سنیچر 15 جولائی کو وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے اپنے ایک پالیسی بیان میں واضح کیا کہ ’عام انتخابات، پُرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے، حکومت کا فیصلہ ہے کہ وہ نئی مردم شماری کے نتائج شائع نہیں کرے گی۔ جب اسمبلی اپنی مُدت پوری کرکے تحلیل ہوجائے گی تو الیکشن کمیشن اس پر پابند ہوگا کہ وہ پرانی مردم شماری کے تحت الیکشن کروائے۔‘
یہاں سوال یہ ہے کہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد میں کس نوع کی سیاسی و تکنیکی پیچیدگیاں ہیں کہ حکومت اس کے نتائج شائع نہیں کرنا چاہتی۔ مزید براں سیاسی مداخلت کا عمل دخل زیادہ ہے یا تکنیکی نوعیت کے مسائل زیادہ آڑے آ رہے ہیں؟
وفاقی وزیرِ داخلہ نے نئی مردم شماری پر کچھ سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’نئی مردم شماری سے ایم کیوایم زیادہ غیر مطمئن ہے۔ نئی مردم شماری پر اتفاق بھی نہیں ہے۔‘
ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پر سیاسی جماعتوں اور مختلف گروہوں کی جانب سے اعتراضات کیا سامنے آئے ہیں؟ اب ایک سوال تو یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ سنہ 2017 کی مردم شماری جس کے تحت سنہ 2022 میں حلقہ بندیاں کی گئی تھیں کہ مطابق الیکشن کروانے میں حکومت اور اُس کے اتحادیوں کے کوئی مفادات پنہاں ہیں؟
اور کیا اُس مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کو تحفظات تھے؟
کون سے آئینی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ٹھہرتا؟ اگر الیکشن کا انعقاد پرانی مردم شماری اور اُس کے مطابق ہونے والی حلقہ بندیوں پر ہوتا ہے تو سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کس طرح ترتیب پائے گی؟
مذکورہ پہلوؤں کا احاطہ ماہرین کی آرا کی روشنی میں کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کروانے میں رکاوٹ کیا؟
نئی مردم شماری کے مطابق آخر الیکشن کروانے میں رکاوٹ کیا ہے کا جواب دیتے ہوئے سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ ’نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کومردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کروانے کے لیے چار ماہ کا وقت درکار ہوگا۔‘
’اگر ایسا ہوا تو الیکشن اپنی مقررہ آئینی مدت کے تحت نہیں ہوسکیں گے۔ مگر سنہ 2017 کی مردم شماری کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں کے صورت میں انتخابات قومی اسمبلی قبل ازوقت یا مقررہ وقت پر تحلیل ہو ہر دو صورتوں میں ہوسکتے ہیں۔‘
نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس میں آئینی رکاوٹ کیا بنتی ہے؟ یہ سوال جب سیاسی تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی کے سامنے رکھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 51 اے کی ذیلی دفعہ پانچ کے مطابق الیکشن کا انعقاد سرکاری طورپر شائع آخری مردم شماری کے مطابق ہوگا۔
نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن اس لیے نہیں ہوسکتے کیونکہ حکومت کا خیال تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری اپریل تک مکمل ہوجائے گی اور اُس کے تحت اگست تک حلقہ بندیاں ہوجائیں گی۔ اس سے پہلے مشترکہ مفادات کونسل اس کو منظور کر لے گی۔
اس دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور وہاں پر منتخب وزرائے اعلیٰ نہیں رہے۔ فرض کریں کہ اگر ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع بھی ہوجائیں تو اُس کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں تبدیل ہوں گی، سیٹوں کی تبدیلی آئینی ترمیم کے بغیر ناممکن ہے اور آئینی ترمیم کے لیے دونوں ہاؤسز میں دوتہائی اکثریت چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک اسمبلی تو دوہفتے کے بعد ختم ہو رہی ہے، لیکن اگر ابھی کرنا بھی چاہے تو دوتہائی اکثریت موجود ہی نہیں۔ اس طرح اگر آئینی ترمیم نہیں ہوسکتی تو سیٹیں وہی رہیں جو پچھلی مردم شماری کی ہیں۔ اس لیے تکنیکی وجوہات ہیں، جس کی بنیاد پر الیکشن 2017 کی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔‘
تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 51 (3) میں یہ درج ہے کہ قومی اسمبلی کی کل نشستیں کتنی ہوں گی اوراُس میں چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی سیٹیں کتنی ہوں گی۔ یہ سب آئین کا حصہ ہے اور آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل51 اے کی ذیلی دفعہ پانچ کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں گذشتہ سرکاری طور پر شائع مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جیسا کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے اگر یہ سرکاری طور پر شائع نہیں کرتے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہے، نہ آئینی طور پر لازمی ہے کہ دوبارہ سے نشستوں کا تعین کیا جائے۔ اگر شائع کرتے ہیں تو نیا آئینی تنازع کھڑا ہو جائے گا کیونکہ ان کے نشستوں کی نئی تقسیم کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے اور ان کے پاس تعداد پوری نہیں۔‘
نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کے انعقاد میں تکنیکی مسائل زیادہ ہیں یا سیاسی؟
موجودہ حالات میں نئی مردم شماری کے سرکاری نتائج شائع نہ کرنے اور اُس کے مطابق الیکشن نہ کروانے میں تکنیکی مسائل کا عمل دخل زیادہ ہے یا سیاسی مداخلت زیادہ ہے؟
اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار ڈاکٹررسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’نئی مردم شماری کے نتائج سامنے نہ لانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ 13 اتحادی جماعتوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔
’ایم کیوایم والے یہ کہتے ہیں کہ کراچی کی آبادی کو کم اور سندھیوں کی آبادی کو زیادہ دکھایا گیا ہے، یوں سیٹوں میں ردوبدل کرنا پڑے گا، جس سے اُن کے خیال کے مطابق شہری علاقوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا واقعی مردم شماری میں اس طرح کی گوئی گڑ بڑ کی جاتی ہے؟ میرا نہیں خیال کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری میں کوئی گڑبڑ کی گئی ہے۔‘
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) سے وابستہ انتخابی اُمور کے ماہر رشید چودھری جہاں موجودہ حالات میں اس کو سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں وہاں وہ سیاسی سے زیادہ تکنیکی مسئلہ بھی گردانتے ہیں۔
اُن کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری کے حتمی نتائج کے مطابق الیکشن کروانے میں تکنیکی طورپر زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
’یہ تکنیکی سے زیادہ سیاسی معاملہ بھی ہے، اس میں صوبوں، صوبوں کے اندر سیاسی جماعتوں اور مختلف گروپس کو جو اعتراضات ہوتے ہیں، اُس کی وجہ سے نتائج تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر باالفرض نتائج فوری طورپر آ بھی جائیں اور حلقہ بندیاں کر بھی لی جائیں تب بھی ہماری الیکشن کروانے کی آئینی ڈیڈ لائن پوری نہ ہوسکے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وقت پر اسمبلی تحلیل ہوں تو اُس کے دو ماہ کے اندر، وقت سے پہلے تحلیل ہوں تو نوے دن کے اندر الیکشن ہونا ضروری ہیں جبکہ حلقہ بندیوں میں چارسے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
اس پہلو پر ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’اس میں تکنیکی و آئینی دونوں پہلو ہیں۔ نئی مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے لیے سیاسی اتفاق رائے نہیں ہو پائے گا اگر پھر بھی حکومت کر دے تو الیکشن نومبر دسمبر تو کیا جنوری فروری میں بھی مشکل ہو گا۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کو حد بندیوں کے لیے وقت چاہیے ہو گا۔ اس طرح الیکشن کے انعقاد میں طوالت آئے گی جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں نہیں چاہتے۔ٗ
پرانی مردم شماری کے مطابق الیکشن کاانعقاد کن حلقہ بندیوں کے تحت ہو گا؟
