تین سال پہلے تک اینڈریو ڈرگے کی کمپنی نے جن کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی تھی ان میں سے زیادہ تر امریکہ میں تھیں۔
ریپبلک ٹیکنالوجی کمپنی کے کرپٹو کرنسی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر مسٹر ڈورگی کا اندازہ ہے کہ اس سال ان دس کمپنیوں میں سے صرف ایک کمپنی جس میں ریپبلک سرمایہ کاری کرے گی امریکہ میں ہو گی۔
یہ ان کی کمپنی کے اس نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے جو اس تناظر میں سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل اثاثے جیسا کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے امریکہ کی مخالفت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔
مسٹر ڈرگی کے مطابق امریکہ نے واقعی کرپٹو کرنسی ایکسچینج کی صنعت کو نشانہ بنایا ہے اور اس شعبے میں قواعد و ضوابط کے حوالے سے معطلی اور غیریقینی صورتحال امریکہ میں سرمایہ کاری کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔
گذشتہ سال ورچوئل کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کرپٹو کرنسی انڈسٹری پہلے ہی دباؤ میں تھی۔
مزید نقصان کئی معروف کرپٹو کرنسی کمپنیوں کے گرنے سے ہوا، بشمول ایف ٹی ایکس کے جو ’کرپٹو کے بادشاہ‘ سیم بینکمین کی ملکیت تھی۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت کی جانب مسٹر بینکمین پر امریکی تاریخ کی سب سے بڑی مالی بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔
امریکی مالیاتی نگرانی کرنے والے اداروں نے اس بحران کے تناظر میں کرپٹو کرنسی کمپنیوں کی نگرانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے کم از کم سنہ 2017 سے ان کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ ان کی سرگرمیاں امریکی مالیاتی نظام کو سرمایہ کاروں کی بدعنوانی سے تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔‘
امریکی مالیاتی نظام کے ریگولیٹری ڈیپارٹمنٹ کی مہم کے دوران کرپٹو کرنسی کمپنیوں اور ان کے مینیجرز کے خلاف مسلسل الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان پر رجسٹریشن کے ضوابط کی خلاف ورزی، اپنی سرگرمیوں کا اعلان نہ کرنے، یا صارفین کے فنڈز میں بدعنوانی اور بدانتظامی کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
بٹ کوائن جس کی ہزاروں دیگر کرپٹو کرنسیوں کے ساتھ صنعت میں سب سے زیادہ مارکیٹ شیئر ہے امریکی حکام اسے سونے کی طرح ایک اثاثہ سمجھتے ہیں۔
اس کے باعث بٹ کوائن بڑی حد تک موجودہ ریگولیٹری بحث کے تناظر میں محفوظ ہے۔ یہ بحث بنیادی طور پر ایک قانونی سوال کے گرد ہے اور وہ ہے ’سکیوریٹیز‘، یعنی سٹاک یا بانڈ کی طرح کا ایک اثاثہ۔
ان ریگولیٹری کوششوں نے ایسی کمپنیاں متاثر کی ہیں جو ٹوکنز یا کریپٹو کرنسیوں سے رقم اکٹھی کرتی ہیں۔
امریکی مالیاتی نظام کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن میں جو کمپنیاں سب سے زیادہ معروف ہیں وہ کوائن بیس اور بائنینس ہیں۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین گیری گینسلر نے ان قانونی اقدامات کی حمایت کی ہے اور کرپٹو کرنسی مارکیٹ اور کمپنیوں کی حالت کا موازنہ 1920 کی دہائی سے کیا جب امریکہ نے مالی فراڈ کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین میں سے اکثر نہیں بنائے تھے۔
’انسائیڈر انٹیلی جنس‘ کمپنی کے تحقیقی تجزیہ کار ول پیج کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت کی خواہش 2021 کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، جب اس کی قیمت تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہو گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’کرپٹو کرنسی مالیاتی منڈی میں مندی کا شکار ہے۔ نظام پر اعتماد کمزور ہوا ہے اور اس کی حالت یقینی طور پر ابتر ہوئی ہے۔‘
ان شکایات کے بعد صارفین نے کرپٹو کرنسی ایکسچینج سے اربوں ڈالر نکال لیے ہیں۔
امریکہ میں بینکوں نے بائنینس کے ساتھ اپنی ادائیگیوں کو محدود کر دیا ہے اور اسے امریکی ڈالر قبول کرنے سے روکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
سٹاک اور سکیورٹیز کی خرید و فروخت کے لیے ایپ رابن ہڈ نے اعلان کیا کہ وہ مقدموں میں اٹھائے گئے اثاثوں کے ساتھ کام کرنا بند کر دے گا کیونکہ ان کا مستقبل اب ’غیر یقینی صورتحال‘ کا شکار ہے۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ناقدین گینسلر پر اپنے سیاسی کردار کو تقویت دینے کے لیے اقدامات کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی انڈسٹری کی جانب سے نئے قواعد تجویز کرنے کی بار بار کوششوں کے باوجود، ایجنسی نے کرپٹو کمپنیوں کی مختلف اقسام اور ان کی تکنیکی خصوصیات شامل ہیں۔
