رواں ہفتے انڈیا سے ایک سیاسی اور سماجی ورکر محمد حسنین اپنے بیٹے اسحاق امیر کے ہمراہ پاکستان میں پناہ کی غرض سے غیر قانونی طور پر براستہ افغانستان کراچی پہنچے ہیں۔
اُن کا الزام ہے کہ انڈیا میں انھیں مذہبی تعصب اور جبر کا سامنا ہے اور وہ واپس جانے کی بجائے پاکستان میں مرنا یا جیل میں رہنا پسند کریں گے۔
یہ دونوں انڈین شہری کراچی کے علاقے انچولی میں قائم ایدھی ہوم میں مقیم ہیں۔ اُن پر ایدھی ہوم سے باہر نکلنے پر پابندی ہے اور دو پولیس اہلکار اُن کی نگرانی پر مامور ہیں۔
محمد حسنین نے بتایا کہ ’چمن سے ہم نے کوئٹہ کے لیے دس ہزار روپے میں ٹیکسی پکڑی اور اسی ٹیکسی کو پچاس ہزار روپے دے کر ہم کوئٹہ سے کراچی پہنچے۔‘
ان کے بقول ہوٹل میں رہنے کی جگہ نہ ملی تو وہ خود پولیس افسران سے ملے اور ان کو اپنی کہانی بتائی اور کہا کہ وہ سرحد پار کرنے کے ملزم ہیں اور پناہ کے متلاشی ہیں اور پھر پولیس نے خود ان کو ایدھی سینٹر پہنچا دیا۔
محمد حسنین نے بتایا کہ انڈیا میں وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے اور دہلی سے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک ہفت روزہ اخبار ’چارج شیٹ‘ نکالا کرتے تھے۔ جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے ’دی میڈیا پروفائل‘ رکھ دیا گیا تھا۔
یہ انڈین شہری کون ہیں؟
محمد حسنین کی پیدائش انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ کے صنعتی شہر جمشید پور میں سنہ 1957 میں ہوئی لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سال سے دہلی میں مقیم ہیں۔
سنہ 1989 میں ان کی شادی ہوئی جو پونے چار سال چلی۔ اس شادی سے ہونے والے دو بیٹوں میں سے ایک فوت ہو گیا جبکہ دوسرا بیٹا اسحاق امیر اُن کی اکلوتی اولاد ہیں۔
محمد حسنین کی دو بہنیں زیب النسا اور کوثر ہیں۔ بڑی بہن زیب النسا اُن سے اکیس سال بڑی ہیں اور جھارکھنڈ میں ہی رہتی ہیں جبکہ چھوٹی بہن کوثر لکھنؤ کی رہائشی ہیں۔
اسحاق امیر نے بتایا کہ وہ مدرسے جاتے تھے جہاں سے انھوں نے ناظرہ اور حفظِ قرآن کیا۔ والد انھیں عالمِ دین یا وکیل بنانا چاہتے تھے لیکن دسویں اور بارہویں کے بعد وہ روزگار میں لگ گئے۔ وہ اپنی زندگی میں کبھی سکول نہیں گئے البتہ دہلی میں حکومتی ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن سکولنگ (این آئی او ایس) سے دسویں اور بارہویں کی تعلیم حاصل کی۔
ڈین براڈ بینڈ کے نام سے ایک کمپنی میں کام کیا۔ انھوں نے انڈسٹریل سیفٹی مینجمینٹ کا ڈپلومہ بھی کیا تھا اور اپریل 2021 سے پندرہ اکتوبر 2021 یعنی تقریبا چھ ماہ تک دبئی کی ایک کمپنی میں بطور سیفٹی انسپیکٹر ملازمت کی۔ 2021 میں واپس انڈیا آنے کے بعد ایک اور کورس نائیگوس انٹرنیشنل جنرل سرٹیفیکٹ بھی کیا۔
اسحاق امیر نے بتایا کہ ابوظہبی کی ایک کمپنی نے انھیں نوکری کی پیشکش کی تھی جس کی تنخواہ چار ہزار درھم تھی اور 10 ستمبر 2023 کو اُنھیں جوائننگ دینی تھی لیکن اُن کے بقول ’ہم نے ہجرت کا پورا ایک پلان بنا رکھا تھا۔
’والد صاحب نے کہا تھا کہ اس ملک میں نہیں رہنا تو پانچ ستمبرکو ہم نے ٹکٹ کرالی۔ والد نے کہا کہ ایک بار کوشش کرتے ہیں۔ ابوظہبی سے افغانستان چل کر دیکھتے ہیں شاید کچھ ہو جائے۔‘
