تین بچوں کے والد محمد اقبال اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پیسے جمع کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے سعودی عرب کا ویزا لگوایا اور اسی سلسلے میں اسلام آباد آئے تھے۔
صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں موٹروے پر کلرکہار کے قریب بس حادثے میں کم سے کم 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک اقبال ہیں۔
اقبال کے بھانجے محمد حسنین نے بتایا ہے کہ ان کی چھوٹی بیٹی ذہنی طور پر معذور ہے جبکہ بڑی بیٹی کی شادی حال ہی میں طے ہوئی ہے۔
حسنین کہتے ہیں کہ ’ایک شخص کی لاپرواہی نے کئی لوگوں کو موت کے منھ میں پھینک دیا۔ بسوں میں میرے ماموں اقبال جیسے مزدور لوگ ہی ہوتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہوتا ہے۔‘
سالٹ رینج پر بس حادثہ کیسے ہوا؟
راولپنڈی سے جھنگ جانے والی مسافر کوچ سنیچر کی شام سالٹ رینج پر حادثے کا شکار ہوئی جس میں موٹروے حکام کے مطابق عملے سمیت 32 سے زیادہ افراد سوار تھے۔
موٹروے پولیس نے اپنی مدعیت میں بس ڈرائیور، مالک، سٹیشن مینیجر سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچنے والے مسافروں کے مطابق گاڑی میں خرابی کے باوجود اسے استعمال کیا گیا اور حادثے کی وجہ ڈرائیور کی لاپرواہی کے ساتھ ساتھ بس کا صحیح حالت میں نہ ہونا ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ بس خراب تھی اور یہ راستے میں بھی صحیح حالت میں نہیں چل رہی تھی جبکہ راستے میں کچھ مقامات پر اسے تیز رفتاری سے چلایا جاتا رہا۔
موٹروے پولیس کے ترجمان یاسر محمود کے مطابق ’اس حادثے میں پانچ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے جن میں بس کا ڈرائیور بھی شامل تھا۔‘
حکام کے مطابق حادثے کی اطلاع ملتے ہی موٹروے پولیس، ریسکیو 1122 اور دیگر امدادای ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور زخمیوں کو فوری چکوال میں موجود ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں مزید دو افراد جانبر نہ ہو سکے۔
موٹروے پولیس کے ترجمان کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق بس حادثہ بریک فیل ہونے کی وجہ سے ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’موٹروے کے اس حصے میں پہاڑی موڑ پر گاڑی بے قابو ہوئی اور بریک کام نہ کر سکی اور بس بے قابو ہو کر روڈ کے دوسری طرف جا گری۔
’اس کے گرنے کے بعد مخالف سمت سے آنے والی ایک کار اس سے ٹکرائی تاہم معجزانہ طور پر اس کار کے مسافر معمولی ہی زخمی ہوئے۔‘
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس حادثے کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سالٹ رینج پر حادثات کا تواتر کے ساتھ ہونا پریشان کن ہے۔ موٹروے حکام اس امر کو یقینی بنائیں کہ موٹروے پر چلنے والی گاڑیاں سفر کے قابل ہوں اور ڈرائیور حضرات ڈرائیونگ کے تمام معیارات پر پورے اترتے ہیں۔
’قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کر کے ہی سفر کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘
’عید کے بعد واپس آؤں گی‘
