اہم خبریں

کیا آپ کی پسندیدہ چکن تھائی واقعی مرغی کی ران ہوتی ہے؟

دنیا بھر میں مختلف پکوانوں کے کئی نام ہیں اور کچھ نام دنیا بھر میں ایک جیسے ہیں اور یہ سب ہماری پکوانوں سے متعلق مشترک لغت سے اخذ کیے گئے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان میں سے بہت پکوانوں اور خصوصاً جانوروں یا حشرات سے متعلق پکوانوں کے نام ایسے ہیں جن کا جانوروں کی حیاتیاتی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

یہاں ایسے ہی چند ناموں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو جانوروں کی اناٹومی اور شناخت کے حوالے سے غلط ہیں لیکن ہم انھیں ایسے ہی جانتے اور پکارتے ہیں۔

اگر آپ متجسس ہیں تو یقیناً آپ مرغی کی ران، جھینگوں کے سر یا سیپیوں کی زبان کے سائنسی ناموں کو جاننے کے خواہش مند ہوں گے لیکن سائنس بھی آج تک اس تلاش میں ہے۔

چکن تھائی

مرغی کا گوشت دنیا میں سب سے زیادہ عام کھانے کی اشیا میں سے ایک ہے اور اس کی رانوں کے ساتھ ساتھ سینے کا حصہ بھی کھانے میں سب سے زیادہ پسندیدہ حصے ہیں مگر مرغی کے جس حصے کو ہم ران کہتے ہیں وہ دراصل ران نہیں۔

اسی طرح جسے ہم مرغی کی ران کا اوپری حصہ یعنی سوبرتھائی کہتے ہیں وہ بھی ران کی تعریف پر پوری نہیں اترتا۔

مرغی کے جسم میں گوشت کا یہ حصہ ران نہیں بلکہ اس کی ٹانگ کی پنڈلی کے ساتھ منسلک حصہ ہوتا ہے جو پرندوں کو سہارا دینے کے لیے ہوتا ہے۔

لیکن ہم اس پنڈلی کے گوشت کو ران کا گوشت کیوں سمجھتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پنجوں والے جانوروں خصوصاً پرندوں میں ٹانگ کے ساتھ ایک بڑی ہڈی ہوتی ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ پنڈلی کا یہ حصہ شاید ٹانگ سے الگ ایک حصہ ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق جانوروں میں ٹانگ کی یہ لمبی ہڈی 200 ملین سال قبل پنجوں والے چھوٹے سبزی خور ڈائنوسارس میں بھی پائی جاتی تھی۔

جھینگوں کے سر

دنیا کے چند مہنگے اور خاص پکوانوں میں جھینگوں، کیکڑوں، لابسٹر اور اسی انواع کی دیگر سمندری حیات شامل ہیں تاہم یہاں بھی ہم ایک کھانے کا نام غلط لیتے ہیں۔

جیسے جھینگوں کے سر کا سوپ یا فرائی کیے ہوئے جھینگوں کے سر لیکن درحقیقت ہم ان کے سر کا مغز نہیں کھاتے مگر ان کے تھیورکس کا حصہ کھاتے ہیں یعنی پھپپڑوں اور معدے کے درمیان کا وہ حصہ کھا رہے ہوتے ہیں جن میں جگر اور پتا موجود ہوتے ہیں۔

ان کے ذائقہ کا راز بھی یہ ہی ہے کیونکہ یہاں پتے اور جگر سے خارج ہونے والی غذائیت ہوتی ہے لیکن اس کو ہم سر کیوں کہتے ہیں کیونکہ جسم کے اس حصے کے اوپر ایک شیل ہوتا ہے جسے ٹیل کہا جاتا اور سر یا دم کی مانند نظر آتا ہے۔

اسی طرح جھینگوں میں یا لوبسٹر میں منھ پر اگے بال مونچھیں نہیں بلکہ انٹینا ہوتے ہیں جو انھیں راستہ ڈھونڈنے اور کھانے میں مدد دیتے ہیں۔

سیپیوں کی زبان

سپییوں سے بنے پکوان میں وہ سرخ رنگ کا لوتھڑا جس پر لیموں چھڑک کر اسے فرحت بخش بنایا جاتا ہے اور اسے ہم سپییوں کی زبان کہتے ہیں درحقیقت ان کی زبان نہیں ہوتی۔

یہ سپییوں کے منھ میں بھی نہیں ہوتا بلکہ یہ حصہ ان کے پیروں میں ہوتا جسے مولسکس کہا جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا پٹھہ ہوتا ہے جو سمندری حیات میں سب سے زیادہ طاقتور عضو سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شکل اور رنگت کی وجہ سے ہم اسے زبان سمجھ بیٹھے ہیں۔

گهونگوں کا ’پاخانہ‘

گھونگوں کے متعلق دنیا میں صرف دو ہی احساسات پائے جاتے ہیں یا تو آپ کو ان پر پیار آتا ہے یا پھر آپ انھیں کھانے کے لیے مرے جاتے ہیں۔

لیکن ان کو کھانے والے اس بارے میں کچھ متعصب ہیں اور اس کے جسم کے آخری حصے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہیں اور اس کی وجہ اس حصے کی نرمی اور یہاں موجود گودا ہے۔

لیکن یہ درمیانہ حصہ مشکوک بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور اس کا گھونگوں کی آنتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہاں ان کا پتہ ہوتا ہے۔

اسی لیے یہاں نرم گودا ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ کسی پیسٹ کی طرح ہوتا ہے اور اکثر لوگ اسے گھونگوں کا ’پاخانہ‘ سمجھ بیٹھتے ہیں جو کہ حقیقت نہیں۔

یہ حصہ ایسے غدود پر مشتمل ہوتا ہے جہاں تولیدی مادے نکلتے ہیں اور یہ گھونگھوں کے خول میں ہوتے ہیں۔

آکٹوپس کا سر

دنیا بھر میں آکٹوپس کے سر سے بنے پکوانوں کو بھی ایک سوغات سمجھا جاتا ہے اور یہ دنیا کے مہنگے کھانوں میں سے ایک ہوتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان پکوانوں میں آکٹوپس کے جسم کا وہ حصہ جسے سر کہہ کر شامل کیا جاتا ہے دراصل اس کا جسم ہوتا ہے جس سے اس کی ٹانگیں جڑی ہوتی ہے۔

لیکن ہمیں یہ سر کی طرح کیوں دکھتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ جڑی لمبی لمبی ٹانگوں کی وجہ سے یہ چھوٹا، ابھرا ہوا اور گول دکھائی دیتا ہے۔

اسی وجہ سے ہم اس گول اور ابھرے حصے کو اس کا سر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ دراصل اس کا سر ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے جو ٹانگوں اور اس گول حصے میں نچلی طرف ہوتا ہے اور اس کی آنکھیں بھی وہیں ہوتی ہیں۔

اگرچہ آج ہم نے آپ کو ان پکوانوں کی حقیقت بتا دی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ سائنس میں پڑے بغیر انھیں انھی ناموں سے پکاریں گے جو غلط العام ہیں۔

لہذا بہتر بھی یہ ہی ہے کہ انھیں انھی ناموں سے پکارا جائے ورنہ کسی باربی کیو کی دکان پر اگر آپ نے مرغی کی پنڈلی لانے کا کہہ دیا تو نہ دکاندار کو سمجھ آئے گی اور نہ آپ کو آپ کا کھانا ملے گا۔