اہم خبریں

کیا روہت شرما وراٹ کوہلی کو ورلڈ کپ تحفے میں دے پائیں گے؟

سنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کی فتح کے بعد سامنے آنے والے سب سے یادگار لمحات میں سے ایک عظیم انڈین کرکٹر سچن تندولکر کو کندھوں پر اٹھائے جانے کا تھا۔

دو دہائیوں تک انڈین کرکٹ شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے سچن تندولکر کے پاس ورلڈ کپ کے علاوہ تمام ٹرافیاں تھیں۔

اسی لیے جب انھیں اپنے آخری ورلڈ کپ ٹورنامنٹ پر ورلڈ کپ کا تحفہ ملا تو اُن کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

جو نوجوان کھلاڑی اس یادگار فتح کے بعد اپنے ہاتھوں میں انڈین جھنڈا اور کندھوں پر تندولکر کو لے کر میدان کے چکر لگا رہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ وراٹ کوہلی تھے۔

اس سب کے بعد جب کمنٹیٹر ناصر حسین نے اُن سے اِس بارے میں پوچھا تو وراٹ نے جواب دیا کہ ’کئی دہائیوں سے سچن کروڑوں انڈین شائقین کی امیدوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، آج انھیں انڈین کرکٹ میں ان کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔‘

اب وقت بدل گیا ہے اور ٹھیک 12 برس بعد وراٹ کوہلی خود اپنے کریئر کے اس مرحلے پر کھڑے ہیں جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سال انڈین میں کھیلا جانے والا ون ڈے ورلڈ کپ ان کا آخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ انڈین ٹیم کوہلی کو وہ تحفہ دے سکتی ہے جو سچن تندولکر کو ان کے چھٹے اور آخری ورلڈ کپ میں ٹرافی کی صورت میں ملا تھا۔

سہواگ اتنے پُراعتماد کیوں ہیں؟

سابق انڈین اوپنر وریندر سہواگ نے ایک حالیہ تقریب میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ ٹیم بھی وہی جذبہ دکھائے جس طرح 2011 کی ٹیم نے سچن کے لیے ورلڈ کپ کھیلا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے وہ ورلڈ کپ تندولکر کے لیے کھیلا تھا۔ اگر ہم ورلڈ کپ جیت جاتے تو یہ سچن کے لیے کریئر کا شاندار اختتام ہوتا۔ وراٹ کوہلی اب اس مقام پر ہیں، انڈین ٹیم کا ہر کھلاڑی ان کے لیے ورلڈ کپ جیتنا چاہے گا۔‘

سہواگ نے کہا کہ ’کوہلی خود ہمیشہ سو فیصد سے زیادہ دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وراٹ کوہلی کی بھی اس ورلڈ کپ پر نظر ہے۔ احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں تقریباً ایک لاکھ افراد آپ کو کھیلتے ہوئے دیکھنے آئیں گے، وراٹ جانتے ہیں کہ پچز کیسی ہوں گی۔‘

’مجھے یقین ہے کہ وہ بہت زیادہ رنز بنائیں گے اور انڈیا کو کپ جتانے کی پوری کوشش کریں گے۔‘

تاہم آئندہ ورلڈ کپ میں فیورٹ بننے کے لیے انڈین ٹیم کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بائیں ہاتھ کے بلے باز کی تلاش

انڈین ٹیم کی ورلڈ کپ مہم پر بات کرتے ہوئے سابق انڈین ٹیسٹ کرکٹر روی شاستری نے روہت شرما کی ٹیم میں ایک بڑی کمزوری کی نشاندہی کی۔

شاستری کے مطابق انڈین ٹاپ آرڈر میں بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کی کمی کی وجہ سے ٹیم کے توازن میں مسئلہ ہے۔

سنہ 2011 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ٹیم میں گوتم گمبھیر، یوراج سنگھ اور سریش رائنا جیسے بائیں ہاتھ کے تجربہ کار بلے باز تھے۔

بائیں اور دائیں ہاتھ کے کمبینیشن کی وجہ سے بولرز کو اپنی لائن اور لینتھ کو مسلسل تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی اور اس کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ کی تعیناتی کو بھی ہر رن کے ساتھ تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

اگر ہم آسٹریلیا کی فاتح ٹیموں پر بھی نظر ڈالیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر بیٹنگ آرڈر کے پہلے چھ میں دو یا تین لیفٹ ہینڈر ضرور تھے۔

شاستری کے مطابق اس فارمولے کو آزماتے ہوئے ٹیم انڈیا کو اوپننگ جوڑی میں بھی تبدیلیاں کرنی چاہییں۔

روہت شرما اور شبمن گل کو اوپن کرنے کے بجائے ان میں سے کسی ایک کو بائیں ہاتھ کے بلے باز کو کھلایا جائے۔

ان کھلاڑیوں کو موقع ملا

رشبھ پنت کو پیش آنے والے کار حادثے کے بعد اب ان کے اکتوبر سے پہلے فٹ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

