چند سال پہلے جب میں نے اپنی بیچلرز کی ڈگری مکمل کی تو بہت سے پاکستانی نوجوانوں کی طرح میں بیرون ملک مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانا چاہتا تھا مگر اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میرے پاس ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ کہ میں سکالرشپ حاصل کروں کیونکہ نہ تو میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ میں یونیورسٹی کی فیس ادا کر سکوں اور نہ ہی میرے والدین کی اتنی مالی استطاعت تھی۔
پاکستان سے ڈگری مکمل کرنے کے بعد عموماً یہ مسئلہ بہت سے پاکستانی نوجوانوں کو درپیش ہوتا ہے جو بہتر یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم تو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر داخلہ ملنے کے باوجود وہ مالی مشکلات کی وجہ سے بیرون ممالک جا نہیں پاتے۔
گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر ایک پاکستانی نوجوان عبداللہ شاہد کی ٹوئٹ میری نظر سے گزری جسے نیویارک یونیورسٹی نے فلم سازی کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ تو دے دیا لیکن 35 ہزار ڈالر کی سکالرشپ حاصل کرنے کے باوجود انھیں صرف ایک سال کی پڑھائی کے لیے 50 ہزار ڈالر درکار تھے جو ان کے پاس نہیں تھے۔
عبداللہ کے مطابق جن سکالرشپ کے لیے وہ اہل تھے انھوں نے وہاں اپلائی کیا لیکن وہ مزید رقم کا بندوبست نہیں کر سکے لہٰذا انھوں نے مطلوبہ رقم جمع کرنے کے لیے ’کراؤڈ فنڈنگ‘ کا ارادہ کیا۔
اس فیصلے اور عمل پر انھیں ٹوئٹر پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان پر کیا تنقید ہو رہی ہے یہ جاننے سے پہلے دیکھتے ہیں کراؤڈ فنڈنگ ہے کیا؟
کراؤڈ فنڈنگ کیا ہے؟
کراؤڈ فنڈنگ کے لیے شاید اُردو زبان میں کوئی مخصوص لفظ نہ ہو مگر اس کے لفظی معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ مجمے یا لوگوں سے رقم اکھٹا کرنا۔ کراؤڈ فنڈنگ کا تصور امریکہ اور یورپ میں کافی عام ہے جس کے تحت کوئی شخص، ٹیم یا ادارہ انٹرنیٹ پر کسی خاص ’کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم‘ کو استعمال کرتے ہوئے کسی منصوبے یا مقصد کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں سے چھوٹی چھوٹی مقدار میں رقم جمع کرتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو بجائے یہ کہ اپنے آئیڈیا کے لیے کسی ایک سرمایہ دار سے بڑی رقم حاصل کی جائے، بڑی تعداد میں عام لوگوں سے چھوٹی چھوٹی رقوم حاصل کی جائیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے اس کے بدلے پیسے دینے والوں کو کیا ملتا ہے؟
زیادہ تر لوگ پراجیکٹ (منصوبے) اور مقصد کے لیے مالی امداد بغیر کسی ذاتی مفاد کے کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آئیڈیا اتنا دلچسپ ہو کہ پیسے عطیہ کرنے والا شخص اسے کامیاب ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہو۔
تاہم کچھ کراؤڈ فنڈنگ میں پیسے دینے والوں کو خصوصی فائدے ملتے ہیں۔
پاکستان میں مالی امداد کے بارے میں جب خیال آتا ہے تو غریب، مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی امداد کرنا ہی ٹھیک سمجھا جاتا ہے جبکہ کراؤڈ فنڈنگ کسی بھی چیز کے لیے ہو سکتی ہے اور آپ کے مالی حالات کیسے ہیں اس سے اہم فرق نہیں پڑتا۔
سوشل میڈیا پر تنقید
عبداللہ نے جب یونیورسٹی کی فیس کے لیے کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم کا لنک اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا تو ابتدا میں تو انھیں مثبت باتیں پڑھنے کو ملیں لیکن جلد ہی ایسے صارفین بھی سرگرم ہو گئے جنھوں نے اُن پر کڑی تنقید کی۔
اس تنقید کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح ’پیسے مانگنا بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔‘ ’فلم کی ڈگری اور وہ بھی نیو یارک یونیورسٹی سے، یہ ایک ضرورت نہیں بلکہ لگژری ہے اور یہ کہ یہ پڑھائی وہ اندرون ملک کسی یونیورسٹی سے بھی کر سکتے ہیں۔‘
یا ’اتنے پیسے کسی غریب پر بھی لگائے جا سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ انھیں دیے جائیں۔‘
