گذشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے دو کروڑ دس لاکھ سے زیادہ نئے ووٹرز نے اپنا اندراج کروایا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اب پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد بڑھ کر 12 کروڑ 69 لاکھ سے زیادہ ہو چکی جن میں نوجوان ووٹرز (18 سے 35 سال) کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں سے لگ بھگ 45 فیصد ایسے ہیں جو نوجوان ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی ایسی سیاسی پارٹی سے اپنے مستقبل کی امیدیں کیونکر وابستہ کرے گی جس کی قیادت کرنے والے قائد، چیئرمین یا شریک چیئرمین پہلے ہی ریٹائرمنٹ کی عمر سے کافی اوپر جا چکے ہیں؟
الیکشن کمیشن نے اگرچہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی ہے مگر امکان یہی ہے کہ نیا الیکشن فروری 2024 سے قبل ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف آئندہ عام انتخابات کے وقت 73 برس کے ہوں گے، شہباز شریف 72 برس، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین 71 برس جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 68 برس سے زیادہ کے ہوں گے۔
یہاں ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ آیا آئندہ عام انتخابات کے وقت عمران خان جیل سے باہر اور الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے یا نہیں اور نہ ہی یہ ڈسکس کریں گے کہ نواز شریف انتخابات سے قبل اپنی نااہلیت ختم کروا پائیں گے یا نہیں!
اگرچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پی پی پی اور ن لیگ، میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی قیادت بھی میسر ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آج بھی ان پارٹیوں میں اہم اور بڑے فیصلے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی آشیرباد کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کثیر تعداد میں نوجوان ووٹرز کی موجودگی کے باعث بڑی عمر کے سیاست دانوں کی قیادت پر بحث آئے روز کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے اور یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آیا سیاسی میدان میں موجود لیڈر شپ کبھی یہ بھی سوچے گی کہ قیادت کرنے کے لیے اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں؟
اس بحث کے علاوہ کہ ’جیرونٹوکریسیز‘ (یعنی وہ معاشرے جہاں نظام حکومت بڑی عمر کے لوگ چلاتے ہیں) عام طور پر کسی بھی ملک کی اصل آبادی کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں، دیگر خدشات بھی موجود ہیں۔
ان خدشات میں ایک اہم عنصر ذہنی صحت بھی ہے۔ نیورو سائنس اور علم نفسیات سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ذہنی کارکردگی وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہے، جس سے یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا کوئی شخص بڑھاپے میں قیادت کرنے کے لائق ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، کیونکہ اگرچہ کچھ مہارتیں عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہیں لیکن بعض میں بہتری بھی آتی ہے۔
یہاں تک کہ کچھ ’سپر ایجرز‘ (وہ افراد جن کے دماغ کی صلاحیتوں پر اوسط افراد کی نسبت بڑھاپا سست رفتاری سے اثرانداز ہوتا ہے) خود سے کئی دہائیوں چھوٹے افراد سے ذہنی طور پر زیادہ تندرست ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر قیادت کرنے کے لیے ’حدِ عمر‘ کتنی ہو سکتی ہے؟ یا یہ کہ جب قیادت کی بات ہو رہی ہو تو عمر کا سوال ہی غلط ہے؟
بی بی سی فیوچر کے لیے کرسٹن رو نے انھی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
