اہم خبریں

’گرویٹیشنل ہول‘: سطح زمین کا سب سے گہرا حصہ کیسے وجود میں آیا اور یہاں کششِ ثقل کم کیوں ہے؟

جب سکول میں زمین کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں تو اساتذہ ہمیں بتاتے تھے کہ اس کی شکل دائرہ نما ہے اور اس کی شکل اپنے قطبی حصوں پر مختلف ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کی کششِ ثقل 9.8 میٹر فی مربع سیکنڈ ہے۔

حقیقت میں زمین کی شکل ایک آلو جیسی ہوتی ہے یہ مکمل طور پر دائرہ نما ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کی اوپری سطح ایک جیسی نہیں ہے بلکہ اور اس میں متعدد بے قاعدگیاں ہیں۔

اس لیے زمین کے ہر خطے میں کششِ ثقل ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔ جہاں کششِ ثقل اوسط سے زیادہ ہو اسے مثبت اور جہاں کم ہو اسے منفی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وہ بحث ہے جہاں ’گرویٹیشنل ہول‘ کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف اوویڈو میں جیولوجی کی پروفیسر گیبریالا فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ ’گرویٹیشنل ہول وہ خطہ ہے جہاں کششِ ثقل زمین کے کسی بھی خطے سے سب سے زیادہ مختلف ہے۔‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ’ہول‘ ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں چیزیں ڈوب جاتی ہیں، نہ ہی یہاں چیزیں تیز رفتاری سے سفر کرتی ہیں اور نہ ہی یہ نظر آتا ہے۔

بحری جہازوں میں لگے کششِ ثقل کے پیمانے اس تبدیلی کی ایک دہائی قبل ہی پیمائش کر لی تھی جس کے بعد سے جدید مصنوعی سیاروں کے ذریعے اسے مزید درستگی سے ناپ لیا ہے ۔

تاہم اس بارے ماضی میں کوئی ٹھوس وضاحت موجود نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ تاہم اب ایک تحقیق نے بہت واضح انداز میں دکھایا ہے کہ کششِ ثقل میں یہ تبدیلی کیوں رونما ہوئی ہو گی۔

’گریویٹیشنل ہول‘ زمین کی سطح کی سب سے گہری جگہ ہے۔ یہ بحرِ ہند میں موجود ہے اور جزیرہ نما ہندوستان کے جنوب میں ہے۔ یہ گول دائرے کی شکل میں ہے جہاں اوسط سطح سمندر کے مقابلے میں سطح 105 میٹر نیچے ہے۔ یہ تیس لاکھ مربع کلومیٹرز تک پھیلا ہوا ہے۔

ماہرین اس علاقے کو انڈین اوشن لو جیؤڈ (آئی او ایل جی) کہتے ہیں اور اس حوالے سے مختلف مفروضے موجود ہیں جو اس کے وجود کے بارے میں بتاتے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے ہمارے پاس تحقیق کا آغاز کرنے کے لیے ایک جگہ موجود ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو سکول میں ہی ہم نے یہ بھی پڑھا تھا کششِ ثقل مادہ سے متناسب ہوتی ہے۔ اس لیے اگر مادہ یا ماس کم ہو تو کششِ ثقل بھی کم ہو گی۔

اس بنیادی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گریویٹیشنل ہول کے علاقے میں ماس یا مادہ کم ہے۔ یہی وہ وضاحت ہے جہاں سے جیوفزسسٹس نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا ہے۔ تاہم ابھی تک اس بات پر سائنسدانوں کا اتفاق نہیں ہو سکا ہے کہ یہاں ماس یا مادہ کم کیوں ہے۔

مختلف مفروضے کیا ہیں؟

فرنینڈیز کہتی ہیں کہ ’اب تک تمام ہی ماڈلز سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بحرِ ہند کے اس حصے میں ماس مادے کی کمی اس وجہ سے ہے کہ یہاں اوشیانک پلیٹس آپس میں ٹکراؤ کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھیں۔‘

اس علاقے میں موجود سمندر کی تہہ میں موجود علاقہ قدیم دور میں بحر ٹیتھیز کہلاتا تھا اور یہ میسوزوئک دور میں براعظم گوندوانا اور لورایشیا کے درمیان واقع تھا۔ یہ یہاں بحرِ ہند کے نمودار ہونے سے چھ کروڑ 60 لاکھ سال سے 25 کروڑ سال پہلے کی بات ہے۔

جب انڈین پلیٹ سوپر کانٹیننٹ آف گوند واناسے ٹوٹ گئی اور یورایشین پلیٹ سے ٹکرا گئی تو ٹیتھیز پلیٹ زمین کے مینٹل میں گر گئی اور اس کے باعث ایک بحر نمودار ہوا۔

