اہم خبریں

کیا مرچوں سمیت کچھ غذائیں واقعی ایسی ہیں جنھیں کھا کر آپ کو زیادہ دیر تک بھوک محسوس نہیں ہوتی؟

ممکن ہے کہ آپ کی ہفتہ وار خریداری میں کچھ ایسے کھانے بھی شامل ہوں جن کے پیکٹ پر یہ لکھا ہو کہ اس پیکٹ کے اندر موجود کھانا نہایت مزیدار ہو گا، بہت دنوں تک تازہ رہے گا اور آپ کی صحت کے لیے بھی اچھا ثابت ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ پیکٹوں پر آپ کو یہ بھی لکھا ملے کہ یہ کھانا آپ کا پیٹ بھر دے گا اور بہت دیر تک آپ کو دوبارہ بھوک نہیں لگے گی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی کوئی خوراک ایسی ہو سکتی ہے جو ہماری بھوک کو دبا دے؟

امپیریئل کالج لندن سے منسلک ماہر خوراک گیری فراسٹ کے مطابق اگرچہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کھانے کی کچھ چیزیں، مثلاً مرچیں اور ادرک، کھانے سے ہماری بھوک کم پڑ جاتی ہے، لیکن ان ماہرین کی تحقیق میں اکثر بڑی مقدار میں کھائی جانے والی خوراک کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ تحقیق انسانوں کی بجائے جانوروں پر کی جاتی ہے۔ گیری فراسٹ کہتے ہیں کہ انسانوں پر اثرات کا مطالعہ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم ایک تحقیق ایسی سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آیا مرچ میں پائی جانے والی ایک شے (کیپسیسن) واقعی بھوک کم کرتی ہے یا نہیں۔ کیپسیسن وہ عنصر ہوتا ہے جو مرچوں کو تیکھا ذائقہ دیتا ہے۔ اپنی تحقیق کے آغاز میں باؤلِنگ اینڈ گرین یونیورسٹی سے منسلک ماہرِ خوراک، پروفیسر میری جون لوڈی نے اپنے کھانوں میں آہستہ آہستہ مرچوں کی مقدار بڑھانا شروع کر دی۔ جب ان کو لگا کہ ان کے علاقے میں رہنے والے لوگ اس سے زیادہ تیکھا کھانا نہیں کھا سکتے تو انھوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کر دیا تاکہ دیکھا جائے کہ کیپسیسن کھانے سے بھوک مر جاتی ہے یا نہیں۔

اس مقصد کے لیے انھوں نے 25 لوگوں کو چھ مرتبہ اپنی لیبارٹری میں بلایا اور انھیں ٹماٹر کے سُوپ کے پیالے پینے کو دیے۔ سوپ پینے کے بعد یہ لوگ ساڑھے چار گھنٹے کے لیے لیبارٹری میں ہی رہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اس سوپ کا ان کی بھوک پر کیا اثر پڑا اور اس دوران ان کی جسمانی توانائی میں کیا اتار چڑھاؤ ہوا۔ مقررہ وقت کے بعد انھیں ایک اور کھانا دیا کہ کہا گیا کہ وہ جتنا کھا سکتے ہیں کھائیں۔

جس دن ان لوگوں کے سوپ میں ایک گرام مرچیں ڈالی گئیں، تو اگلے ساڑھے چار گھنٹے میں ان کے جسم میں 10 کیلوریز کی کمی دیکھی گئی، یعنی انھوں نے زیادہ توانائی خرچ کی۔ تجربے میں شامل وہ افراد جو مہینے میں صرف ایک مرتبہ مرچیں کھاتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مرچوں والا سوپ پینے کے بعد انھیں اگلے کھانے کا خیال کم آیا، یعنی ان کی بھوک کم ہو گئی۔

چانچہ جب انھیں کھانا دیا گیا تو انھوں نے اُن لوگوں کے مقابلے میں جو عموماً ہفتے میں تین یا اس سے زیادہ مرتبہ مرچیں کھاتے تھے، 70 کیلوریز کم کھانا کھایا۔ پروفیسر لُوڈی نے اپنا یہی تجربہ سوپ کی بجائے کیپسول میں مرچیں ڈال کر دہرایا، لیکن انھوں نے دیکھا کہ تجربے کے شرکا میں بھوک کم نہیں ہوئی، یعنی مرچوں نے اسی وقت کام کیا جب انھیں سُوپ میں ڈال کر دیا گیا۔

ان کے بقول اس سے ایک اہم بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرچیں اسی وقت کام کرتی ہیں جب ہم ان کے تیکھے پن یا کڑواہٹ کو اپنی زبان پر محسوس کرتے ہیں۔

