چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکہ کے سابق اعلیٰ سفارت کار ہنری کسنجر کا پرتپاک استقبال کیا ہے کیونکہ امریکہ چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ ہنری کسنجر کا چین کے دارالحکومت بیجنگ کا اچانک دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اعلیٰ امریکی حکام وہاں کا مسلسل دورہ کر رہے ہیں۔
کسنجر سنہ 1970 کی دہائی میں امریکہ کے سیکرٹری خارجہ رہ چکے ہیں۔ اب ان کی عمر 100 سال ہے۔ انھوں نے 1970 کی دہائی میں چین کو سفارتی تنہائی سے نکلنے میں مدد فراہم کی تھی اور ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم امریکہ نے زور دے کر کہا ہے کہ ہنری کسنجر ایک نجی شہری کی حیثیت سے چین کا دورہ کر رہے ہیں۔
لیکن چین میں ان کا جس طرح خیرمقدم کیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ امریکی مذاکرات کے لیے بیک چینل کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن پر چینی صدر شی جن پنگ کو مسکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب انھوں نے امریکی سابق سفارتکار ہنری کسنجر سے کہا: ’مجھے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، سر۔‘
ان کی ملاقات ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ہوئی جہاں عام طور پر غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ سرکاری ملاقاتیں ہوتی ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ’یہ وہی جگہ ہے جہاں نصف صدی قبل ہنری کسنجر نے ایک خفیہ دورے میں چینی حکام سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات نے امریکہ اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد کی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھولیں گے، اور امریکہ چین تعلقات اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان دوستی کو فروغ دینے کے لیے آپ کے تاریخی تعاون کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
صدر شی کا پیار بھرا لہجہ دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے مفاہمت کے پیغامات کی عکاسی کرتا ہے جنھوں نے ہنری کسنجر سے سوموار کو چین کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ملاقات کی۔
اعلیٰ سفارت کار وانگ یی اور وزیر دفاع لی شانگ فو کے ساتھ ان کی ملاقاتوں پر چینی بیانات میں دو سپر پاورز کے درمیان احترام، تعاون اور ’پرامن بقائے باہمی‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ان کے متعلق جو بیانات جاری کیے گئے ان میں بھی یہ حوالہ دیا گیا کہ ہنری کسنجر ’چین کے دوست‘ ہیں اور ’نہ تو امریکہ اور نہ ہی چین ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا برتاؤ کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں‘ اور یہ کہ ان کے تعلقات ’دنیا میں امن اور ہمارے معاشرے کی ترقی کے لیے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔‘
چینی سرکاری میڈیا نے ہنری کسنجر کے دورے کو مثبت انداز میں پیش کیا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ہنری کسنجر کی صلاحیت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
چین کی مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ویبو پر اس ہیش ٹیگ کے ساتھ گفتگو کی جا رہی ہے کہ ’کسنجر 100 سال کے ہونے کے باوجود دورے کے لیے بیجنگ تک پرواز کر سکتے ہیں۔‘
لیکن کچھ آن لائن صارفین نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صد سالہ شخص کو بھیج رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’زیادہ عقلمند سیاست دان کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘
’امریکہ کو کسنجر کی سفارتی دانشمندی کی ضرورت ہے‘
رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ ہنری کسنجر کے سفر سے آگاہ ہیں اور اگر وہ واپسی پر انھیں بریفنگ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ ’حیران نہیں ہوں گے۔‘
لیکن انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ وہاں ’اپنی مرضی سے‘ گئے ہیں اور امریکی حکومت کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔
ایک شہری کے طور پر صدر شی اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ اپنی بات چیت میں ہنری کسنجر زیادہ صاف گوئی سے کام لے سکتے ہیں اور ان کی یہ حیثیت امریکی تحفظات اور مطالبات پیش کرنے میں انھیں زیادہ سہولت فراہم کرتی ہے۔
ان کے لیے چینی وزیر دفاع لی شانگ فو جیسی شخصیات سے ملنا بھی کم متنازع ہے، جنھیں روس سے ہتھیار خریدنے پر سنہ 2018 سے امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔
گذشتہ ماہ بیجنگ نے پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے وزیر دفاع لی شانگفو کو سنگاپور کے ایک فورم میں ان کے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن سے ملنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس میں حیرت کی بات نہیں کہ ہنری کسنجر نے اپنے دورے میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دسمبر میں ایک انٹرویو کے دوران ہنری کسنجر نے چین کے بارے میں ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر پر تنقید کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت ایک ایسی گفتگو کی کوشش کر رہی ہے جو ’عموماً چینی برائیوں کے بیان سے شروع ہوتی ہے‘ اور یہ کہ بات چیت ایسی تھی جس کے ’کسی نتیجے پر پہنچنے کے امکانات مسدود‘ تھے۔
واضح رہے کہ ہنری کسنجر چین کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ وہ 100 سے زیادہ بار اس ملک کا دورہ کر چکے ہیں اور آخری بار سنہ 2019 میں صدر شی سے ملے تھے جبکہ ان کا یہ دورہ امریکہ چین تعلقات میں ایک اہم موڑ پر ہو رہا ہے۔
رواں سال جاسوس غبارے کے واقعے کی وجہ سے تناؤ میں شدت آنے کے بعد چین کی جانب سے چند ہفتوں کے دوران اعلیٰ امریکی حکام کا مسلسل خیرمقدم کرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مذاکرات دوبارہ پٹری پر آ رہے ہیں۔
امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے گذشتہ ماہ چین کا دورہ کیا تھا اور چینی صدر نے ان سے ملاقات کی تھی۔ ان کے بعد ہنری کسنجر ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن سے صدر شی ملے ہیں جو اس بات کا غماز ہے کہ سابق سفارتکار کا وہاں اب بھی کس قدر احترام کیا جاتا ہے۔
وزیر خزانہ جینٹ ییلن اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے موسمیات جان کیری نے بھی بیجنگ کا دورہ کیا لیکن انھیں چین کے صدر سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہو سکا۔
ہنری کسنجر کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کر کے بیجنگ نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے زیادہ دوستانہ تعلق اور کم جنگی رویہ چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چینی سفارتکار وانگ نے کہا کہ ’امریکہ کی چین کے تئيں پالیسی کو کسنجر کی سفارتی دانشمندی اور نکسن کی سیاسی جرات کی ضرورت ہے۔‘
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات وین ٹی سنگ نے کہا کہ اس سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ چین آخر کار اپنی ترجیحات پر قائم رہے گا۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بیجنگ ممکنہ طور پر ہنری کسنجر کے دورے کے بعد خیر سگالی کے اشارے پر غور کر سکتا ہے۔ یہ اپنے دوست کا شکریہ ادا کرنے اور کسنجر کے موقف کو بڑھانے دونوں کے لیے ہو سکتا ہے۔‘
’لیکن یہ توقع نہ کریں کہ یہ امریکہ اور چین کے تعلقات کے بنیادی اصولوں کو معنی خیز طور پر تبدیل کرے گا، جسے بیجنگ انفرادی لحاظ سے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے طور پر دیکھتا ہے۔‘
اگرچہ ہنری کسنجر کو ویتنام جنگ میں اپنے کردار کی وجہ سے ایشیا کے دیگر حصوں میں ایک متنازع شہرت حاصل ہے لیکن چین میں وہ دنیا کے ساتھ ملک کی دوبارہ شمولیت میں مدد کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سنہ 1971 میں جب امریکہ اور چین کے درمیان باضابطہ طور پر کوئی تعلقات نہیں تھے اس وقت ہنری کسنجر نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورے کا اہتمام کرنے کے لیے بیجنگ کا خفیہ دورہ کیا تھا۔
اس کے اگلے سال امریکی صدر رچرڈ نکسن چینی سرزمین پر اترے اور ماؤ زے تنگ سمیت دوسرے اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات کی۔ انھوں نے امریکہ اور چین کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے اور چین کی معیشت کو کھولنے کی راہ ہموار کی تھی۔