ایک پراٹھے میں لپٹے ہوئے مزیدار چٹنی کے ساتھ بھنے ہوئے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے جن کو پراٹھا رول کہا جاتا ہے، پاکستان میں عام شہریوں کے لیے ویسے ہی ہیں جیسے امریکی عوام کے لیے ہاٹ ڈاگ۔
کراچی کی تیز رفتار زندگی میں یہ خوراک کا اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف نسلوں اور زبانوں کے متنوع شہر میں پراٹھا رول کو فخریہ انداز میں مقامی تخلیق قرار دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال نہیں ہوتا کہ کیا کسی نے پراٹھا رول کھایا ہے یا نہیں بلکہ سوال کیا جاتا ہے کہ سب سے اچھا پراٹھا رول کون بناتا ہے۔
اس کی ترکیب سادہ ہے۔ کباب کو پراٹھے میں لپیٹ دیں۔ لیکن معصومہ یوسفزئی، جو کراچی میں ہی پلی بڑھی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دو پکوانوں کی شادی جیسا ہے۔
عام طور پر کباب اور پراٹھا الگ الگ کھایا جاتا ہے لیکن ان دونوں کو اکھٹا کرنے سے ان کا ذائقہ اور مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
معصومہ کہتی ہیں کہ ’اس ترکیب کی مدد سے اسے ہاتھ میں پکڑ کر ایک ساتھ کھایا جا سکتا ہے، اور چٹنی کے ساتھ تو ہر نوالہ ذائقے کا سر محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس تجربے کو بہت بہتر بنا دیتا ہے اور زیادہ ذائقے دار بھی۔‘
پراٹھا رول کی کہانی بھی اتنی ہی مزیدار ہے۔ 1970 کی دہائی میں حافظ حبیب الرحمان نے کراچی کی مشہور طارق روڈ پر ’سلور سپون سنیکس‘ نامی دکان میں کباب رول کی ایک نئی ترکیب تیار کی جو کافی لذیذ ثابت ہوا۔
اس زمانے میں سلور سپون نئی دکان تھی جہاں ایک پلیٹ میں کباب اور پراٹھا الگ الگ پیش کیا جاتا تھا۔ یہاں چاٹ اور آئس کریم بھی ملتی تھی۔
ایک دن ایک گاہک کو جلدی تھی اور وہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے اپنا کھانا ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ حبیب نے جلدی میں کباب کو پراٹھے میں لپیٹ کر اس کے گرد کاغذ چڑھایا اور گاہک کے ہاتھ میں تھما دیا۔
قریب ہی موجود ایک اور گاہک نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی فرمائش کی۔ حبیب کو سمجھ آئی کہ یہ طریقہ تو اچھا ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کو زیادہ برتن نہیں دھونے پڑتے تھے۔ گاہکوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ بھی درکار نہیں ہوتی اور ان کو کھانا بھی جلد مل جاتا۔
یہ ایک نئی چیز بھی تھی۔
حبیب کہتے ہیں ’جب ہم نے پہلی بار کباب رول متعارف کروایا تو ویٹرز کو سمجھانا پڑتا کہ کاغذ اتار کر اسے روٹی کی طرح نہیں کھانا۔‘
شروع شروع میں حبیب نے مفت پراٹھا رول بانٹا۔ وہ زیادہ بکنے والے کھانوں جیسا کہ چاٹ کے ساتھ رکھ دیتے یا پھر لبرٹی چوک پر کھڑی گاڑیوں میں کسی اخبار والے کی طرح پراٹھا رول بانٹتے کہ یہ مشہور ہو جائے۔
اور ایسا ہی ہوا۔
اس زمانے میں کراچی میں فاسٹ فوڈ کا چرچہ تھا اور برگر اور سینڈوچ کھانے والے حبیب کے پراٹھا رول کو ناک چڑھا کر دیکھتے تھے۔
لیکن تقریبا نصف صدی بعد پراٹھا رول جنوبی ایشیا کی ایک معروف سٹریٹ فوڈ بن چکا ہے جو پاکستان کے علاوہ انڈیا، بنگلہ دیش میں بھی مشہور ہے اور خطے کی خوراک کا چہرہ بن چکا ہے۔
کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈاکٹر سحر ندیم حامد کے مطابق پراٹھا رول نے روایتی خوارک کو جدت کا روپ دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’1970 کی دہائی میں ہمارے پاس گھر کے باہر سستے کھانے کے زیادہ مواقع نہیں ہوتے تھے۔ زیادہ لوگ ایرانی کیفے جاتے تھے لیکن وہ کافی مہنگے ہوتے تھے۔ ٹھیلے سستے تھے لیکن وہاں یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ آپ باہر جا کر کھانا کھا رہے ہیں۔ سلور سپون نے مقامی ذائقہ لے کر اسے فاسٹ فوڈ کی طرح پیش کیا جو سستا بھی تھا۔‘