محمد حسنین کہتے ہیں کہ اس بس حادثے میں ان کے ماموں اقبال کی ہلاکت سے ان کے اہل خانہ کو صدمہ پہنچا ہے۔ ’بچوں کا واحد سہارا ان کا والد ہی تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ماموں کچھ عرصے قبل سعودی عرب گئے تھے جہاں پر وہ ایک حجام کی دکان پر کام کرتے تھے۔ واپس آ کر انھوں نے دوبارہ ویزا حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماموں کا (سعودی) ویزا لگ گیا تھا۔ وہ ویزے کی کارروائی مکمل کرنے اسلام آباد گئے تھے جہاں سے واپسی پر یہ حادثہ ہوا۔ جب وہ اسلام آباد جا رہے تھے تو انھوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ جلد ہی سعودی عرب چلے جائیں گے۔‘
محمد حسنین کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا تھا۔ لڑکے والے اب شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے۔ ماموں نے ان سے کہا تھا کہ جلدی شادی کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ دوبارہ سعودی عرب جا رہا ہوں۔ وہاں جا کر کام پر لگ جاؤں تو شادی کی تاریخ دے دوں گا۔‘
’ان کی بہت خواہش تھی کہ وہ اپنی بڑی بیٹی کی شادی جلدی کر دیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ سعودی عرب جا کر وہ جلد از جلد بیٹی کی شادی کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے مگر حادثے میں ان کو مہلت ہی نہ ملی۔‘
حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں 17 سالہ کی منشا ذوالفقار بھی شامل ہیں۔ ان کے چچا بابر علی کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ جھنگ جا رہے تھے جہاں منشا کی نانی کا گھر ہے۔
’منشا ہمارے خاندان کی بڑی بچی تھی۔ یہ سب کی لاڈلی تھی جبکہ اس نے گھر داری بھی مکمل طور پر اپنی والدہ کے ساتھ مل کر سنبھالی ہوئی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس حادثے میں منشا کی والدہ کی ٹانگ فریکچر ہوئی ہے اور خاندان کے آٹھ بچے زخمی ہوئے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’منشا نے کہا تھا کہ میں اپنی نانی کے گھر جا رہی ہوں عید کے بعد واپس آؤں گی۔‘
بابر کہتے ہیں کہ ’منشا میری بھی بہت لاڈلی تھی۔ جب اس کو بس پر سوار کروایا تو اس نے مجھے اپنا خیال رکھنے کی ڈھیروں نصیحتیں کی تھیں۔ جاتے ہوئے دور تک ہاتھ ہلا کر الوداع کہتی رہی تھی۔‘
حادثے کا شکار ہونے والی بس میں 34 مسافر سوار تھے
ڈپٹی کمشنر چکوال قرت العین ملک کی جانب سے واقعے کے بعد کی گئی ٹویٹ کے مطابق ’سنیچر کی دوپہر ہونے والے مسافر بس کے حادثے میں 22 افراد زخمی ہوئے جن میں سے سات افراد کو حالت نازک ہونے کی وجہ سے راولپنڈی منتقل کیا جا چکا ہے۔‘
اس حادثے سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں انھوں نے سب سے دعاؤں کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’حادثہ بریک فیل ہونے کے باعث پیش آیا ہے اور بس میں مجموعی طور پر 34 مسافر سوار تھے۔‘
حادثے کی اطلاع ملتے ہی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے صارفین نے جہاں اس مقام پر متعدد بار جان لیوا حادثات ہونے پر تشویش کا اظہار کیا وہیں کئی صارفین نے یہاں طبی سہولیات کی فراہمی اور آگاہی بڑھانے پر بھی بات کی۔