بلاک چین سرمایہ کاری فرم جس نے سینکڑوں کرپٹو کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے میں پارٹنر بارٹ سٹیفنز کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار بینک کو تلاش کرنے میں مشکل پیش آئی ’یہ ایک بہت مایوس کن تجربہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نگرانی کرنے والوں کے حملے کا نشانہ ہیں۔‘
بل ہیوز ٹیکساس کی ایک سافٹ ویئر کمپنی جو کہ بلاکچین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے کے سینئر وکیل اسے مزید دو ٹوک الفاظ میں بتاتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر ایس ای سی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکہ میں کرپٹو کرنسی مارکیٹ نہیں ہونی چاہیے جب تک کہ یہ ہو رہا ہے۔‘
کیا سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف امریکہ ایک ایسی صنعت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں چھ میں سے ایک امریکی شہری نے سرمایہ کاری کی ہے؟
کرپٹو کرنسی مارکیٹ اپنے عروج پر حجم کا تقریباً ایک تہائی رہ گیا ہے۔ اب لین دین کا حجم کم ہو گیا ہے اور کرپٹو کرنسی ڈویلپرز کی دلچسپی بھی کم ہو رہی ہے۔ اعتماد کی سطح بھی کم ہے۔ مارچ میں کچھ امریکی بینکوں کے دیوالیہ پن نے، جو ابھی تک کرپٹو کرنسی میں ادائیگیوں کی صلاحیت رکھتے تھے نے اسے ایک اور دھچکا دیا ہے۔
امریکی یونیورسٹی میں قانون کی پروفیسر ہلری ایلن کا خیال ہے کہ کرپٹو کرنسی فطری طور پر اس نظام کے اندر لوگوں کی خوشحالی، مضبوطی اور ہیرا پھیری کے چکر سے مشروط ہے اور اس پر پابندی ہونی چاہیے۔
ایلن کے مطابق یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے اقدامات ڈیجیٹل کرنسیوں کو ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کے ڈومین تک محدود کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم ان قانونی اقدامات کو عوامی اعتماد میں کمی اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی میں کمی کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ شاید اس کا کوئی مستقبل نہ ہو۔‘
تاہم مسٹر سٹیفنز جو پہلے ہی دو ’کرپٹو ونٹرز‘ سے گزر چکے ہیں کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے موجودہ نقطہ نظر کو دیکھتے ہوئے برطانیہ یا یورپی یونین سمیت دیگر ممالک میں جا کر کرپٹو مستقبل روشن ہے۔‘
وہ بٹ کوائن کی قدر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہ اس کی سنہ 2020 کی قیمت کی حد کے ارد گرد منڈلا رہی ہے لیکن سال کے آغاز سے اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھر کریپٹوکرنسی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
کچھ اشارے جیسے کہ بلاک چین پر فعال پتوں کی تعداد اور چلنے والے سمارٹ معاہدوں کی تعداد جو ایک وینچر کیپیٹل فرم اینڈریسن ہورووٹز کے ذریعے ٹریک کی گئی ہیں، اب بڑھ رہے ہیں۔
مسٹر سٹیفنز کہتے ہیں کہ ’بلاک چین نے 2023 کے پہلے تین مہینوں میں گذشتہ 10 سالوں میں کسی بھی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ کاری دیکھی جس کی وجہ قیمتوں میں کمی اور حریفوں کی پسپائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نئی کمپنیاں یا پروٹوکول بنانے سے باز نہیں آتے۔‘
شکاگو یونیورسٹی میں پڑھانے والی کرپٹو کرنسی کی ماہر جینا پیٹرز نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ سے باہر صنعت کی ترقی کے باوجود، امریکی مارکیٹ کا نقصان ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت کی ترقی کے امکانات کو شدید حد تک محدود کر دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ امریکہ اس صنعت کو تباہ کر سکتا ہے لیکن یہ یقینی طور پر ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت کو محدود کر سکتا ہے۔‘
ڈیجیٹل کرنسیوں کے میدان میں بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ یہ عدالت، کانگریس یا امریکہ کے اگلے صدر کی طرف سے ملتوی کر دیا جائے گا۔ ایک عدالت ایس ای سی کو اپنے دائرہ اختیار سے دستبردار ہونے کا حکم دے سکتی ہے، کانگریس میں کرپٹو کرنسی قوانین کے مسودے پر نظرثانی جاری ہے اور اگلے امریکی انتخابات کے نتیجے میں وائٹ ہاؤس میں تبدیلی سے صورتحال بدل سکتی ہے۔‘
لندن یونیورسٹی کے سینٹر فار بلاک چین ٹیکنالوجیز کی ریسرچ فیلو انجیلا والش کہتی ہیں کہ ’اس معاملے پر جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، بالآخر صورتحال واضح ہو جائے گی۔
’ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں کہ ہم اب اس تصادم کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔‘