’ایک بات یاد رکھو، ایسا کوئی آدمی نہیں ہے جسے میں خرید نہ سکتا ہوں یا برباد نہ کر سکتا ہوں۔‘
یہ اس تاجر کے الفاظ ہیں جو کبھی امریکہ کا امیر ترین شخص تھے۔ ان کا نام ہاورڈ ہیوز ہے اور دنیا انھیں ناصرف ایک کاروباری شخصیت، موجد اور فلم ساز کے طور پر جانتی ہے بلکہ اُن کی شہرت ایک ایسے ’پاگل بوڑھے شخص‘ کے طور پر بھی ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے 26 سال اپنے گھر میں مقید گزارے۔
عمر کے آخری حصے میں ان کا ذہنی توازن اتنا بگڑ چکا تھا کہ انھوں نے اپنے ناخن کاٹنا چھوڑ دیے تھے جبکہ وہ اپنا پیشاب بوتلوں میں جمع کرتے تھے۔
کہانی کیا تھی؟
ہاورڈ ہیوز جونیئر 1905 میں ہاورڈ ہیوز سینیئر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ہاورڈ سینئیر زمین سے خام تیل نکالنے کا کام کرتے تھے اور اس شعبے میں انھوں نے بہت دولت کمائی، انھوں نے سنہ 1909 میں ایک ڈرل مشین ایجاد کی جس نے تیل کے لیے کنویں کھودنے کی صنعت کو بدل کر رکھ دیا کیونکہ یہ ایسی مشین تھی جو گرینائٹ کی سخت چٹان کو کاٹ سکتی تھی۔
انھوں نے اس ڈرل کا ڈیزائن اپنے نام سے رجسٹر کروایا۔ تیل کمپنیاں ان کی بنائی گئی ڈرل مشینوں کو حاصل کرنے کے لیے ہیوز سینیئر کے دروازے پر قطار میں لگی نظر آتیں اور اسی مشین کے ذریعے انھوں نے بہت پیسہ کمایا۔
ہاورڈ ہیوز جونیئر کی والدہ کا تعلق بھی ایک امیر خاندان سے تھا جنھیں صفائی کا جنون کی حد تک شوق تھا اور یہی فطرت بعد میں ہاورڈ میں آئی۔
ہاورڈ جب پیدا ہوئے تو وہ کمزور تھے اور بیمار رہتے تھے۔ انھیں ایک کان سے سننے میں مشکل بھی پیش آتی تھی، اسی وجہ سے ان کی والدہ ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔
ہاورڈ کی صحت کو درپیش مسائل کے باعث ہی اُن کے والد انھیں ہمیشہ مختلف بورڈنگ سکولوں میں بھیجتے تھے۔ ہر دفعہ داخلہ حاصل کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہاورڈ کے والد کی چیک بکس بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے کے ہمیشہ موجود ہوتی تھیں۔
ہاورڈ ابتدا میں ایک شرمیلا لڑکا تھا جو ایک کان سے لگ بھگ بہرا بھی تھا۔
وہ سکول میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر آخر کار اسے اپنی تنہائی دور کرنے کے دو راستے مل گئے، سنیما اور ہوائی جہاز۔
جب وہ چودہ سال کے تھے تو اُن کے والد انھیں دو امریکی یونیورسٹیوں کے درمیان کشتی رانی کے مقابلے میں شرکت کروانے کے لیے لے گئے۔
والد نے اس سے کہا کہ اگر تم اس مقابلے میں حصہ لے کر جیت گئے تو تم جو بھی انعام مانگو گے میں تمہیں دوں گا۔ ہاورڈ نے مقابلہ جیت کر اپنے والد سے پانچ ڈالر مانگے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد ہاورڈ کی والدہ اور والد انتقال کر گئے۔ 18 سالہ ہاورڈ جنھوں نے اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی، انھیں تمام دولت وراثت میں مل گئی۔
ہاورڈ کو یقین تھا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو وہ اپنے والد کے پیسوں سے نہیں خرید سکتے۔
اگرچہ اس کے والد کا تیل کا کاروبار تھا لیکن ہاورڈ کو اس میں بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ان کا رجحان ہالی وڈ کی طرف ہو چکا تھا۔
چاندی کی دنیا
ہاورڈ نے جب ہالی وڈ میں قدم رکھا تو وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے والد کے پیسے اڑانے لگے۔ پیٹر ہنری براؤن اور پیٹ بروسک نے ہاورڈ ہیوز کی سوانح عمری لکھی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’ہیوز نے کبھی مہنگے جوتوں کا فقط ایک جوڑا نہیں خریدا، وہ ہمیشہ 20 جوڑے خریدتے تھے۔ انھوں نے کبھی ایک وقت میں ایک کار نہیں خریدی، بلکہ وہ ایک ساتھ 6، 6 کاریں خریدتے تھے۔‘
’وہ بہت مہنگی گھڑیوں کے سیٹ خریدتے تھے، ایک مرتبہ انھوں نے ایک ہی وقت میں مہنگی گھڑیوں کے 20 سیٹ خریدے تھے۔‘
اس عرصے میں انھوں نے اپنے رشتہ داروں کو اپنے والد کی کمپنی سے نکال دیا اور کمپنی میں اُن کے شیئرز 3.8 ملین ڈالر کے عوض خرید لیے۔
اب وہ اپنے والد کی کمپنی کا سارا پیسہ سینما یعنی ہالی وڈ میں ڈالنے والے تھے۔
اُن کی پہلی فلم ’ٹو عربین نائٹس‘ ہٹ ہوئی تھی اور اس کے بعد آنے والی فلم ’ہیلز اینجل‘ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔
یہ پہلی جنگ عظیم پر مبنی فلم تھی جس میں پہلی مرتبہ طیارہ اڑتا ہوا دیکھایا گیا تھا۔
اس فلم کو بنانے کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ہاورڈ کو اپنے طریقے سے کام کرنے کی عادت تھی۔
ہاورڈ نے سکرپٹ کو کئی بار لکھا، تبدیل کیا، دوبارہ لکھا۔ لیکن اُن کا سب سے بڑا عجیب کام یہ تھا کہ اگر بادل نظر نہ آتے تو وہ ہوائی جہازوں کی شوٹنگ کو دوبارہ کرواتے تھے۔
اگر ہاورڈ کے لیے ایک بادل کی جگہ بھی درست نہ ہوتی تو پورے عملے کو اس منظر کو دوبارہ کرنا پڑے گا۔ اس وقت چونکہ گرافکس نہیں تھے چنانچہ انسانوں کو ہی سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔
اس سب میں بہت وقت، پیسہ اور محنت لگتی تھی۔ گئی۔
جب اس فلم کو ریلیز کیا گیا تو اس پر لاگت چار ملین ڈالر آئی تھی۔ یہ رقم اس وقت کے معیار کے مطابق بہت زیادہ تھی۔ لیکن اس فلم نے ہاورڈ کو مایوس نہیں کیا۔ فلم نے باکس آفس پر اچھا بزنس کیا اور لگنے والے پیسے سے دگنا کمایا۔
اس عرصے کے دوران ان کی زندگی میں بہت سی خواتین آئیں، خاص طور پر ہالی وڈ اداکارائیں ان کا پیچھا کرتی تھیں۔
بعد میں آنے والی اُن کی کچھ فلموں نے اتنا بزنس نہیں کیا لیکن پھر آئی ’سکار فیس‘ جو گینگسٹر کے متعلق پہلی فلم تھی۔
امریکی سینسر بورڈ کو اس پر اعتراضات تھے۔ جب ہاورڈ ہیوز کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے سینسر بورڈ پر مقدمہ کیا اور جیت گئے۔ ’سکارفیس‘ سے ایک بھی سین کم نہیں ہوا۔
اس فلم نے تاریخ رقم کی۔ ہاورڈ ہر فلم میں کچھ مختلف کرنا چاہتے تھے۔ ان کی اگلی فلم ’آؤٹ لا‘ میں وہ ہیروئین کی چھاتی کا سائز بڑا دکھانا چاہتا تھا جس کے لیے ایک خاص شرٹ کی ضرورت تھی۔
’ہاورڈ نے ایک خاص پش اپ شرٹ بنوائی لیکن فلم کی ہیروئن جین رسل نے اسے پہننے سے انکار کر دیا۔ ہاورڈ خواتین کی براز پر انجینئرنگ کا اطلاق کرنے والا پہلے شخص تھے۔‘
ہاورڈ اپنی زندگی کے ساتھ جو چاہتے تھے وہ کر رہے تھے۔ لیکن اب ہاورڈ کی توجہ فلموں پر کم اور ہوائی جہازوں پر زیادہ تھی۔
اب وہ دنیا کا تیز ترین طیارہ بنانا چاہتے تھے۔ سنہ 1935 میں انھوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ سنہ 1938 میں انھوں نے سب سے تیز رفتار سے دنیا کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا اور پھر انھوں نے تین دن اور 19 گھنٹے میں دنیا کا چکر لگایا۔
ان کے کارنامے کو اس قدر سراہا گیا کہ نیویارک میں ان کے لیے پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔
انھوں نے ایک ہوائی جہاز کی کمپنی قائم کی۔ ایئر لائن کا کاروبار بڑھ رہا تھا۔ اب امریکی فوج نے بھی اس سے طیارے اور دیگر سامان خریدنا شروع کر دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران انھوں نے امریکی بحریہ کے لیے آبدوزیں ڈیزائن کیں۔
لیکن آہستہ آہستہ ہاورڈ کا دماغی توازن بگڑ رہا تھا۔
وہ بار بار اپنے ہاتھ دھوتے رہتے تھے۔ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو نے ہاورڈ ہیوز کی زندگی پر مبنی فلم ’ایوی ایٹر‘ میں ان کا کردار ادا کیا۔
ایک سین ایسا بھی ہے جس میں ہاورڈ اپنے ہاتھ اتنے زور سے دھوتے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں سے خون بہنے لگتا ہے۔
وہ ایک بار ہونے والے کام کو پانچ بار چیک کرتے تھے جس کی وجہ سے انھوں نے فوج کے جو ٹھیکے لیے تھے ان میں تاخیر ہو رہی تھی اور بجٹ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ مسلسل ڈیزائن بدل رہا تھا۔
اس دوران 1946 میں ان کا طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ ان کا پانچواں طیارہ حادثہ تھا اور وہ پچھلے حادثے کی طرح اس میں محفوظ نہیں رہے۔
وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انھوں نے اپنے درد کو کم کرنے کے لیے دوائیں لینا شروع کر دیں اور ان کی لت میں پڑ گئے۔
اس طرح ان پر ناجائز منافع خوری کا الزام لگایا گیا۔ 1947 میں انھیں امریکی کانگریس کے سامنے گواہی دینے کے لیے بلایا گیا۔
اس وقت انھوں نے دلیرانہ تقریر کی اور بتایا کہ وہ محب وطن ہیں۔ لیکن یہ آخری بار تھا جب ہاورڈ ہیوز کو عوام میں دیکھا گیا تھا۔ ہاورڈ کو عوام نے اگلے 26 سالوں تک نہیں دیکھا۔
لیکن ان کا کاروبار بڑھ رہا تھا۔ سنہ 1966 اور 1968 کے درمیان انھوں نے لاس ویگاس، امریکہ میں زمینیں، کیسینو اور ہوٹل خریدے۔ سنہ 1966 میں ان کی کمپنی نے سروائیور ون بنایا۔ یہ چاند پر جانے والا پہلا امریکی خلائی جہاز تھا۔
انھوں نے لاس ویگاس میں ایک ٹی وی چینل بھی خریدا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ چینل اپنی پسندیدہ فلمیں دیکھنے کے لیے خریدا تھا۔ کچھ لوگ یہ کہانی بھی سناتے ہیں کہ وہ رات کو اپنی پسند کی فلم لگانے کو کہتے اور اگر وہ سو جاتے تو چینل کو دوبارہ شروع کرنا پڑتا۔
لیکن ان کا پاگل پن دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ انھیں مسلسل محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ارد گرد جراثیم موجود ہیں۔ وہ کبھی کبھی کپڑوں سمیت اپنی پوری الماری کو جلا دیتے۔
پھر ان کی زندگی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک دن وہ گھر سے نکلے اور گھر کے نوکروں سے کہا کہ وہ کچھ فلمیں دیکھنے سٹوڈیو جا رہے ہیں۔ وہ اس دن سٹوڈیو کے ایک تاریک کمرے میں گئے اور چار ماہ تک باہر نہیں آئے۔
وہ دن رات ننگے بیٹھے رہتے تھے اور اپنا پیشاب ایک بوتل میں اکھٹا کرتے۔ انھوں نے اپنے ناخن کاٹنا چھوڑ دیے تھے۔
فقط دودھ یا چاکلیٹ اُن کی خوراک تھی۔ وہ اپنے نوکروں کو نوٹ بھی لکھتا کہ ’میری طرف مت دیکھو، مجھ سے بات نہ کرو۔‘
بعد میں وہ اپنی موت تک کئی سالوں تک مختلف ہوٹلوں میں رہے، لیکن ان ہوٹلوں میں ایک چیز مشترک تھی، ہر ہوٹل میں ایک تاریک کمرہ ہوتا جہاں وہ بیٹھ کر فلمیں دیکھ رہے ہوتے تھے۔
ہاورڈ ہیوز کی وفات 1976 میں ایک طیارے پر ہوئی۔