عبداللہ نے اپنا بیچلرز بھی امریکہ کے لبرل آرٹس کالج پامونا سے کیا تھا لہٰذا یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ اس ڈگری کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبداللہ نے بتایا کہ فلم بنانا ان کا جنون ہے، انھوں نے امریکہ سے بیچلرز اس لیے کیا تھا کیوںکہ ان کی رائے میں کوئی مقامی یونیورسٹی اس میعار کی ڈگری نہیں کروا رہی تھی، اور بیچلرز کے لیے بھی انھیں پامونا کالج سے مالی مدد اور بعد میں قرضہ لینا پڑا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان کیوں آئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے شوق یہی تھا کہ میں پاکستان میں فلمیں بناؤں، یہ خواہش تھی کہ پاکستانی کہانیاں سناؤں۔‘
اس مضمون میں ماسٹرز کرنے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے تھیوری پڑھی تھی، اور اب وہ پروڈکشن سیکھنا چاہتے ہیں اور مینٹورشپ چاہتے ہیں۔ ’اچھا فلم ساز ہونے کے لیے ضروری ہے بہت سی فلموں پر کام کیا جائے، لیکن فلمیں مہنگی ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے اپنے پیسے بچا کر فلمیں بنائیں پر وہ کافی نہیں تھا لہذا بہترین آپشن فلم سکول ہی ہوتا ہے جہاں وہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن پاکستانی فلم سازوں کی فلمیں بڑے فیسٹیولز میں پہنچی ہیں انھوں نے اس طرز کی ڈگری کی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں مجھے مزید تعلیم کی ضرورت نہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے ضرورت ہےکیونکہ میری مہارت اس شعبے میں نہیں ہے جہاں میں چاہتا ہوں۔ اتنے اچھے سکول میں داخلہ ملنے کے بعد دل نہیں چاہتا اس چھوڑنے کا۔ لوگ ماسٹرز کرتے ہیں لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں، لوگ علم کی تلاش میں پوری دنیا گھوم لیتے ہیں۔۔۔ اعلی تعلیم حاصل کرنا لگژری نہیں بلکہ ضرورت ہے۔‘
ان پر کی جانے والی تنقید پر ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بیانیہ بن گیا تھا کہ اتنی مہنگی ڈگری کے لیے آپ کس منہ سے پیسے مانگ رہے ہیں جبکہ پاکستان کے حالات اتنے بُرے ہیں کہ لوگ بھوکے سو رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ بات ایسے بن گئی تھی کہ یا آپ غریب لوگوں کو پیسے دیں یا آپ عبداللہ کو دے دیں، پاکستان میں یہی دو آپشنز رہ گئے ہیں۔‘
’لوگ کہہ رہے تھے کہ میں مجبور کر رہا ہوں لوگوں کو پیسے دینے پر۔۔۔ مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کسی کو کیسے مجبور کر رہا ہوں؟ یہ کسی کا بھی استحقاق ہے کہ وہ ڈونیشن دے یا نہیں۔ اگر آپ تعلیم کے لیے فنڈ دینا چاہتے ہیں تو زبردست، نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مدد مانگنا کوئی بُری بات نہیں۔ آپ کو اپنے آپ کو سب کے سامنے رکھنا ہوتا ہے، آپ اپنی پوری زندگی کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے میرے میں مہارت ہے، ٹیلنٹ ہے تو رقم عطیہ کریں ورنہ نہ کریں۔ میں کسی کی منت نہیں کر رہا کہ مجھے پیسے دیں تاکہ میں پارٹی کر لوں، یا میں گاڑی خرید لوں۔‘
عبداللہ 51500 ڈالرز جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ’گو فنڈ می‘ ویب سائٹ پر انھوں نے اب تک تقریباً 12 ہزار ڈالر جمع کر لیے ہیں جبکہ ’انڈی گوگو‘ پر 350 ڈالر۔
کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم
انٹرنیٹ پر کچھ ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں پر لوگ جا کر اپنے پراجیکٹس اور مقاصد کے بارے میں بتاتے ہیں اور لوگوں سے اس کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔
یہ ویب سائٹس ان لوگوں کے بارے میں معلومات جیسا کہ سوشل سکیورٹی نمبر، بینک معلومات، فون نمبر، گھر کا پتا لیتے ہیں۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ کوئی نقلی پراجیکٹ یا ایسے لوگ جن کا اعتبار نہیں ہے ان کو اس ویب سائٹ اور اس پر آنے والے لوگ جو مالی امداد کرتے ہیں سے دور رکھا جائے۔ ان قواعد و ضوابط کی وجہ سے لوگ ان ویب سائٹس پر اعتبار کرتے ہیں۔
یہ پلیٹ فارمز ان پراجیکٹس کے لیے جمع ہوئے پیسے میں سے چھوٹا حصہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اور یہ ہر ویب سائٹ کے لیے مختلف ہوتا ہے۔
ویب سائٹس پر پراجیکٹ کی معلومات کے ساتھ ساتھ آپ کو جتنے پیسے چاہیے ہوتے ہیں اور جتنے دنوں میں جمع کرتے ہیں آپ نے بتانا ہوتا ہے۔
کچھ ویب سائٹس پر اگر آپ وقت پر مطلوبہ پیسے جمع نہیں کر پاتے تو آپ کو کچھ نہیں ملتا، جبکہ پیسے دینے والوں کو ان کے پیسے واپس مل جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ پلیٹ فارمز یہ آپشنز دیتی ہیں کہ اگر پیسے پورے جمع نہ بھی ہو سکے تو جتنے ملے ہیں وہی مل جاتے ہیں۔