ڈپٹی کمشنر قرت العین کی ٹویٹ پر ناہید نامی صارف نے لکھا کہ ’موٹروے پر خاص کر کے کلر کہار سالٹ رینج میں ایمرجنسی سروسز ہونی چاہییں، اس سے پہلے بھی یہاں پر کافی حادثات ہوئے ہیں اور کافی نقصان ہوا ہے۔‘
ٹوئٹر صارف کے مطابق ’یہ ( ایمرجنسی سروس) موٹروے اور ہائی وے کی طرف سے مہیا کی جائیں، چکوال کی ایمرجنسی سروس پر شدید دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پھر راولپنڈی منتقل کرنے سے وقت اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔‘
لاہور سے اسلام آباد کے درمیان سالٹ رینج کے مقام پر ایم ٹو (موٹروے) کی سڑک پہاڑی راستوں کے باعث سیدھی نہیں اور یہاں نہ صرف کئی موڑ ہیں بلکہ خطرناک ڈھلوانیں بھی ہیں جس کے باعث یہاں گاڑی چلانے کے لیے خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض صارفین کی جانب سے موٹروے پولیس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس پر خطر راستے پر حادثات کی روک تھام کے لیے فٹنس سرٹیفیکیٹ کے بغیر انھیں سفر کی اجازت نہ دی جائے۔
’لائسنس اور فٹنس سرٹیفیکیٹ اپ ٹو ڈیٹ نہ ہو تو سالٹ رینج پر گاڑی نہیں لے جا سکتے‘
گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق یہی سوال ہم نے موٹروے پولیس حکام سے پوچھا اور ساتھ ہی یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کلرکہار پر گاڑی چلانے کی احتیاط کے حوالے سے ڈرائیورز کو کیا آگاہی دی جاتی ہے؟
ترجمان موٹروے پولیس یاسر محمود نے بتایا کہ ’سالٹ رینج کے سٹارٹنگ پوائنٹ پر ایچ ٹی وی (ہیوی ٹرانسپورٹ وہیکلز) اور پی ایس وی (پبلک سروس وہیکلز) ڈرائیورز کی آگاہی اور گاڑی کی فٹنس چیک کرنے کا کام شروع کیا جاتا ہے۔‘
ترجمان کے مطابق
ڈمپر ٹرالر، ٹرکوں اور بسوں کو سالٹ رینج کے سٹارٹ پوائنٹ پر روک کر چیک کیا جاتا ہے۔
چیکنگ کے اس عمل میں سب سے پہلے ڈرائیور کا مستند لائسنس چیک کیا جاتا ہے۔
روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ فٹنس سرٹیفیکیٹ چیک کیا جاتا ہے۔
ان وہیکلز کے ٹائرز چیک کر کے ان کی کنڈیشن کی تسلی کی جاتی ہے۔
ڈرائیورز سے گپ شپ کے دوران اس کی ظاہری حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا وہ الرٹ اور درست حواسوں میں ہے کہ گاڑی زمہ داری سے چلا سکے۔
چیک کیا جاتا ہے کہ گاڑی اوور لوڈ نہ ہو اور مسافر بسوں میں بھی گنجائش سے زیادہ مسافر نہ بھرے گئے ہوں۔
اگر لائسنس نہ ہو یا زائد المعیاد ہو، فٹنس سرٹیفیکیٹ اپ ٹو ڈیٹ نہ ہو یا ڈرائیور الرٹ نہ لگے تو گاڑی واپس کر دی جاتی ہے اور اسے سالٹ رینج پر گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اس سے قبل رولز کے تحت مرکزی ٹول پلازہ پر بھی ہیوی وہیکلز، جن میں مسافر بسیں بھی شامل ہیں، کو روک کر ان کی ویڈیو چیکنگ کی جاتی ہے اور اس دوران فٹنس کے ان ہی تمام مراحل سے گزارا جاتا ہے۔
ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق ’سالٹ رینج کے سٹارٹنگ پوائنٹ پر 24 گھنٹے ڈیوٹی پر وہیکل پولیس وین موجود ہوتی ہے جس میں ہر آٹھ گھنٹے بعد عملے کی شفٹ تبدیل ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہر تین سے چار کلو میٹر پر چیک پوسٹ ہے جس میں اوور سپیڈنگ کیمرہ کے ساتھ عملہ موجود ہوتا ہے اور 24 گھنٹے سپیڈ چیک ہونے کا کام کیا جاتا ہے۔