تیزرفتاری سے پھیلتے ہوئے اس بڑے شہر میں ایسی خوراک کی ضرورت بھی تھی۔ سحر کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کو شاپنگ کرتے ہوئے مال میں بھوک لگی ہے تو آپ رول کھا سکتے ہیں یا دفتر میں کام کرنے والوں کو کم وقت میں کھانا مل سکتا ہے۔ یہ خاندان کے لیے تفریح کا بندوبست بھی ہے اور گھر کے کھانے سے الگ بھی۔‘
خواتین کے لیے بھی معاشرتی اعتبار سے یہ ایک موزوں پکوان تھا۔ وہ آرام سے پراٹھا رول لے کر کھا سکتی تھیں اور ان کو کسی جگہ بیٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ سلور سپون میں بیٹھنے کی محدود جگہ کی وجہ سے زیادہ تر مرد گاہک ہی موجود ہوتے تھے۔
جلد ہی سلور سپون نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا۔ ریڈ ایپل، ہاٹ اینڈ سپائسی، مرچیلی جیسے ناموں کے ساتھ پراٹھا رول بیچنے والی اور دکانیں بھی میدان میں آ گئیں۔
لیکن 1970 میں پراٹھا رول کا مزہ چکھنے والے افراد کو حبیب الرحمان کے توا پراٹھا کا وہ ابتدائی مزہ اور ذائقہ اب بھی یاد ہے۔
حبیب بتاتے ہیں کہ جب بیرون ملک مقیم پاکستانی کراچی آتے تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا ان کی دکان پر پہنچتے چاہے وہ 20 یا 30 سال بعد بھی واپس آ رہے ہوتے۔ ان کے لیے پراٹھا رول گھر واپسی کا اظہار تھا۔
بین الاقوامی فوڈ چین کے ایف سی نے بھی ’زنگریتھا‘ نام کا پراٹھا رول متعارف کروایا جو زنگر برگر اور پراٹھے کے امتزاج تھا۔
اشتہاری مہم میں ایسے نوجوان گاہکوں کے لیے اسے ایک حل کے طور پر پیش کیا گیا جو دیسی اور مغربی کھانوں کے بیچ پھنسے ہوئے تھے۔
کے ایف سی نے کہا ’یہ کنفیوژن نہیں، فیوژن ہے۔‘
پاکستان میں کافی لوگوں نے اسے کھایا لیکن ان کو زیادہ پسند نہیں آیا۔ ان کے نزدیک پراٹھا رول دو مقامی پکوانوں کا امتزاج تھا نا کہ مقامی اور مغربی ذائقے کا۔
زلیخا احمد کراچی فوڈ ایڈونچر نامی فوڈ بلاگ چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کے ایف سی کے پراٹھے میں بہت زیادہ میاونیز اور میٹھی چٹنی تھی۔ ہمارے خیال میں کے ایف سی کو اپنے فرائیڈ چکن تک محدود رہنا چاہیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مقامی پراٹھا رول کا مخصوص ذائقہ چٹنی اور پیاز سے آتا ہے، جبکہ چکن کے گوشت کو کوئلوں کی آگ سے تیار کیا جاتا ہے جس کا ایک مخصوص ذائقہ ہوتا ہے۔ زنگریتھا کا صاف ستھرا فیوژن گلی میں تیار ہونے والے پراٹھے کے ذائقے کے قریب بھی نہیں تھا۔‘
ضیا تبارک سٹریٹ فوڈ پی کے نام سے یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ وہ بھی اس نکتے سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’زنگریتھا کا نام ہی غیر مقامی نہیں لگتا بلکہ اس میں پاکستانی ذائقہ بھی نہیں تھا جو پراٹھا رول میں ہوتا ہے۔‘
زنگریتھا اب بھی کے ایف سی میں دستیاب ہے اور اس کے گاہک بھی ہیں۔ لیکن کراچی کی گلیوں میں بکنے والے پراٹھا رول سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
ضیا کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک یہ پراٹھا رول کی بڑی کامیابی ہے کہ کے ایف سی جیسی فوڈ چین نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن اصل تو اصل ہی ہوتا ہے، اس کی مکمل نقل نہیں کی جا سکتی۔‘