’ہمارے پاس بہت کم عمر میں بچے بلڈ پریشر اور شوگر کے عارضوں کے ساتھ آ رہے ہیں۔۔۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے طویل مدتی اثرات خطرناک ہیں۔‘
یہ کہنا ہے اسلام آباد کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اسد اکبر کا جو شفا ہسپتال میں روزانہ ایسے مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں جن کی صحت ان کے بقول الٹرا پروسیسڈ کھانوں سے متاثر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں کم مقدار میں بھی انرجی ویلیو اور کیلوریز زیادہ ہوتی ہے جس سے وقتی طور پر پیٹ بھر جاتا ہے مگر کچھ ہی دیر بعد بھوک لگنے لگتی ہے۔
ڈاکٹر اسد کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ایسے مریض آ رہے ہیں جو نوجوان ہیں مگر ان میں کولیسٹرول زیادہ ہے، بلڈ پریشر کی شکایت ہے جو فیملی میں بھی نہیں۔۔۔ ان کھانوں کے قلیل اور طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں۔‘
برطانیہ میں جڑواں بہنوں پر کی گئی آزمائش
24 سال کی ایمی نے آزمائشی طور پر دو ہفتوں تک صرف الٹرا پروسیسڈ خوراک کھائی۔ یہ آزمائش بی بی سی پینوراما کے لیے کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے کی ہے۔
ان کی جڑواں بہن نینسی کو بھی ایک مخصوص ڈائٹ پلان دیا گیا جس میں قدرتی یا کم پروسیس کیے گیے کھانے شامل تھے۔ دونوں کے لیے کیلوریز، غذائی اجزا، چینی اور فائبر کی ایک جتنی مقدار رکھی گئی۔
آزمائش کے بعد ایمی کا قریب ایک کلو وزن بڑھا جبکہ نینسی کا وزن کم ہوا۔ ایمی کا بلڈ شوگر لیول (خون میں چینی کی سطح) کی صورتحال خراب ہوگئی اور ان کے خون میں چربی کی سطح (لیپڈز) بھی بڑھ گئی۔
یہ قلیل مدتی مطالعہ صرف دو جڑواں بہنوں پر کیا گیا مگر اس کے نتائج سائنسدانوں کے ان خدشات کو نمایاں کرتے ہیں جو انسانی جسم پر الٹرا پروسیسڈ کھانوں کے صحت پر ممکنہ اثرات کے بارے میں پہلے سے ہی فکر مند رہے ہیں۔
پروفیسر ٹِم سپیکٹر کنگز کالج لندن میں شعبۂ صحت کے ماہر ہیں۔ وہ بیماریوں کے رجحانات پر تحقیق کرتے ہیں اور انھوں نے مذکورہ نتائج دیکھے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی پینوراما کو بتایا کہ ’گذشتہ دہائی کے دوران ایسے شواہد بڑھے ہیں کہ الٹرا پروسیسڈ کھانے ہمارے لیے نقصان دہ ہیں، ان پہلوؤں کے اعتبار سے بھی جن کے بارے میں ہم پہلے نہیں سوچتے تھے۔‘
’یہاں ہم کینسر کی اقسام، دل کے عارضے، فارلج اور ڈمنشیا کی بات کر رہے ہیں۔‘
الٹرا پروسیسڈ فوڈز (یو پی ایف) کی اصطلاح 15 سال قبل بنائی گئی تھی لیکن یہ برطانیہ میں ہماری خوراک کا قریب نصف حصہ ہے۔
براؤنڈ بریڈ کے ٹکڑوں سے تیار شدہ کھانے اور آئس کریم، اس کی مختلف اقسام ہیں جنھیں الگ الگ طرح کی صنعتی پروسیسنگ سے تیار کیا جاتا ہے۔
ان میں پریزرویٹو، آرٹیفیشل سویٹنر (مصنوعی چینی) اور ایملسیفائر (کھانے کے مختلف اجزا ملانے کے لیے استعمال کیا جانے والا ایڈیٹو) جیسے اجزا استعمال ہوتے ہیں جن سے عام طور پر گھروں میں کھانا نہیں بنایا جاتا۔
