شمالی اٹلی میں ایلپس پہاڑی سلسلے کے دامن میں ایک چھوٹا سا کمرہ ایسے کنٹینرز سے بھرا ہوا ہے جن میں لاکھوں جھینگر موجود ہیں۔
چھلانگیں لگاتے، چلاتے ہوئے یہ جھینگر خوراک بننے والے ہیں۔
یہ عمل بہت سادہ ہے: انھیں فریز کیا جاتا ہے، پھر ابال کر خشک کیا جاتا ہے اور پھر ان کا کچومر نکال کر میدہ بنا لیا جاتا ہے۔
اٹلی کے اس سب سے بڑے جھینگر فارم پر 10 لاکھ کیڑوں کو روزانہ خوارک میں بدل دیا جاتا ہے۔
اس فارم کے مالک ایوان البانو نے ایک کنٹینر کھول کر ہلکے بھورے رنگ کا میدہ دکھایا جسے پاستا، ڈبل روٹی، پین کیکس، انرجی بارز حتی کہ سپورٹس ڈرنکس کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
جھینگر اور کیڑے مکوڑے ایشیا سمیت دنیا بھر کے مختلف حصوں میں ہزاروں سال سے خوراک کا حصہ رہے ہیں۔
لیکن اب یورپی یونین کی جانب سے انسانی استعمال کے لیے کیڑوں کی فروخت کی اجازت ملنے سے کیا یورپ میں بھی رویوں کی تبدیلی آئے گی؟
ایک عالمی سروے یو گوو کے مطابق یورپ میں اس کی سب سے زیادہ مخالفت اٹلی میں ہے جو حکومت سے شروع ہوتی ہے۔ اٹلی میں حکومت پہلے ہی ایسے اقدامات اٹھا چکی ہے جن کے تحت کیڑوں مکوڑوں کو پیزا اور پاستا کی تیاری میں استعمال کرنے پر پابندی ہو گی۔
اطالوی ڈپٹی وزیر اعظم میٹیو سلوینی نے فیس بک پر حال ہی میں لکھا کہ ’ہم اس پاگل پن کی ہر جگہ اور ہر طریقے سے مخالفت کریں گے جو ہماری زراعت اور تہذیب کو نقصان پہنچائے گی۔‘
لیکن کیا یہ سب بدلنے والا ہے؟ کیوں کہ متعدد اطالوی کمپنیاں اور افراد جھینگر کو پاستا، پیزا اور کھانوں میں شامل کرنے کی ترکیب بہتر بنا رہے ہیں۔
ایوان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کام کافی پائیدار ہے۔ ایک کلو جھینگر پاؤڈر بنانے میں صرف 12 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ گائے سے اسی مقدار میں پروٹین حاصل کرنے کے لیے ہزاروں لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔
کیڑوں مکوڑوں کی فارمنگ کے لیے بھی بہت کم جگہ درکار ہوتی ہے۔ گوشت اور دودھ کی انڈسٹری کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی کے سبب زیادہ سے زیادہ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے کیڑے مکوڑے اہم ہو سکتے ہیں۔
ٹیورن کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں شیف سیمون لوڈو نے ہزار سال پرانی پاستا ترکیب میں کچھ ردوبدل کی ہے۔ وہ اب پاستا میں 15 فیصد جھینگر پاؤڈر استعمال کرتے ہیں۔
اس کی خوشبو کافی تیز ہے۔
ان کے کافی صارف اس نئے پاستا کو آزمانے سے انکار کرتے ہیں لیکن مجھ سمیت جنھوں نے یہ پاستا کھایا وہ اس بات پر حیران ہوئے کہ یہ کتنا خوش ذائقہ تھا۔
ذائقے سے ہٹ کر دیکھیں تو جھینگر پاؤڈر وٹامن، فائبر، معدنیات اور امائینو ایسڈز سے بھرپور ہے۔ ایک پلیٹ میں آئرن اور میگنیشیئم کی مقدار کسی سٹیک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
لیکن کیا یہ ایسے لوگوں کے لیے ایک حقیقت پسندانہ انتخاب ہے جو کم گوشت کھانا چاہتے ہیں؟ اصل مسئلہ قیمت کا ہے۔
ایوان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ جھینگر پر مبنی خوراک کھانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی جیب پر بھاری پڑے گا۔ جینگر کا میدہ ایک آسائش ہے۔ فی کلو اس کی قیمت 60 یورو ہے۔ اگر آپ جھینگر پاستا کی بات کریں تو ایک پیکٹ آٹھ یورو کا ہو گا۔‘
یہ عام پاستا سے آٹھ گنا زیادہ قیمت ہے۔ فی الحال اس قسم کی خوراک مغرب میں عام نہیں ہے کیوں کہ پولٹری اور گوشت کم قیمت پر دستیاب ہے۔
کلاڈیو لاٹیری روم کے قریب ہی ایک فارم کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو گوشت ہم فراہم کرتے ہیں وہ جھینگر سے کافی سستا ہے اور معیار میں بھی کافی اچھا ہے۔‘
لیکن معاملہ صرف قیمت کا نہیں بلکہ معاشرتی رویے اور قبولیت کا بھی ہے۔
اٹلی بھر میں 100 سے زیادہ عمر تک جینے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ یہاں کی خوراک کو صحت مند زندگی کا راز سمجھتے ہیں۔