محمد حسنین کا قلمی نام ایم حسنین ہے۔ اُن کے بقول وہ دہلی میں اپنا ہفت روزہ اخبار ’دا میڈیا پروفائل‘ نکالنے کے علاوہ ایک کوچنگ سینٹر بھی چلاتے رہے ہیں جس میں وہ نوجوانوں کو انگریزی زبان سکھاتے تھے اور وکالت کی تعلیم کے لیے تیار کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق امیر کو بھی وکیل بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔
محمد حسنین خود کو ایک سوشل اور پولیٹیکل ورکر کہتے ہیں اور پارلیمانی، اسمبلی اور بلدیاتی سطح کے انتخابات لڑچکے ہیں البتہ اُنھیں ناکامی ہوئی۔ اطلاعات ہیں کہ اُس دور میں اُن پر چند کیسز بھی بنے جن میں اُن پر مبینہ طورپر اشتعال انگیز پوسٹرز چپکانے کا الزام تھا۔
محمد حسنین اور اسحاق امیر کے مطابق وہ پچھلے پندرہ بیس سال سے دہلی کے علاقے جعفرآباد میں کرائے کے مکانوں میں رہتے رہے ہیں اور اُن کی آخری رہائش گوتم پوری میں تھی۔
انڈیا میں ان کے جاننے والوں کو ان کے جانے پر حیرت کیوں؟
دونوں باپ بیٹے کے پاکستان جانے کے فیصلے پر انڈیا میں ان کے جاننے والے کم از کم تین افراد نے بی بی سی سے بات چیت میں حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بارے میں میڈیا کے ذریعے خبر ملی۔
انڈیا میں ایم ایم ہاشمی، جو خود کو محمد حسنین کا وکیل بتاتے ہیں، کا کہنا کہ انھیں بھی ان کے پاکستان جانے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ان کا وکیل ہوں، مجھے بس اتنا معلوم ہے کی وہ اپنے بیٹے کو نوکری کے لیے دبئی لے کر گئے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں۔ جب خبر آئی تو مجھے معلوم ہوا اس کے بارے میں۔‘
پاکستان روانگی سے قبل جس ایڈریس پر وہ رہتے تھے وہاں ان کے پڑوسی بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میڈیا اور پولیس حسنین کے بارے میں پوچھنے آئی تو انھیں ان کے پاکستان جانے کے بارے میں معلوم ہوا۔
ایک پڑوسی کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو دبئی میں نوکری مل گئی ہے۔ وہ وہاں جا رہے ہیں اور اگلے 10 دن میں واپس لوٹ آئیں گے۔‘
محمد حسنین کے مالک مکان اور پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر اکیلے اور خاموش رہتے تھے۔ ’بس اتنا ہوتا تھا کہ اگر کوئی انھیں سلام کرے تو وہ جواب دیتے تھے۔‘
ایک مقامی رہنما، جن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے حسنین کی سیاسی پارٹی کی حمایت سے سنہ 2017 میں بلدیہ کے انتخابات میں حصہ لیا تھا، بتاتے ہیں کہ انھیں بھی اس کے بارے میں اخبار سے معلوم ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں تو خود دھچکہ لگا کہ وہ چلے گئے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ الیکشن لڑنے کے بعد سے ان کا حسنین سے باقاعدہ رابطہ نہیں لیکن حال ہی میں ان سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔
مقامی رہنما نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کا اخبار بھی تقریباً پانچ سال پہلے بند ہو گیا تھا۔
جس ایڈریس پر حسنین کی پارٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا اس کے آس پاس کے رہائشی لوگوں کا کہنا ہے کہ پارٹی چند سال پہلے ختم ہو گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کو جمع کروائے گئے ایڈریس پر پارٹی کا نام اور ان کے اخبار کے پرانے نام کے بینر کو ’گوگل سٹریٹ ویو‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اردو اور ہندی زبانوں میں چپھنے والے ان کے ہفتہ وار اخبار کے صفحات کی کاپیاں، جو فیس بک پر موجود ہیں، انڈیا میں مسلمانوں کی شکایات اور غم و غصے کو اجاگر کرتی ہیں۔