فوڈ پالیٹکس کی ماہر اور نیو یارک یونیورسٹی میں نیوٹریشن کے پروفیسر ماریئن نیسلے کا کہنا ہے کہ ’الٹرا پروسیسڈ فوڈز کسی فوڈ کمپنی کے لیے کھانوں کی سب سے منافع بخش قسم ہے۔‘
ہماری الٹرا پروسیسڈ کھانوں کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ یورپ میں برطانیہ اس حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ دنیا بھر میں ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کا رجحان بھی بڑھا ہے۔
کچھ ماہرین کی رائے میں یہ تعلق کوئی اتفاق نہیں۔
برطانوی نگراں اداروں کے مطابق الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں پائے جانے والے کیمیکل صحت کے لیے محفوظ ہیں لیکن پینوراما کی تحقیق نے نئے سائنسی شواہد کا جائزہ لیا ہے جن کے مطابق ان میں سے کچھ کیمیکلز کا کینسر، ذیابیطس اور سٹروک کے ساتھ تعلق ہے۔
جنوری میں الٹرا پروسیسڈ کھانوں پر تفصیلی مطالعوں میں سے ایک طب کے جریدے دی لینسٹ میں شائع ہوا۔ یہ امپیریل کالج کے سکول آف پبلک ہیلتھ نے تحریر کیا۔
برطانیہ میں دو لاکھ شہریوں پر کی گئی حقیق میں معلوم ہوا کہ الٹرا پروسیسڈ کھانوں کی زیادہ کھپت کا تعلق کینسر کے بڑھتے خدشات سے ہوسکتا ہے، خاص کر اویریئن اور برین کینسر۔
گذشتہ ماہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے آرٹیفیشل شوگرز کے طویل مدتی استعمال کے خلاف متنبہ کیا اور اس کے صحت پر ممکنہ اثرات کا حوالہ دیا۔
درجنوں مطالعات میں یہ تعلق قائم ہوا ہے کہ یو پی ایف کی بڑھتی کھپت سے سنگین بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مگر یہ ثابت کرنا کہ کون سے اجزا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی کے دوسرے پہلو بھی ان بیماریوں کا خدشہ بڑھا سکتے ہیں مثلاً ورزش نہ کرنا، سگریٹ پینا یا چینی سے بنی چیزوں کا بے انتہا استعمال۔
عام طور پر کھائے جانے والے الٹرا پروسیسڈ کھانے
وسیع پیمانے پر تیار کی جانے والی ڈبل روٹی اور ناشتے کے میٹھے سیریل
انسٹنٹ سوپ، پیکج شدہ اور مائیکرو ویو کیے جانے والے کھانے
فروٹ فلیور دہی
یم اور ساسیج کی طرح کے گوشت کے پراڈکٹ جو صنعی پروسیسنگ سے گزرتے ہیں
سافٹ ڈرنکس اور الکوہلک مشروبات جیسے وسکی، جِن اور رم
تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر ماتھلڈ ٹوویئر کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس 24 گھٹنے کی ڈائٹ کے ریکارڈ ہیں جس میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ کیا کھاتے ہیں، کون سے مشروب پیتے ہیں۔‘
اس تحقیق کے کچھ نتائج میں ظاہر ہوا کہ یو پی ایف سے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ایملسیفائر نامی اضافی اجزا کا معمہ
حال ہی میں ایملسیفائر کے اثرات کا جائزہ لیا گیا جو الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں گوند کا کام کرنے والے اجزا ہیں۔ یہ فوڈ انڈسٹری میں ایک معمہ بن چکا ہے کیونکہ اس سے کھانے کی شکل بہتر ہوتی ہے اور کم پروسیس کیے گئے کھانوں کے مقابلے زیادہ شیلف لائف ملتی ہے۔
یہ چیز ہر جگہ موجود ہے جیسے میونیز، چاکلیٹ، پینٹ بٹر اور گوشت کے پراڈکٹ۔ اگر آپ کچھ بھی کھاتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایملسیفائر آپ کی ڈائٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔
بی بی سی پینوراما کو ڈاکٹر ٹوویئر کے ابتدائی نتائج تک پہلی بار رسائی ملی ہے۔
ان نتائج کا پیئر ریویو یعنی مختلف ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی جو کہ طبی مطالعوں کا اہم تقاضہ ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ یہ نتائج پریشان کن ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایملسیفائر اور ہر طرح کے کینسر (خاص کر بریسٹ کینسر) میں گہرا تعلق پایا ہے۔ لیکن اس کا دل کے امراض سے بھی تعلق ہے۔‘
یعنی الٹرا پروسیسڈ کھانوں اور بیماری کے خدشے میں تعلق کا مشاہدہ کیا گیا ہے مگر مزید تحقیق ہونا باقی ہے۔
ان بڑھتے ثبوتوں کے باوجود برطانوی فوڈ سٹینڈرڈز ایجنسی (ایف ایس اے) نے تاحال ایملسیفائر کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔
پروسیسڈ کھانوں میں اضافی اجزا کے نقصانات پر ایف ایس اے نے بی بی سی پینوراما کو بتایا کہ ’مخصوص ایملسیفائر کے صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے ہمیں اس پروگرام یا کہیں اور سے کوئی شواہد نہیں دیے گئے۔‘
تاہم ایف ایس اے کے مطابق عوامی مشاورت کے انعقاد کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
تو کیا فوڈ انڈسٹری قوائد و ضوابط روکنے میں کردار ادا کر رہی ہے؟
بی بی سی پینوراما نے اس پر گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران تحقیق کی ہے۔
پروفیسر نیسلے نے بتایا کہ ’فوڈ کمپنیاں صحت عامہ کے ادارے نہیں۔۔۔ ان کا کام چیز بیچنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ فوڈ انڈسٹری کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ مطالعوں اور ماہرین کی امداد کرتی ہیں اور موجودہ تحقیق کی نفی کرتی ہیں تاکہ نئے قوائد و ضوابط کو روکا جائے۔
انٹرنیشنل لائف سائنسز انسٹی ٹیوب (آئی ایل ایس آئی) وہ تنظیم ہے جو دنیا کی سب سے بڑی فوڈ کمپنیوں سے امداد وصول کرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اس کا مشن ’انسانی صحت بہتر کرنے والی سائنس ہے‘ تاہم اس نے ماضی میں ایسے مقالے شائع کیے جن میں صحت مند ڈائٹ پر قوائد و ضوابط اور عوامی آگاہی کو روکا گیا۔ 2012 میں یورپی فوڈ سیفٹی ایجنسی کو مفادات کے ٹکراؤ کا اس قدر خدشہ تھا کہ اس نے آئی ایل ایس آئی سے جڑے ہر شخص کو مستعفی ہونے یا ایجنسی چھوڑنے کا کہا۔
امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ایلن بابس آئی ایل ایس آئی یورپ کے ڈائریکٹر ہیں جو تنخواہ وصول نہیں کرتے۔ وہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سابق نائب صدر ہیں۔ وہ برطانوی سائنسدانوں کے گروہ ’کمیٹی آن ٹاکسیسٹی‘ کے سربراہ بھی ہیں جو ایف ایس اے کو کھانے میں پائے جانے والے کیمیکلز پر تجاویز دیتا ہے۔
کمیٹی کے نصف سے زیادہ ارکان کے فوڈ یا کیمیکل کی صنعت سے حالیہ تعلقات رہے ہیں۔ گذشتہ 10 برسوں میں کمیٹی نے کھانوں میں شامل کیمیائی ایڈیٹوز پر کسی روک تھام کی حمایت نہیں کی۔
