آنے والے بیگن نے ایک بہت ہی رومانوی، جذباتی تقریر کی جو کہ جوش سے بھرپور تھی۔ دائیں بازو اور مذہبی سوچ رکھنے والے بیگن اکثر اپنے پیغام میں جان ڈالنے کے لیے اور انھیں ڈرامائی شکل دینے کے لیے ہولوکاسٹ کی تشبیہات کا استعمال کرتے تھے۔

پینسلر کا کہنا ہے کہ ان کی سٹریٹجک اور جمالیاتی اختلافات کے باوجود کہیں نہ کہیں ’گہرائی میں اُن کی دشمنی اقتدار کے لیے تھی۔‘

بین گورین نے لیبر صیہونیت کی قیادت کی، جو اسرائیل کی ریاست کے پہلے 30 سالوں تک غالب قوت تھی اور اس نے اپنے اداروں کو تشکیل دیا، جب کہ بیگن سنہ 1977 میں وزیر اعظم بنے اور انھوں نے ریویژنسٹ صیہونیت کو مجسم کیا جو کہ دائیں بازو کا ایک ایسا وژن تھا جو دریائے اردن کے دونوں کناروں پر اسرائیل کی ریاست کا قیام چاہتا تھا۔ اور ان کا وژن کئی سالوں تک پس پشت پڑا رہا تھا۔ تاہم آج لیکوڈ سمیت ان کے وارث ملکی سیاست پر حاوی ہیں۔

یہ دشمنی التالینا بحران کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

بحران

ارگن کے سیاسی بازو نے التالینا کو امریکہ کی بحریہ سے سروس سے واپس لینے کے بعد خرید لیا۔

آزادی کے اعلان کے چند دنوں بعد مارسیلی کے قریب فرانسیسی بندرگاہ پورٹ ڈی بوک میں ارگن نے 900 سے زائد افراد کو التالینا پر سوار کیا۔ ان نئے مہاجرین میں زیادہ تر ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے تھے اور اپنی صفوں میں شامل ہونے کے لیے رضاکاروں کے طور پر اسرائیل جا رہے تھے۔

لیکن جہاز پر صرف یہی لوگ نہیں تھے۔

جہاز پر ہتھیاروں کی ایک بڑی مقدار بھی موجود تھی، دیگر چیزوں کے علاوہ تقریباً 5000 رائفلیں، 450 سب مشین گنیں، ایک درجن بکتر بند گاڑیاں اور تقریباً 50 لاکھ گولہ بارود بھی۔

تاہم اقوام متحدہ نے اس وقت اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کی طرف سے جاری جنگ میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، جس کی ایک واضح شرط یہ تھی کہ اس عرصے کے دوران کوئی نیا ہتھیار درآمد نہیں کیا جائے گا۔

جب بیگن نے بین گورین سے التالینا کو تل ابیب میں لنگر انداز ہونے کی اجازت مانگی تو وزیر اعظم کی جانب سے انھیں انکار ملا۔ جہاز کو مزید شمال کی جانب ایک معمولی سے بندرگاہ کفر وٹکن کے لیے بھیج دیا گیا، جہاں وہ 20 جون سنہ 1948 کو لنگر انداز ہوا۔

بیگن چاہتے تھے کہ یہ ہتھیار آئی ڈی ایف کے اندر موجود ارگن یونٹوں کے لیے ہوں، لیکن بین گورین نے اس تجویز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ دو سابقہ ملیشیاؤں کے درمیان تناؤ کے تناظر میں ارگن کو مسلح کرنا بہت اچھا خیال نہیں لگتا تھا۔ اور یہاں تک کہ کچھ مؤرخین کے مطابق انھوں نے سوچا کہ بیگن ان کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

کفر وٹکن میں تارکین وطن اترے اور ارگن ملیشیا نے اپنے ہتھیار اتارنے شروع کر دیے۔

التالینا، تاہم دو آئی ڈی ایف رجمنٹوں اور تین اسرائیلی بحریہ کے کارویٹوں سے گھرا ہوا تھا تاکہ انھیں مواد حوالے کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ کشیدگی واضح تھی اور فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو دونوں طرف سے متعدد ہلاکتوں پر ختم ہوا۔

اس کے بعد بیگن نے التالینا کو تل ابیب جانے کا حکم دیا، جہاں ارگن کے زیادہ پیروکار تھے۔ اس کے بعد جہاز کو آئی ڈی ایف نے ’دشمن‘ قرار دیتے ہوئے فضائیہ اور بحریہ کو اس پر بمباری کرنے کا حکم دیا۔

لیکن پائلٹوں نے بمباری سے انکار کر دیا اور کارویٹس کے عملے نے بہ حالت مجبوری بے دلی کے ساتھ گولیاں چلائیں۔

جہاز ڈین ہوٹل کے سامنے تل ابیب کے ساحل پر لنگر انداز ہوا جہاں بہت سارے اسرائیلی، صحافی اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے مبصرین بھی جمع تھے۔

اس منظر نے بھی بین گورین کو جھکنے نہیں دیا اور 22 جون کی شام 4 بجے انھوں نے التالینا پر گولی چلانے کا حکم دیا۔

کشتی ایک گولے سے ٹکرائی اور اس میں آگ لگ گئی۔ دوسری جانب آئی ڈی ایف اور ارگن کے ارکان ساحل سمندر اور تل ابیب کے کچھ حصوں میں متصادم تھے۔

اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں یہ واقعہ خانہ جنگی کی صورت نہ اختیار کر لے میناجم بیگن نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا اور یقینی بنایا کہ ’یہودی ہی دوسرے یہودیوں کو نہیں ماریں گے۔‘

ڈیرک پینسلر کا کہنا ہے کہ التالینا کی جنگ کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ نہیں ہے کہ کیا ہوا بلکہ یہ ہے کہ کیا نہیں ہوا۔ ارگن کمانڈر جہاز پر بمباری کا جواب دینے اور نئی اسرائیلی حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک آمرانہ ایگزیکٹو کو قائم کرنے کے لیے تیار تھے۔

مؤرخ ڈیرک نے کہا: ’لیکن بیگن نے اسے روکنے کے لیے اپنے تمام اخلاقی اختیارات استعمال کیے، اور اپنے سیاسی کرئیر کے دوران خانہ جنگی سے بچنا ہی ان کا سب سے اہم قدم ہو سکتا تھا۔‘

مسٹر پینسلر کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد سے التالینا ایک ایسے ملک کی ایک طاقتور علامت بن گیا جو ٹوٹنے کے دہانے پر تھا۔‘

اگرچہ 1948 میں اسرائیل میں موجود تفریق اور تقسیم کا آج کے دور سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پینسلر کا کہنا ہے کہ بہت سے اسرائیلیوں کی طرف سے اب بھی اس بات پر ناراضگی پائی جاتی ہے اور وہ اس حملے کو ارگن پر بلا جواز حملہ سمجھتے ہیں۔

پینسلر کا کہنا ہے کہ آج ارگن کے وارث حکومت میں ہیں، لیکن بہت سے اسرائیلی اب بھی یہ مانتے ہیں کہ بائیں بازو کے اشرافیہ ہی ملک کی ڈور کھینچتے ہیں۔

اور اس وقت کی زبان اسرائیل میں دوبارہ سنائی دیتی ہے جس میں ارگن اور التالینا لوگوں اور ہاگناہ اشرافیہ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ناراضی ایک بہت ہی طاقتور سیاسی نظریہ ہے۔‘