انڈیا کے الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے انتخابی حلف ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے سنہ 2013 کے دہلی اسمبلی اور 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس میں انھیں 571 اور 879 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
انتخابی شفافیت کی وکالت کرنے والی تنظیم ’اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز‘ کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے سنہ 2004 اور سنہ 2009 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
ان کے انتخابی حلف نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف آئی پی سی کے تحت تین مقدمات درج ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کے خلاف احتجاجی پوسٹر چسپاں کرنے کے بعد جیل بھیج دیا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ وہ کتنے عرصے تک جیل میں قید رہے۔
ایڈووکیٹ ایم ایم ہاشمی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے خلاف تین مقدمات درج تھے۔ ’ایک میں وہ بری ہو چکے ہیں، ایک میں چارجز فریم نہیں ہوئے اور ایک میں چارج شیٹ فائل نہیں ہوئی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ’سارے سیاسی کیسز تھے، کوئی فوجداری کیس نہیں تھا۔‘ انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیل بتانے سے انکار کر دیا۔
انڈیا میں ایسا کیا ہوا کہ انھیں پاکستان آنا پڑا؟
محمد حسنین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دیکھیں یہ کوئی اچانک یا بے ساختہ لیا گیا فیصلہ نہیں کہ ایک دم سے کوئی بات ہو اور ہم نے کہا کہ اب چلو یہاں سے۔‘
انھوں نے بابری مسجد سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا، ساتھ ہی انڈیا میں اگلے سال ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کی جیت کا عندیہ دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔
محمد حسنین نے بتایا کہ ’کوئی تہوار کا دن ہو اور تہوار کے دن ہمارے ہندو بھائی تلک دھاری لگا کر آتے ہیں تو بڑی آسانی سے پہچان ہو جاتی ہے کہ یہ ہندو ہیں اور مسلمان ہیں۔ ایک بار ذرا سی بات بڑھی تو لوگوں نے ایشو بنا دیا، گالی گلوچ اور ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔‘
’بیٹے کے ساتھ بھی دو تین بار ایسا ہوا تو ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر ہمیں لگا کہ ہمیں ملک چھوڑ دینا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سڑک پر جائیں، دفتر جائیں، ٹرین میں جائیں، باہر کسی کام سے بھی جائیں تو بس ایک یہی ڈر رہتا کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ مسئلہ لوٹ مار کا نہیں، مسئلہ نعروں کا ہے۔ مذہب کو ٹارگٹ بنانا، ٹارگٹ کر کے مارنا۔‘
لیکن اِن دونوں باپ بیٹے نے کسی اور ملک جانے کی بجائے پاکستان کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ میرے اس سوال پر محمد حسنین بولے کہ ’دیکھیں ہم تو پیسے والے لوگ نہیں تھے کہ کسی ملک میں جا کر دس پانچ کروڑ خرچ کر کے شہریت خرید لیتے۔‘
’ہمارے پاس پاکستان کا ہی آپشن تھا کہ جہاں کے لوگ ہماری طرح بولتے چالتے ہیں اور جس کو بنانے میں ہمارے اجداد کا بھی حصہ رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں اُن کا کوئی رشتہ دار نہیں، اس لیے اُنھیں ویزا نہیں مل سکتا تھا۔