پروفیسر بابس نے پینوراما کو بتایا کہ ان کی تجاویز صنعت کے فائدے کے لیے نہیں ہوتی اور انھوں نے ہمیشہ ’بہترین سائنسی تحقیق کرانے اور اس کی نشاندہی کرنے میں عزم ظاہر کیا، چاہے کوئی بھی اس کی امداد کر رہا ہو۔‘
فوڈ سٹینڈرڈز ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کے قوائد و ضوابط واضح ہیں اور اس میں مفادات ظاہر کرائے جاتے ہیں۔ اس کے مطابق اس کے فیصلوں میں تعصب کے ’کوئی شواہد نہیں۔‘
آئی ایل ایس آئی کا کہنا ہے کہ وہ ’سائنس میں دیانتداری کے عظیم اصولوں کے فریمورک میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔‘
چینی سے 200 گنا میٹھا اسپارٹیم
یو پی ایف میں سب سے متنازع اضافی اجزا میں سے ایک سویٹنر اسپارٹیم ہے۔ یہ چینی سے دو سو گنا زیادہ میٹھا ہے مگر اسے کم کیلوریز والا بہترین متبادل کہا جاتا ہے۔ اس کی بدولت صحت کے لیے نقصان دہ چینی والے مشروبات، آئس کریم اور موس ’صحت مند‘ خوراک کہہ کر بیچے جاتے ہیں۔
مگر گذشتہ دو دہائیوں سے اس کے ممکنہ خطرات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ایک ماہ قبل عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ اگرچہ شواہد حتمی نہیں مگر اسے اسپارٹیم کے طویل مدتی استعمال پر تشویش ہے جس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کے امراض اور اموات کا خدشہ بڑھتا ہے۔
سنہ 2013 میں یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) نے دستیاب شواہد کے تناظر میں فیصلہ کیا کہ اسپارٹیم کھانے میں استعمال کے لیے محفوظ ہے اور برطانوی نگراں ادارے نے بھی اس پوزیشن کو قبول کیا۔
کمپٹی آن ٹاکسیسٹی نے 2013 میں اسپارٹیم پر تحقیق کی اور کہا کہ نتائج میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے اس کے خلاف کوئی اقدام کیا جانا چاہیے۔
چھ سال بعد یونیورسٹی آف سسیکس کے پروفیسر ایرک مِلسٹون نے ای ایف ایس اے کی نظر سے گزرنے والے شواہد پر نظرثانی کی اور دیکھا کہ ان مطالعوں کی امداد کس نے کی تھی۔
انھیں معلوم ہوا کہ ان 90 فیصد مطالعوں کی امداد کیمیکل کمپنیوں نے کی تھی جو اسپارٹیم بنانے اور بیچتے ہیں۔
جن مطالعوں میں اسپارٹیم کے صحت پر نقصانات ظاہر ہوئے ان کی امداد غیر کمرشل اور آزادانہ ذرائع سے ہوئی تھی۔
مینوفیکچررز میں سے ایک فوڈ اینڈ ڈرنکس فیڈریشن نامی تنظیم کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنیاں صارفین کی صحت اور اپنی بنائی خوراک میں تحفظ کو سنجیدگی سے لیتی ہیں اور کڑے اصولوں کی پابندی کرتی ہیں۔
انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا کہ ’لو یا بغیر کیلوری کے سویٹنر کا کھانے میں استعمال محفوظ ہے۔ دنیا میں یہ سب سے زیادہ تحقیق سے گزرنے والے اجزا ہیں اور انھیں فوڈ سیفٹی کے تمام نگراں اداروں نے منظور کیا ہے جس میں یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن شامل ہیں۔‘
ایف ایس اے نے کہا ہے کہ وہ اسپارٹیم پر جاری ڈبلیو ایچ او کے جائزے کو دیکھیں گے۔ برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ یو پی ایف سے جڑے خدشات سے باخبر ہے اور اس نے الٹرا پروسیسڈ فوڈ کے خلاف نئے شواہد پر نظرثانی کا حکم دیا ہوا ہے۔