بڑھاپا دماغ کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟
دماغ کا حجم وقت کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے۔ صحت مند لوگوں میں ’پریفرنٹل کورٹیکس‘ یعنی شعور و ادراک والے دماغ کے حصے میں عمر سے متعلق حجم میں سب سے زیادہ کمی ہوتی ہے۔ یہ ہر گزرتے دس برس (یا ایک دہائی میں) میں تقریباً 5 فیصد کم ہوتا جاتا ہے۔
یہ حصہ دماغ کے دوسرے حصوں سے اپنے رابطے کے ذریعے ’ایگزیکٹیو فنکشن‘ کو منظّم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ’ایگزیکٹیو فنکشن‘ ذہنی عمل کا ایک پیچیدہ مجموعہ ہے جسے ’تھرموسٹیٹ‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ مسائل کو حل کرنے، ہدف طے کرنے اور جذبات پر قابو پانے جیسے شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔
ایک عام شخص میں عمر کی 30 کی دہائی کے دوران ’ایگزیکٹیو فنکشن‘ میں بتدریج کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور جب ہم 70 کی دہائی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں تیزی سے کمی آنے لگتی ہے۔
یہ عمر کا وہ حصہ ہے جب ’وائیٹ میٹر ڈیزیز‘ (یا دماغ میں سفید مادے کی بیماری) دماغ کی ایگزیکٹیو بدنظمی میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ ’وائیٹ میٹر ڈیزیز‘ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تقریباً ایک تہائی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
کسی بھی شخص کے دماغ میں ’ایگزیکٹیو ڈس فنکشن‘ جذبات پر کم کنٹرول اور خیالات کی تکرار کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سینٹر فار نیورو پولیٹکس کے ڈائریکٹر مارک فشر کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں وقفہ لینے کے لیے 65 سال ایک مناسب عمر ہے۔‘ دماغ کی ساخت میں دیگر تبدیلیاں بھی اس عمر (65 برس) میں رونما ہونے لگتی ہیں۔ امریکی اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے ایک سائنسی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ 60 سال کی عمر سے دماغ کی پروسیسنگ سپیڈ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
تاہم اس معاملے میں کوئی لگا بندھا یا متعین اصول نہیں ہے کہ کس عمر میں کوئی شخص ایگزیکٹیو فنکشن کے زوال سے نمایاں طور پر متاثر ہو گا۔
’زبردست تغیر‘
مارک فشر وضاحت کرتے ہیں کہ عام طور پر صحت مند لمبی عمر اور ذہنی تندرستی کے معاملے میں اوسط کی بات توقعات کو غیر واضح کر سکتی ہے، اور اس چیز کو وہ ایگزیکٹیو فنکشن میں ’زبردست انفرادی فرق‘ کہتے ہیں۔
فشر کا کہنا ہے کہ ’ٹیسٹنگ کی بیٹری باضابطہ طور پر کسی کے ایگزیکٹیو فنکشن کا تعین کرنے کا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن کسی شخص کے کام کرنے کے طریقہ کار کے لحاظ سے اس میں وسیع فرق ملیں گے۔‘
ایک فرق بڑی عمر میں لاحق ہونے والی بیماریاں (جیسا کہ دل کی بیماری، ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ) ہیں جو دماغی کام، خاص طور پر ایگزیکٹیو فنکشن کو متاثر کر سکتی ہیں۔ بڑھاپا ہمیشہ بیماری کو دعوت نہیں دیتا مگر پھر بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ایگزیکٹیو فنکشن کے متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
مارک فشر کے مطابق ’ہائی بلڈ پریشر دماغ کی عمر بڑھنے پر مجموعی طور پر اور ایگزیکٹیو فنکشن پر عمومی طور پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والا فیکٹر ہے۔‘ اسی لیے ہائی بلڈ پریشر کی جلد تشخیص اور علاج دماغی صحت کی حفاظت کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ فشر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں علاج اور علم میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔
اس بات میں بھی فرق ہے کہ دماغ کے وہ حصے، جو دماغ کے دوسروں حصوں کو پہنچنے والے نقصان کی کسی نہ کسی حد تک تلافی کر سکتے ہیں، وہ بھی عمر کے ساتھ متاثر ہوتے ہیں۔
بہرحال بڑھاپے کے حوالے سے سب خبریں بُری بھی نہیں ہے۔ کچھ ایسے پہلو ہیں جہاں پرانے (یعنی بوڑھے افراد کے) دماغ دراصل بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اگرچہ عمر کے ساتھ دماغ کی نئی معلومات لینے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے لیکن معلومات کو پرکھنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت کسی شخص کی عمر کی 70 کی دہائی تک بہتر رہ سکتی ہے۔
لہٰذا 70 سال کے شخص کا دماغ شاید نئی معلومات کو 30 سال کی عمر کے دماغ کے مقابلے میں زیادہ سست رفتاری سے پراسیس کریں گا لیکن وہ ان معلومات کے تجزیے یا ترکیب سازی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ٹرانسلیشنل نیورو سائنسدان مارک میپ سٹون کا کہنا ہے کہ 60 سال کے لوگوں کے پاس عام طور پر 20 سال کے نوجوانوں کے مقابلے بہتر الفاظ ہوتے ہیں، اور اس طرح وہ الفاظ کو بہتر طریقے سے بدل یا بات کر سکتے ہیں۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کسی شخص کے 60 کی دہائی کے وسط تک الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا ہے۔
براؤن یونیورسٹی میں سیاسی نفسیات میں مہارت رکھنے والے روز میک ڈرموٹ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بڑے دماغوں کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ بہتر ہوتے جاتے ہیں، جسے کرسٹلائزڈ انٹیلیجنس کہا جاتا ہے۔ آپ کے پاس اس طرح کے قائم کردہ خاکے اور چیزوں کے بارے میں سوچنے کے طریقے ہیں اور آپ موجودہ ڈھانچے میں نئی معلومات کو زیادہ آسانی سے اور بہت سے معاملات میں تخلیقی انداز میں ضم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں لیکن جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا ہے کہ آپ نئی معلومات کو اس میں فٹ کر سکیں۔‘
سیاسی زندگی کی ذہنی خصوصیات
کچھ لوگوں کو ’سپر ایجرز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی عمر سے کم عمر کے لوگوں کے طور پر کام کرنے کی اہلیت کو بڑھتی عمر میں بھی برقرار رکھتے ہے۔ یہ 80 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ ہوتے ہیں جن کی ذہنی صحت ان کی اصل عمر سے دو سے تین دہائیوں تک کم ہوتی ہے۔ سپر ایجرز کے ’اینٹورینل کورٹیکس‘ میں بڑے اور صحت مند نیوران نظر آتے ہیں۔ ’اینٹورینل کورٹیکس‘دماغ کا وہ حصہ ہے جو یادداشت کے لیے اہم ہے۔ اس لیے اس میں حیرت کی بات نہیں کہ سپر ایجرز اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں میموری ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دماغی ٹشوز اور دماغی افعال کو محفوظ رکھنے کے لیے جسمانی سرگرمی، ذہنی ہیجان اور سماجی تعلقات وغیرہ بھی کافی اہم ہیں۔ سیاسی قیادت یقینی طور پر کم از کم ذہنی چیلنج اور سماجی رابطے کے حصے فراہم کرتی ہے، اور طاقتور لوگوں کو مالی تحفظ اور بہترین صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سمیت بہت سی مراعات ملنے کا امکان ہوتا ہے۔
اگرچہ عمر بڑھنے سے عام طور پر کچھ ذہنی مسائل پیش آتے ہیں لیکن سیاسی رہنماؤں کے لیے ایسا ہونا ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی میں کلینیکل نیورو سائیکالوجی کی پروفیسر باربرا سہاکیان کا کہنا ہے کہ ’سوچنے اور مسائل کے حل کرنے میں ذہنی لچک، غیر یقینی صورتحال اور خطرے کے تحت اچھے معیار کے فیصلے کرنا سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک لازمی امر ہے۔ اور اس قسم کے فیصلے بڑھتی عمر کے سبب اکثر اوقات محدود ہو جاتے ہیں۔‘