موٹر وے پولیس حکام کے مطابق ’موٹر وے کے اس مقام پر خطرناک اترائی ہے۔ اس درمیان کے ایک کلومیٹر پر بھی اگر ڈرائیور اوور سپیڈنگ کرے اور پھر بریک لگائے تو بار بار بریک دبانے سے بریک فیل ہو نے کا قوی امکان ہوتا ہے اور گاڑی قابو سے باہر ہو کر حادثے کا شکار ہو جاتی ہے اور ایسی صورت حال میں بریک لگنے کی آپشن نہیں بچتی۔‘
اگر یہ موڑ اتنے خطرناک ہیں تو یہاں سپیڈ چیک کرنے کے مقام کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ترجمان موٹروے پولیس کا کہنا تھا کہ ’سٹارٹ پوائنٹ پر ہیوی وہیکلز کی چیکنگ کے بعد دوسری چیک پوسٹ تین سے چار کلو میٹر بعد ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ خطرناک ڈھلوان کے باعث پولیس چیکنگ وین اور سپیڈ کیمرہ بھی ایسے مقام پر لگانا ہوتا ہے جہاں سیفٹی موجود ہو کیونکہ خطرناک اترائی عملے کے لیے بھی رسک کا باعث ہوتی ہے۔‘
سالٹ رینج کے 10 کلومیٹر پر ڈرائیونگ میں احتیاط برتنا کیوں ضروری ہے؟
موٹروے پر پاکستان کی دیگر شاہراؤں کے مقابلے میں حادثات کی شرح کم ہے لیکن موٹروے پر گاڑیوں کی رفتار کے باعث اس پر ہونے والے حادثات عموماً جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
سالٹ رینج کلر کہار کا لگ بھگ 10 کلومیٹر کا حصہ ہے جو پہاڑ کے ساتھ چڑھائی اور اترائی پر مشتمل ہے۔
سڑک کے اس حصے پر جابجا وارننگ سائن نصب ہیں جبکہ ٹریفک پولیس بھی اس ایریا میں موجود رہتی ہے اور ڈرائیونگ اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے کرتی بھی نظر آتی ہے۔
اس مقام پر موٹر وے ساؤتھ یعنی اسلام آباد سے لاہور ڈاون سلوپ(اُترائی) جبکہ لاہور سے اسلام آباد اپ سلوپ (چڑھائی) ہے۔
موٹر وے پولیس کے حکام کے مطابق اس مقام پر ڈرائیو کرتے وقت یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ جس گیئر میں گاڑی چڑھائی پر جائے گی، واپسی میں اسی مقام پر اترائی کے وقت بھی وہی چھوٹا گئیر لگایا جائے گا۔
نیشنل موٹر وے اینڈ ہائی ویزپولیس کے ترجمان کے مطابق
سالٹ رینج کے علاقے میں پہاڑوں کی چڑھائی کے شروع ہونے سے پہلے ہی حد رفتار کے سائن بورڈ لگائے گئے ہیں
سالٹ رینج کے اس 10 کلومیٹر کے علاقے میں حد رفتار 30 کلومیٹرفی گھنٹہ ہے جس سے کسی صورت تجاوز نہیں کرنا چاہیے
تمام ڈرائیورز کو چھوٹے گئیر میں گاڑی چلانے کی ہدایت جگہ جگہ آویزاں ہیں
سالٹ رینج کے علاقے میں موٹر وے پر اوور ٹیکنگ ممنوع ہے
تمام ڈرائیورز کو مسلسل بریک لگانے سے بھی خبردار کیا جاتا ہے۔ بار بار بریک لگانے سے بریک کا لیدر گرم ہو جاتا ہے اور اپنی پکڑ چھوڑ دیتا ہے
تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ چھوٹے گیئر میں چلائیں تاکہ گاڑی کی رفتار قابو میں رہے
سالٹ رینج موٹر وے پر چند مقامات پر بریک گرم ہونے یا ایمرجنسی سے بچنے کے لیے ایمرجنسی کلائمب (رفتار کم کرنے کے لیے چھوٹی سی چڑھائی) موجود ہیں تاکہ بریک فیل ہونے یا اسے قابو میں کرنے کے لیے مدد حاصل کی جا سکے