سندھ کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر نے عروج بھی دیکھا اور زوال اور یہ کئی سمندری طوفان کا بھی چشم دید گواہ ہے، اس کی خوشحالی اس قدر تھی کہ اس نے کراچی میونسپل کو دس لاکھ روپے گرانٹ دی تھی۔
کیٹی بندر کا قیام
کیٹی بندر شاہ بندر کے زمین میں دھنس جانے اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے تعمیر کیا گیا تھا، ’سندھ کے بندر اور بازار‘ کے مصنف دادا سندھی لکھتے ہیں کہ شاہ بندر کی تعمیر حیدرآباد شہر کے بانی میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1659 میں کی تھی اس سے قبل ارونگ بندر کے ذریعے تجارت ہوتی تھی جس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر نے کرائی تھی، شاہ بندر کی تعمیر کے بعد ارونگ بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرکے شاہ بندر آگئے جہاں قلعہ بھی تعمیر کرایا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
شاہ بندر 1819 میں اجڑنا شروع ہوا تھا جس کے بعد کیٹی بندر قائم کیا گیا تھا، جہاں سے بمبئی، مدراس، خلیج فارس اور سون میانی و مکران سے تجارت ہوتی تھی، نائو مل اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بندر سے کچھ بہج اور کاٹھیاواڑ سے یہ عمارتی لکڑی اور بھاری اشیا کی تجارت ہوتی تھیی۔
انگریزوں کے دور حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس بندر گاہ نے بڑی ترقی کی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی یہاں سے اشیا روانہ کرتی تھی اس بندر نے سندھ کی معشیت میں اہم کردار ادا کیا۔
صوبہ سندھ کے اس وقت کے کمشنر مسٹر ہڈسن نے اپنی 1905 کی رپورٹ میں کیٹی بندر کا مرکزی اور تجارتی شہر کے طور پر ذکر کیا ہے، 1845 میں اس کی آبادی 2542 درج کی گئی تھی اور 1932 میں اس کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔
مچھلی کی تجارت اور بندرگاہ کے علاوہ اس علاقے میں زرعی زمین بھی زرخیز تھی جس کو دریائے سندھ ہر سال سیراب کرتا تھا، یہاں سرخ چاول سمیت کیلے، ناریل، خربوزہ اور تربوز سمیت مختلف قسم کے پھلوں کی پیدوار ہوتی تھی۔
اس بندرگاہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی برطانوی حکومت نے کیٹی بندر میں کسٹمز آفس، نیویگیشن، مانیٹرنگ اور پورٹ ٹیکسیشن کا بنیادی نظام نافذ کیا ہوا تھا۔
کیٹی بندر کا زوال
دریائے سندھ پر جیسے ہی جدید نہری نظام بنایا گیا اور 1932 میں سکھر بیراج کی تعمیر ہوئی یہاں دریائی پانی کی آمد کم ہوتی گئی جس سے اس کی زراعت متاثر ہونے لگی اور کیٹی بندر اپنی شان و شوکت گنواتا گیا۔
کیٹی بندر پر تجارت اور اس کا انتظام ہندو کمیونٹی کے پاس تھا، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد 7 ہزار سے 8 ہزار ہندو لوگ یہاں سے ایک بحری جہاز کے ذریعے انڈیا نقل مکانی کر گئے۔ اینتھروپولجسٹ عبدالحق چانگ کے مطابق 1965 کی جنگ کے بعد باقی ہندو خاندان بھی یہاں سے چلے گئے۔
ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ انیسویں صدی سے اس بندرگاہ نے عروج گنوانا شروع کیا کراچی پورٹ ٹرسٹ بنا گیا اس کے بعد ریلوے سروس کا قیام ہوگیا جس سے پنجاب میں ہونے والی کپاس اور گندم پورٹ تک جانے لگی جبکہ کیٹی بندر تک کوئی براہ راست رسائی نہیں تھی اس وجہ سے اپنی اہمیت کھونے لگا۔
دریائی پانی کی آمد کم ہوتی گئی اور زرعی زمینیں غیر آباد ہوگئیں اور لوگوں کی مالی حالت کمزور پڑتی گئی، عبدالحق بتاتے ہیں کہ 1992 تک بھی صورتحال کچھ بہتر تھی لیکن جب دریا کا پانی نہیں آیا تو زیر زمین سمندری پانی آگے بڑھتا گیا اور پینے کا پانی بھی دستیاب ہوگیا اور نتیجے میں لوگو ں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑ گئی۔
سمندر کے سپاہی
کیٹی بندر شہر سیلابوں اور طوفانوں کا مقابلہ بھی کرتا رہا ہے، سنہ 1857، 1877 اور 1910 میں سمندری طوفان اور سمندری پیش قدمی کی وجہ سے یہ شہر تین مرتبہ ڈوب چکا ہے۔ آرکیالوجسٹ اور محقق ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری بتاتے ہیں کہ انگریزوں کے زمانے میں زلزلے کی وجہ سے یہ بندرگاہ ریت میں دھنس گئی جس کے بعد دو کلومیٹر دور واقع حالیہ کیٹی بندر کا شہر بنایا گیا تھا۔
1941 میں آنے والے طوفان سے بھی یہ محفوظ رہا لیکن 1999 کے طوفان نے اس علاقے اور آس پاس میں بڑی جانی اور مالی تباہی مچائی، محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ سمندری طوفان بپر جوائے بھی اس طرز کا ہے اس کے کیٹی بندر سے ٹکرانے کے امکانات تھے لیکن یہ طوفان انڈین گجرات کی طرف بڑھ گیا۔
اینتھروپولجسٹ عبدالحق چانگ کہتے ہیں کہ دریائی پانی نہ آنے کی وجہ سے مینگروز کم ہوتے گئے جو سمندر کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں طوفان میں اٹھنے والی لہروں کو کمزور کرتے ہیں اس لیے مقامی ماہی گیر ان مینگروز کو سمندر کے سپاہی قرار دیتے ہیں۔
حکومت سندھ نے کیٹی بندر میں 2009 کو ایک روز میں پانچ لاکھ سے زائد مینگروز لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جس کے بعد دو مرتبہ یہ مشق کی گئی ہے جس کے نتیجے میں یہاں مینگروز کی افزائش بہتر ہوئی ہے۔
تاہم کھارو چھان سمیت ایک بڑی اراضی اس وقت سمندر نگل چکا ہے، سمندر کی پیش قدمی روکنے کے لیے دیوار بھی بنائی گئی لیکن یہ شہر کو محفوظ نہیں رکھ پاتی۔
کیٹی بند کی بحالی کی کوشش
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت تک کیٹی بندر کی بندرگاہ سمیت کئی منصوبے بنائے گئے ہیں، بینظیر بھٹو نے 1994 میں تھر سے نکلنے والے کوئلے پر یہاں بجلی گھر بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن میاں نواز شریف کی حکومت نے اس منصوبے کو مسترد کردیا۔
ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو دور حکومت میں یہاں بندرگاہ کے لیے سڑک بھی بنائی گئی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار ہوئی لیکن بعد میں ترجیحات بدل گئیں اور گودار بندرگاہ کو اوّلیت حاصل ہوگئی۔
سنہ 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہاں ذوالفقار آباد کے نام سے ایک نیا صنعتی شہر بنانے کی منصوبہ بندی کی جس میں چینی سرمایہ کار دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے تاہم سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جس کے بعد یہ منصوبہ بھی التوا کا شکار ہوگیا۔