دوسری جانب سیزمک ولاسیٹیز بھی معلومات کا ایک ایسا حصہ ہے جو جیولوجسٹ کو معلوم ہے اور یہ زمین کے درجہ حرارت اور سطح میں اتار چڑھاؤ کے بارے میں وضاحت کرتا ہے۔ فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس زمین کے تہہ تلے جو بھی معلومات موجود ہیں وہ سیزمولوجی سے متعلق ہیں۔‘

جیو سائنسدان دیبانجن پال اور اتریے گھوش جن کا تعلق انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس سے ہے اس حالیہ تحقیق کے مصنف ہیں جو اسی بارے میں کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے ’اس سے قبل شائع ہونے والی تحقیق میں صرف اس بات پر توجہ دی گئی تھی کہ یہ کیا ہے، نہ کہ اس بات پر کہ ایسے ہوا کیوں۔‘

ایک نیا ماڈل

پال نے میسوزوئک دور میں پلیٹوں کی تخلیق سے آگے اس حوالے سے مزید وضاحت کرنے کی کوشش میں برسوں گزارے ہیں۔

پال کی ٹیم نے ٹیکٹانک پلیٹ کی حرکت سے متعلق 19 مختلف منظرناموں کو آزمایا اور زمین کے مینٹل میں گذشتہ 14 کروڑ سالوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔

اس کے لیے انھوں نے مختلف پیمانے آزمائے جن میں زمین کے مینٹل کی وسکوسیٹی یا ڈینسیٹی، اس کا درجہ حرارت اور پلیٹس کا ٹکراؤ اور اس کے باعث ہونے والی ٹوٹ پھوٹ بھی شامل ہے۔ اس کا معائنہ انھوں نے سیٹلائٹس کے ذریعے کیا۔

ان میں سے چھ کے نتائج بحرِ ہند کی اوپری سطح کے ڈیٹا کے عین مطابق نظر آئے۔ اگر اس سے قبل استعمال ہونے والے ماڈلز میں ٹیتھیز کی اوشیانک پلیٹس اہم تھیں تو پال اور گھوش کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ’اس کا باعث بننے کے لیے ضروری تھا لیکن اس کی بنیادی وجہ نہیں تھا۔‘

جب انڈین پلیٹ گوندوانا کے سوپر کانٹیننٹ سے ٹوٹ کر یورایشین پلیٹ سے ٹکرائی تو ٹیتھیز پلیٹ جس پر ایک بحر موجود تھا، زمین کے مینٹل میں ڈوب گئی۔ یہ معلومات تو ہمارے پاس پچھلی تحقیق میں بھی موجود تھی۔ تاہم اب زمین کا ایک اور حصہ بھی اس میں شامل ہوا اور وہ تھا مشرقی افریقہ۔

ان کروڑوں سالوں کے دوران ٹیتھیز پلیٹ جو فرنینڈیز کے مطابق ’لوئر مینٹل میں چلی گئی تھی، سفر طے کرتے ہوئے افریقہ تک پہنچ گئی جہاں اس کا گرم میگما سے ٹکراؤ ہوا، خاص طور پر مشرقی افریقہ کے نیچے۔‘

اس سرد پلیٹ کے گرم پلیٹ کے ساتھ ٹکراؤ کے باعث ارتعاش پیدا ہوا اور ایسا مادہ بنا جو بحرہند کی جانب اسی جگہ کی جانب بڑھا جہاں گریوٹیشنل ہول موجود ہے۔

یہ میٹیرئل جس نے حرکت کی اسے ’مینٹل پلیومز‘ کہتے ہیں، یہ دراصل گرم میگما ہوتا ہے جو اس سے کم کثیف ہوتا ہے اور باقی میٹریئل سے زیادہ تیزی سے اوپر کی طرف آتا ہے۔

فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ ’دوسری جگہیں جہاں کم ڈینسیٹی اور کم کششِ ثقل ہے وہاں مینٹل فیدرز کی موجودگی پائی جاتی ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کم کثافت کی وجہ سے ہی کم کششِ ثقل تھی۔ تاہم بحر ہند میں یہ بات اتنی واضح نہیں تھی اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ یہ کم ڈینس میٹیرئل آیا کہاں سے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پال اور گوش نے یہ دکھایا ہے کہ یہاں مینٹل فیدرز موجود ہیں اور وہ کسی دوسری جگہ سے آئے ہیں۔‘

ان کی رائے میں یہ نیا ماڈل ’جیولوجیکل تاریخ، مخصوص اعداد و شمار اور مینٹل کنویکشن ماڈلز کا استعمال کرتے ہیں۔‘

فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ یہ پلیٹ ٹیکٹانکس کی تھیوری کو مزید بہتر بناتے ہیں۔