کلاڈیو کہتے ہیں کہ ’اطالوی لوگ صدیوں سے گوشت خور رہے ہیں۔ اگر متناسب مقدار میں ہو، تو یہ یقینا صحت مند ہوتا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ جھینگر اور دیگر کیڑوں پکوڑوں سے تیار خوراک اطالوی پکوان کی روایت کے لیے خطرہ ثابت ہو گی جسے ان کے ملک میں مقدس مانا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا ’یہ مصنوعات کچرا ہیں۔ ہمیں ان کی عادت نہیں اور یہ بحیرہ روم کی ثقافتی خوارک کا حصہ نہیں ہیں۔ اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ان کو کھانے سے ہمارے جسم پر کیا اثرات ہوں گے۔‘
’میں ان نئی مصنوعات کے خلاف ہوں۔ میں ان کو کھانے سے انکار کرتا ہوں۔‘
جیسے جیسے کیڑوں مکوڑوں کی فارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے ان کی مخالفت بھی بڑھ رہی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے کیڑوں کو انسانی خوارک کا حصہ بنانے کی اجازت کے فیصلے کو اطالوی حکومت کے ایک رکن نے ’پاگل پن کے قریب‘ قرار دیا۔
وزیر اعظم جیورجیا میلونی، جو اٹلی کو ’خوراک کی سپر پاور‘ کہتی ہیں، نے منتخب ہونے کے بعد روایات کے تحفظ کے لیے ’میڈ ان اٹلی‘ وزارت قائم کی۔
انھوں نے ایک حالیہ ویڈیو میں حقارت کے لہجے میں کہا کہ ’کیڑوں سے بنی مصنوعات سپر مارکیٹ میں پہنچ رہی ہیں، میدہ، لاروا، اچھا مزیدار۔‘
ایسے میں اطالوی پکوان میں کیڑوں کی آمیزش کے خدشات کی وجہ سے تین حکومتی وزارتوں نے چار اعلانات کیے۔ اطالوی وزیر زراعت فرانچیسکو لولوبریگیڈا نے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ اس میدے کو اطالوی خوراک سے نہ ملایا جائے۔‘
ایسی خوراک نے صرف اٹلی میں ہی تقسیم پیدا نہیں کی ہے۔
پولینڈ میں الیکشن سے قبل یہ ایک گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔ مارچ میں دو اہم جماعتوں کے سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ ایسی پالیسیاں متعارف کروانا چاہتے ہیں جس سے عوام کیڑے کھانے پر مجبور ہو جائے گی۔
حزب اختلاف کی اہم جماعت کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے حکومت کو ’مکوڑوں کے سوپ کا پروموٹر‘ قرار دیا۔
دوسری جانب آسٹریا، بیلجیئم اور ہالینڈ میں ایسی خوراک کی زیادہ مخالفت نہیں۔ آسٹریا میں خشک کیڑوں پر مبنی خوراک کھائی جاتی ہے جبکہ بیلجیئم میں انرجی بارز، برگرز اور سوپ میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔
ڈینیئل سکوگنامگیلو جو جھینگر کا پاستا بیچنے والے ریستورینٹ کے مالک ہیں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے جھینگر سے متعلق کافی غلط معلومات عام ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھ پر کافی تنقید ہوئی، مجھے نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کے لیے کھانے کی روایت مقدس ہوتی ہے اور وہ اپنی عادات بدلنا نہیں چاہتے۔‘
تاہم انھوں نے دیکھا ہے کہ تجسس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ جھینگر سے تیار پکوان کھانے کا آرڈر کر رہے ہیں۔
دنیا کی آٹھ ارب نفوس سے زیادہ آبادی کی وجہ سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ زمین کے وسائل اتنے زیادہ لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوں گے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں زراعت سے پیداوار میں 70 فیصد تک اضافہ کرنا ہو گا۔
ایسے میں ماحول دوست پروٹین، جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں سے حاصل کردہ مصنوعات، ایک ضرورت بن سکتی ہیں۔
اب تک ایسی خوراک کی تیاری محدود پیمانے پر ہی ممکن تھی۔ لیکن یورپی یونین کی اجازت کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ یہ شعبہ ترقی کرے گا اور قیمتیں بھی کم ہوں گی۔
ایوان کہتے ہیں کہ ان کی مصنوعات کے لیے سپر مارکیٹوں اور ریسٹورنٹس سے کافی درخواستیں آ رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماحول پر ان کا اثر صفر ہے۔ ہم ایک ایسی پہیلی کا ٹکڑا ہیں جو کرہ ارض کو بچا سکتی ہے۔‘