’خیال یہی تھا کہ سیاحتی ویزہ لے کے چلیں گے اور پھر وہاں پر پناہ لے لیں گے۔ جب وہاں (پاکستانی سفارتخانے) سے انکار ہو گیا تو ہم پتا کرنے لگے کہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس طرح دو تین سال بیت گئے۔ پھر ہمیں اچانک معلوم ہوا کہ اگر آپ دبئی چلے جائیں اور وہاں سے افغانستان کا ویزہ مل سکتا ہے۔‘
حسنین کی مہیش بھٹ کے ساتھ ایک تقریب میں ویڈیو
حسنین کے اخبار کے نام سے وابستہ ایک اکاؤنٹ سے 2016 میں آن لائن ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی۔ اس ویڈیو میں انھیں اپنے علاقے میں ’پولیس کے مظالم‘ کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سنہ 2017 میں اپ لوڈ کی گئی ایک اور ویڈیو میں وہ ’مسلمانوں کے استحصال‘ پر تقریر کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں کہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے بھی مسلمانوں کو افسردہ کیا۔
اس کے علاوہ سنہ 2015 میں اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں وہ فلم ڈائریکٹر مہیش بھٹ کے ساتھ ایک پروگرام میں شریک ہیں جس میں وہ ان کی کسی فلم کو مثال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں وہ مہیش بھٹ کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ دونوں مذاہب کے افراد کی نفسیات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں لیکن وہ بھی بے حد احتیاط سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے جواب میں کیمرے میں مہیش بھٹ مسکراتے ہوئے ان کی بات سنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
محمد حسنین مزید کہتے ہیں کہ ’آپ کی نیت پر شبہ نہیں، یہ (آپ کی) مجبوری ہے۔ اس ملک کے ہندو دانشور کو اتنا ڈر ہے، یہ مجبوری ہے۔‘
’پاکستان جینے نہیں سکون کے ساتھ مرنے کے لیے آیا ہوں‘
پچیس ستمبر کو یہ دونوں انڈین شہری کراچی پریس کلب پہنچے اور انڈیا میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کیا، جس کے بعد سے اُن کی پاکستان آمد کی خبر عام ہوئی۔
محمد حسنین اور اسحاق امیر واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ واپس انڈیا نہیں جانا چاہتے لیکن اگر پاکستان نے اُنھیں پناہ اور شہریت نہ دی تو وہ کیا کریں گے؟
اسحاق امیر بولے کہ ’ہم تو صرف پناہ چاہ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد یہاں پر گھر یا نوکری مانگنا نہیں۔ میں ابھی جوان ہوں میں ڈرائیونگ کر سکتا ہوں، روٹی بنا سکتا ہوں، باہر بہت سارے مزدوری والے کام ہیں وہ کر سکتا ہوں۔‘
’والد صاحب پڑھا سکتے ہیں، میں بھی پڑھا سکتا ہوں، قرآن تو پڑھا سکتا ہوں، میں نے حفظ کیا ہے۔ بس پناہ چاہتے ہیں، واپس نہیں جانا چاہتے۔‘
’گولی مار دیں، جیل میں ڈال کے سڑا دیں، کوئی دقت نہیں، اگر آپ کو نہیں رکھنا تو واپس نہ بھیجیں بلکہ اپنے پاس کسی جیل کے کونے میں ڈال دیں، کسی پنجرے میں بند کر دیں وہ بھی منظور ہے۔‘
محمد حسنین کا مؤقف تھا کہ ’میں اس ملک میں جینے کے لیے نہیں آیا ہوں، میں اس ملک میں سکون کے ساتھ مرنے کے لیے آیا ہوں۔ کوئی جینے کی تمنا نہیں اب۔‘
انھوں نے سیما حیدر کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ’سیما کو وہاں کی حکومت قبول کر سکتی ہے تو حکومتِ پاکستان کو مجھے قبول کرنے سے دنیا کی کون سی طاقت روکتی ہے۔‘