بہر حال، ذہنی لچک عام طور پر وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
عمر کے ساتھ منسلک کچھ ذہنی تبدیلیاں ووٹرز کے لیے خاص طور پر خطرناک ہو سکتی ہیں کیونکہ اس سے ایک چیز یہ ظاہر ہوتی ہے کہ دماغ کی عمر بڑھنے سے سیاسی لوگوں کے رویوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔
فشر اور ان کے ساتھیوں نے جنوبی کیلیفورنیا کے ریٹائر ہونے والے افراد پر ایک انوکھا مطالعہ کیا ہے۔ ان ریٹائر شدہ افراد کی اوسط عمر 95 سال ہے۔
اس میں یہ پایا گيا ہے کہ سیاسی نظریہ مجموعی طور پر چھ ماہ کے عرصے میں مستقل رہا لیکن ادارک کی خرابی کے شکار افراد نے اپنے سیاسی رجحان اور پالیسی کے انتخاب میں تضاد ظاہر کیا۔
اس مطالعے کے بارے میں فشر نے کہا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذہنی خرابی کا نتیجہ ہے کہ کسی کا سیاسی رویہ کسی کی بیان کردہ پالیسی سے نسبتاً بے ترتیب ہو گیا ہے۔‘
بہرحال نیورو سائنس اور پولیٹیکل سائنس کا مشترکہ شعبہ ’نیورو پولیٹکس‘ کے اپنے ہی ناقدین ہیں۔ معذوری پر کام کرنے والے چند سکالرز کا کہنا ہے کہ سیاسی رویوں کے لیے حیاتیاتی وضاحتیں تلاش کرنا آسان ہے۔
سیاسی رہنماؤں کے لیے فہم و ادارک کی سکریننگ
دماغ پر بڑھتی عمر کے اثرات کے شواہد کے پیش نظر مارک فشر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ان کے کچھ ساتھی سیاست دانوں کے لیے ذہنی سکریننگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
میپ سٹون بتاتے ہیں کہ ذہنی فعل کا اندازہ بنیادی طور پر نیورو سائیکولوجیکل تشخیص کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ معیاری ٹیسٹوں کا ایک مجموعہ ہے جو اس قدر مفصل اور وسیع ہو سکتا ہے کہ اسے کرنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ ادویات کے ماہر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کلینکل فیکلٹی کے رکن مانیجہ برینجی کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کے یہ جائزے قابل عمل اور منصفانہ مطالبہ ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کی صدارتی امیدوار نِکی ہیلی 75 سال سے زیادہ عمر کے سیاست دانوں کے ذہنی استعداد کے ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں لیکن اس مطالبے کحے ناقدین نے اس نقطہ نظر کو ’عمر مخالف‘ کہا اور اس کے نفاذ کو مشکل بتایا ہے۔
میونخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہانس فرسٹل کا خیال ہے کہ ذہنی پیچیدگیوں اور ریاست کے سربراہ ہونے کے تقاضوں کے تعلق کو پکڑنا تشخیص میں مشکل ہو گا۔
فرسٹل کا کہنا ہے کہ ’روز مرہ زندگی کی سرگرمیاں، روزمرہ کے معمولات اور چیلنجز کے دوران ذہنی کارکردگی فیصلہ کن ہوتی ہے، نہ کہ چھوٹے یا طویل ٹیسٹ کے دوران سکرین پر نظر آنے والی کارکردگی۔‘
میک ڈرماٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس نوعیت کے ٹیسٹوں کے نتائج کافی حد تک درست ہوتے ہیں کسی بھی ملک میں سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ مطالبہ ناقابل عمل ہے۔ بعض سیاستدانوں کے معاملے میں پولرائزڈ نوعیت کو دیکھتے ہوئے میک ڈرماٹ کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ (ان ٹیسٹوں میں) پاس ہو جاتے تو کیا عوام اس پر یقین کریں گے؟‘
عوام جو بھی فیصلہ کریں، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ذہنی جانچ کا کوئی ٹیسٹ بھی کبھی اس بحث کو ختم کر پائے گا۔