اس طرح کے پلیٹ فارمز کی دو مثالیں ’گو فنڈ می‘ اور ’انڈی گوگو‘ ہیں۔
عبداللہ نے بتایا ان دونوں پر آپ پاکستان سے اکاؤنٹ نہیں بنا سکتے لہذا انھوں نے امریکہ کے بینک اکاؤنٹ سے کراؤڈ فنڈنگ کا آغاز کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گو فنڈمی پر پاکستانی بینک اکاؤنٹ سے پیسے نہیں دیے جا سکتے، البتہ انڈی گوگو پر یہ ممکن ہے۔
پاکستان میں کراؤڈ فنڈنگ کی کامیاب مثال
اریبہ فاطمہ پاکستان کی لمز یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں۔ اُن کے بھائی کا حال ہی میں جب لمز یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے بیچلرز کے پروگرام میں داخلہ ہوا تو اُن کے مطابق 70 فیصد مالی مدد ملنے کے باجود انھیں پانچ لاکھ ستر ہزار روپے سے زیادہ رقم مزید چاہیے تھی۔ اُن کے مطابق ان کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ یہ فیس دے سکیں لہٰذا انھوں نے اپنی ساری صورتحال اور بھائی کا چالان فارم ٹوئٹر پر پیسوں کی درخواست کے ساتھ ٹویٹ کر دیا۔
اریبہ کو اس طریقے سے پیسے تو مل گئے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آسان نہیں تھا۔ لوگ میرے اور میرے بھائی کے متعلق غلط باتیں کر رہے تھے، وہ میرے لیے ایک بھیانک تجربہ تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’لوگ میری پرانی ٹویٹس کو اٹھا کر تنقید کر رہے تھے اور مجھ پر سیاسی وابستگیوں کے الزامات عائد کر رہے تھے۔۔۔ میں اپنے بھائی کی فیس کے لیے درکار رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن یہ میرے لیے کوئی باعزت تجربہ نہیں تھا کیونکہ میں کوئی چیز مانگ رہی تھی اور پاکستان میں لوگ بنادی طور پر کراؤڈ فنڈنگ کے خیال کو نہیں سمجھتے۔‘
یاد رہے کہ اریبہ نے کوئی کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم استعمال نہیں کیا تھا بلکہ انھیں یہ پیسے بینک ٹرانسفر کے ذریعے ملے تھے۔
رقوم عطیہ کرنے والے لوگ کون ہوتے ہیں؟
عبداللہ کا کہنا تھا کہ ان کے کراؤڈ فنڈ میں زیادہ تر پیسے غیر ملکیوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دیے۔ اُن کے مطابق انڈی گوگو پر دیے گئی 350 ڈالر غالباً پاکستان سے آئے جس پر وہ بہت شکر گزار ہیں کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ پاکستان میں اتنے برے حالات ہونے کے باوجود لوگوں کی جانب سے اُن کی اتنی مدد کی گئی۔
اریبہ نے بتایا کہ ’زیادہ تر جن لوگوں نے پیسے دیے وہ سمجھ لیں کہ گمنام ہیرو تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے جن کے زیادہ فالورز نہیں تھے، زیادہ تر لوگ ملک سے باہر رہتے تھے اور وہ بہت اچھے تھے۔ انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ تم اپنے بھائی کو لمز کیوں بھیج رہی ہو، کراچی یونیورسٹی کیوں نہیں بھیج رہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا جن لوگوں نے ان کی مدد کی جس کے عوض انھوں نے کوئی ثبوت نہیں مانگے اور نہ ہی انھیں فراڈ کہا جبکہ جنھوں نے تنقید کی وہ زیادہ تر ٹرول اکاؤنٹس تھے۔
دھوکے بازوں سے کیسے بچا جائے؟
کچھ لوگوں کے یہ بھی تحفظات ہیں کہ پیسے مانگنے والے لوگ دھوکے باز یا جعل ساز بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ ایسے کسی مقصد میں پیسے دینا چاہ رہے ہیں تو مالی مدد مانگنے والوں کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کر لیں، اُن کی ویب سائٹ دیکھیں، اُن کا سوشل میڈیا دیکھیں۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ انھوں نے اپنی کیمپین ٹویئٹ یا پوسٹ پر کیا تفصیلات لکھیں ہیں۔ آپ خود بھی رابطہ کر کے ان سے مزید تفصیلات لے سکتے ہیں۔
کوشش کریں کم رقم دیں کیونکہ کراؤڈ فنڈنگ کام ہی ایسے کرتی ہے، خصوصاً جب آپ کو شک ہو۔
اخلاقی ذمہ داری یقیناً پیسے لینے والے کی ہے کہ جس مقصد سے اس نے عطیات مانگے ہیں وہ اس کام کو پورا کریں لیکن دینے والوں کو بھی یاد رکھنا ہے کہ وہ ان سے پیسے دینے کے عوض کوئی پراڈکٹ نہیں خرید رہے جو نہ ملنے پر ان کے ساتھ فراڈ ہو جائے گا ۔
یہ بس مدد کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے اور کوئی آپ کو پیسے دینے پر مجبور نہیں کر رہا، یہ آپ کی صوابدید ہے۔