لیکن، تیز مصالحے والے کھانے کے بعد ہمارے جسم کا دس کیلوریز زیادہ جلانا کوئی بڑی بات نہیں اور ہماری بھوک پر اس کے کوئی دیرپا اثرات نہیں ہوتے۔ گیری فراسٹ کہتے ہیں کہ جس قسم کی تحقیق پروفیسر لُوڈی نے کی ہے اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ مرچ کھانے سے کچھ دیر کے لیے ہماری بھوک مر جاتی ہے، لیکن اس سے دیرپا اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔

پروفیسر لُوڈی کی طرز پر 32 اور ماہرین نے بھی تحقیق کی ہے اور ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرچیں کھانے یا سبز قہوہ پینے سے ہماری بھوک پر ہمیشہ اثر نہیں پڑتا اور صرف وقتی طور پر ہمیں بھوک کم لگتی ہے۔

ہماری خوراک میں شامل ایک اور چیز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے بھوک مر جاتی ہے، وہ ہے کافی۔ کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر میتھیو شوبرٹ نے اس قسم کی تحقیق کا جائزہ لیا تاکہ دیکھا جائے کہ آیا واقعی کافی میں کوئی ایسی چیز ہے جس سے ہماری بھوک کم ہو جاتی ہے۔

ان تجربات میں سے کچھ میں دیکھا گیا ہے کہ کافی پینے کے بعد ہمارا معدہ جلد خالی ہو جاتا ہے، اور معدے میں موجود خوراک چھوٹی آنت میں چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کی بھوک کم ہو جاتی ہے۔

یہاں تک کہ اگر مستقبل میں کسی تحقیق میں یہ راز بھی کھل جاتا ہے کہ کافی واقعی ہماری بھوک کو دبا دیتی ہے تو اس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہی ہو گا کہ ہم پورے دن میں 100 یا 200 کیلوریز کم خوراک کھائیں گے، جو کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔

خوراک کے کچھ خاص اجزا کے علاوہ، ماہرین نے میکرو نیوٹرنٹس اور ہماری بھوک پر ان کے اثرات کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ مثلاً عام طور پر کہا جاتا ہے اگر ہم فائبر یا ریشوں والی خوراک کھائیں تو ہمارا وزن کم بڑھتا ہے۔ لیکن گیری فراسٹ کہتے ہیں کہ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب ہم بہت زیادہ مقدار میں مسلسل فائبر کھاتے رہتے ہیں۔

’کہا جاتا ہے کہ ہمیں روزانہ 30 گرام فائبر کھانا چاہیے، لیکن برطانیہ میں زیادہ تر لوگ 15 گرم فائبر کھاتے ہیں۔ اگر آپ بھی اپنی خوراک میں ریشے دار اجزا کی مقدار 30 گرام روزانہ تک بڑھا لیتے ہیں تو تب بھی آپ کی بھوک پر اس کے عارضی اثرات تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ اثر کچھ وقت کے بعد ختم ہو جائے گا۔‘

تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ مقدار میں پروٹین کھانے سے بھی بھوک کم ہو جاتی ہے، لیکن یہ چیز بہت چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے تجربات میں سامنے آئی ہے۔

کئی ایک تجربات میں یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ وہ کون سے میکرونیوٹرنٹس ہیں جو کھانے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا پیٹ بھر گیا، لیکن ان کے کوئی واضح نتائج نہیں دیکھے گئے۔ اس حوالے سے کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں مارکیٹنگ کے پروفیسر یان کورنِل کہتے ہیں کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ پروٹین آپ کو مطمئن کرنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے، لیکن وہ اتنے واضح نہیں ہیں اور عام طور پر اس کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں، اور مختلف قسم کے میکرونیوٹرینٹس کا موازنہ کرنا مشکل ہے۔‘

نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر، مارٹن کوہلمیئر بھی یہی کہتے ہیں کہ ’اپنی بھوک کم کرنے کے لیے مخصوص قسم کی خوراک کی طرف دیکھنے کے بجائے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم کافی مقدار میں پانی پی رہے ہیں یا نہیں، کیونکہ پانی سے کچھ دیر کے لیے ہماری بھوک تھم جاتی ہے۔‘

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ لوگ جو کھانے سے پہلے دو گلاس پانی پیتے ہیں، وہ کم کھانا کھاتے ہیں۔

لیکن گیری فراسٹ کہتے ہیں کہ ’جسمانی سطح پر ہماری بھوک میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی چھوٹی اور دیرپا ہو گی، کیونکہ اس سے جسمانی طور پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا کھانا ہو گا جو ہمیں کم کھانے پر مجبور کرے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ حالیہ عرصے میں ہی ہوا ہے کہ مغربی معاشرے میں ہم نے ضرورت سے زیادہ کھانا کھانا شروع کر دیا ہے۔ تمام انسانی ارتقا کے دوران ہم بہت کم خوراک کے ساتھ رہتے رہے تھے، اور یہ کھانا قسطوں میں ملتا تھا۔ ہماری جسم بنا ہی ایسا ہے کہ یہ کھانے کی طرف راغب رہتا ہے۔‘

’اگر کھانے کا کوئی ایسا جزو ہے جو بھوک کو دباتا ہے، تو زندہ رہنے کے لیے آپ کو اس سے مکمل پرہیز کرنا پڑے گا۔‘

کوہلمیئر کے بقول اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی کھانے پینے کی چیز ہماری بھوک کو زیادہ عرصے تک دبا نہیں سکتی ہے کیونکہ قدرتی طور پر ہمارے جسم کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ یہ اپنے وزن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

’ہمارے جسم میں ایسا نظام موجود ہے جو ہمارے وزن کی حفاظت کرتا ہے۔ ارتقائی نقطہ نظر سے، انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ فاقہ کشی تھا، نہ صرف اس لیے کہ فاقہ کشی آپ کی جان لےسکتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ بھوک جسم کو کمزور کر دیتی ہے اور آپ کو متعدی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔‘

کوہلمیئر مزید کہتے ہیں کہ ’جسم کا وہ نظام جو اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ ہم کتنا کھانا کھاتے ہیں، یہ نظام ہمارے جسم کے اندر موجود پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔‘

’اگر آپ اپنے جسم کو ایک بڑی مشین سمجھیں، جس میں بہت سی چیزیں (مختلف کھانے) باہر سے ڈالی جا سکتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس مشین کو خوراک کے علاوہ کافی مقدار میں پانی، میکرو نیوٹرنٹس اور مائیکرونیوٹرنٹس بھی درکار ہوتے ہیں۔‘

یوں ان نیوٹرنرنٹش یا اجزا میں سے کئی ایسے ہیں، جن کی مقدار اگر جسم میں کم ہو جاتی ہے تو ہمیں بھوک لگنے لگتی ہے۔

’ہماری خوراک دراصل ایک پورا نظام ہے جسے ہمیں مسلسل قائم رکھنا ہوتا ہے۔ کسی شخص کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس وقت میرے جسم کو کیا چاہیے اور یہ چیز مجھے کس خوراک میں ملے گی؟ ہمارے جسم میں بھوک پیدا کرنے والے نظام نہایت پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔‘

کوہلمیئر کے بقول ’بھوک سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک متوازن خوراک کھائیں تاکہ ہمارا جسم کسی خاص چیز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں زیادہ کھانے کی طرف راغب کرے۔‘

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نفسیات ہماری بھوک پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو کئی عشروں سے ماہرین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ سنہ 1987 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں کہا گیا تھا کہ کھانا دیکھنے اور سونگھنے سے ہمارے جسم کو یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ اس کھانے کو ہضم کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

مضمون کے مطابق اگر ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ اِس کھانے سے ہماری بھوک ختم ہو جائے گی تو اس کا ہماری بھوک پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔

پروفیسر یان کورنِل کہتے ہیں کہ ہمارے عقائد، کھانے سے ہماری توقعات اور ہماری (پرانی) یادیں وہ چیزیں ہیں جو ہماری بھوک پر بہت اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی بہت کھا لیا ہے تو ہم سامنے پڑے ہوئے کھانے میں سے کم کھائیں گے اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے (کافی دیر سے) کچھ نہیں کھایا ہے تو ہم زیادہ کھائیں گے۔

ایک تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر ہمارے کھانے کے پیکٹ پر لکھا ہوا ہے کہ اس سے آپ کا پیٹ بھر جائے گا تو ہم وہ کھانا کم مقدار میں کھائیں گے اور اگر اس پر لکھا ہے کہ یہ ایک ’ہلکا پھلکا‘ کھانا ہے تو ہم وہ کھانا زیادہ کھائیں گے۔

آپ کی ہفتہ وار خریداری میں ہو سکتا ہے کہ ایسی خوراک موجود ہو جس سے آپ کو زیادہ دیر بھوک نہ لگے، لیکن ہمارے جسم کے ارتقائی عمل سے نمٹنے کا شاید ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایسی متوازن خوراک استعمال کریں جس میں وہ اجزاء اور پانی شامل ہوں جو آپ کے جسم کو چاہیے۔

نہ تو آپ قدرت کو دھوکا دے سکتے ہیں اور نہ ہی زیادہ دیر بھوک برداشت کر سکتے ہیں، البتہ جو چیز آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ خاص اجزا کی کمی کو پورا کرنے کے لیے خوامخواہ اپنے جسم میں زیادہ کیلوریز جمع کرنے کی کوشش نہ کریں۔