بائیں ہاتھ کے دو آل راؤنڈرز، رویندر جڈیجہ اور اکشر پٹیل، کے پاس ٹاپ آرڈر میں بیٹنگ کا تجربہ نہیں ہے۔

سلیکٹرز کو آئی پی ایل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو دیکھنا ہو گا اور ان کے پاس یشسوی جیسوال، اشن کشن اور تلک ورما جیسے آپشن ہوں گے۔

یہ تینوں بہت باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور انھیں ٹیم میں نوجوانوں کو شامل کرنے کے لیے ورلڈ کپ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

آنے والی سیریز میں ان کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ شاستری کا کم از کم دو بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کو ٹاپ سکس میں رکھنے کا خواب پورا ہو سکے۔

روہت شرما کا فارم میں آنا بہت ضروری

بیٹنگ کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیم کا کپتان پرانے ردھم اور فارم میں نظر آئے۔

انگلینڈ میں کھیلے گئے آخری ورلڈ کپ میں انھوں نے تین شاندار سنچریاں بنا کر انڈیا کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔

پچاس اوورز کی کرکٹ میں ٹیم کو اعتماد دلانے کے لیے روہت کو بڑی اننگز کھیلنی ہو گی، جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔

گذشتہ ورلڈ کپ کے بعد کرکٹ میں ان کی بیٹنگ میں وہ تسلسل کم ہی دیکھنے کو ملا ہے اور ان دنوں چاہے وہ ون ڈے ہو یا ٹی ٹوئنٹی، ان کی اوسط بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔

روہت شرما نے اس سال نیوزی لینڈ میں اپنی آخری ون ڈے سنچری بنائی تھی۔ وہ ون ڈے میں 30 سنچریاں بنا کر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں اور وہ ون ڈے میں تین ڈبل سنچریاں بنانے والے واحد کھلاڑی ہیں۔

کوہلی کی طرح یہ روہت کا بھی آخری ون ڈے ورلڈ کپ ہو سکتا ہے۔

انڈین کرکٹ میں کوہلی اور روہت کی جوڑی فلم ’شعلے ‘ کی جے اور ویرو کی جوڑی سے ملتی جلتی ہے جو ٹیم ورک میں پہلے نمبر پر ہے اور کسی بھی طاقتور اپوزیشن کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوہلی کو ورلڈ کپ جیت کا تحفہ دینے میں مرکزی کردار روہت شرما کا ہو گا۔

سپنرز سے دوہرا کردار ادا کرنے کی توقع ہے

انڈین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم ہو گا۔ انڈین ٹیم روی اشون، رویندرا جڈیجا، اکشر پٹیل، کلدیپ یادو اور یوزویندر چہل میں سے تین کا انتخاب کرنا چاہے گی۔

تاہم جدید کرکٹ میں سپنرز سے نہ صرف وکٹ لینے کی توقع کی جاتی ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر میچ کے آخر میں رنز بنانے کی بھی توقع بھی کی جاتی ہے۔

اس تناظر میں اشون، جڈیجہ اور پٹیل فٹ ہیں لیکن دھونی کی پسندیدہ چہل اور یادو کی جوڑی کی شمولیت کا امکان کم نظر آتا ہے۔

موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے شاید اشون، جڈیجہ، چہل اور پٹیل کو ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔

تیز بولنگ سر درد

فاسٹ باؤلنگ لائن اپ کی تیاری آئندہ ورلڈ کپ میں انڈین انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا درد سر ہو گا۔

جسپریت بمرا کا کھیلنا سوالیہ نشان ہے، ایسی صورتحال میں فاسٹ بولنگ کمزور نظر آنے لگتی ہے۔

محمد سراج نے اپنی بولنگ میں کافی بہتری لائی ہے۔ تیسرا سیمر کون ہو گا اس پر بڑی بحث ہو گی۔

کیا نوجوان ارشدیپ سنگھ ون ڈے کے لیے تیار ہیں؟ امیش یادیو اور جے دیو انادکت فارم میں دکھائی نہیں دیتے جبکہ نودیپ سینی کے حوالے سے بھی سوالات موجود ہیں۔

انڈین کنڈیشنز میں دوپہر کو ہونے والے میچوں کے دوران ریورس سوئنگ کی بھی گنجائش ہے لیکن کیا انڈین سیمرز اس کا فائدہ اٹھا سکیں گے؟

اس ٹیم کے کئی سینیئر کھلاڑیوں کا یہ آخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے اور یہ سب یقیناً جیت کے ساتھ اپنے کریئر کا اختتام کرنا چاہیں گے۔

لیکن انڈین ٹیم کو آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور پاکستان جیسی ٹیموں سے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انڈین ٹیم کی فتح اسی وقت ممکن ہو گی جب ایک یا دو کھلاڑیوں کے بجائے پوری ٹیم ایک کے طور پر کھیلے۔