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کے نئی مردم شماری کے نتائج عام نہ کرنے کے فیصلے کے بعد سوال یہ ہے کہ موجودہ الیکشن کس حلقہ بندیوں کے تحت ہوگا؟
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ’اگر مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں لائے جاتے تو انتخابات پرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے اور حلقہ بندیاں بھی وہی رہیں گی۔ٗ
رشید چودھری کے مطابق ’نئی حلقہ بندیاں جو 2022 میں ہوئیں یہ سنہ 2017 کی مردم شماری کے حتمی نتائج کے مطابق ہوئی تھیں۔ سنہ 2018 کے انتخابات ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ 2017 کی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق ہوئے تھے۔
ان کے مطابق ’ڈیجیٹل مردم شماری کے سرکاری نتائج ابھی شائع نہیں ہوئے۔ جب تک یہ نتائج شائع نہیں ہوتے اورمشترکہ مفادات کونسل منظوری نہیں دیتی تب تک نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ آنے والے انتخابات سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہوں گے، جس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں اگست 2022 میں ہوئی تھیں۔‘
پرانی مردم شماری کے بعد نئی مردم شماری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
عمومی طورپر مردم شماری دس سال بعد ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو اس پر کافی وقت بھی لیا جاتا رہا ہے۔ سنہ 1981میں مردم شماری ہوئی تو اُس کے بعد سنہ 1998میں اور پھر سنہ 2017 میں ہوئی۔ اس کے بعد ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا فیصلہ ہوا۔
سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد کے مطابق ’یہ انٹرنیشنل فارمولا ہے کہ مردم شماری دس سال بعد ہو گی۔ مگر 2017 کے بعد ڈیجیٹل مردم شماری شروع کردی گئی۔ یہ پچھلی حکومت میں خود کو ارسطو سمجھنے والوں کا فیصلہ تھا۔ٗ
ضیغم خان کے مطابق ’2017 کی مردم شماری کے مطابق 2018 کے الیکشن ہوئے اور میرا خیال ہے اب بھی ویسا ہی ہو گا کیونکہ آئین کے مطابق دس سال بعد مردم شماری ضروری ہے۔‘
رشید چودھری کے خیال کے مطابق ’2017 کی مردم شماری کے نتائج آفیشل کرتے وقت، اُس وقت کی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا اور سب صوبوں اور سیاسی جماعتوں نے رضامندی بھی ظاہر کی تھی کہ ڈیجیٹل مردم شماری فوری طورپر کروائی جائے گی۔‘
مردم شماری کے نتائج متنازع کیوں ٹھہرتے ہیں؟
ہماری سیاسی جماعتیں یا افراد مردم شماری کے نتائج کو متنازع کیوں بناتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ ’سیاست میں قومی مفاد سے زیادہ لسانی اور گروہی مفاد عزیز ہیں۔بلوچستان میں بلوچ قبائل کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ مردم شماری میں اُن کی تعداد کم آنے سے اُن کی سیاست کو خطرہ پڑسکتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ کراچی، حیدر آباد اورسکھر میں سندھیوں اور مہاجروں کا ہے، جس کو متنازع بنایا جاتا ہے۔‘
وہ مزید تبصرہ کرتے ہیں کہ ’اسی طرح صوبوں کے درمیان این ایف سی ایوارڈ کے مسائل ہیں۔ اگر وزیرِ داخلہ بھی یہ کہنا شروع کردیں کہ مردم شماری میں کچھ مسائل ہیں تو پھر اُس کی صحت اور درستگی کے بارے میں سوالات جنم لیں گے۔‘
ضیغم خان کے خیال میں ’سنہ 2017 کی مردم شماری میں مسائل نہیں تھے مگر اس کے باوجود اسے متنازع بنایا گیا۔ ہر صوبہ زیادہ سے زیادہ تعداد دکھانا چاہتا ہے تاکہ اسے این ایف سی ایوارڈ میں زیادہ حصہ ملے اور آبادی کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ نشستیں ملیں۔ یہ باعث شرم ہے کیونکہ اگر صوبے یہ دکھا رہے ہیں کہ ان کے ہاں آبادی میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا تو اس کا مطلب ہے وہ صحت، آگاہی اور تعلیم کے شعبوں میں ناکام رہے۔‘
رشید چودھری کے مطابق ’ڈیجیٹل مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے تھا، لیکن یہ بہت تاخیر سے شروع کی گئی اور اس کے نتائج پر بھی اُسی طرح کے تحفظات ہیں جو سنہ2017 کی مردم شماری پر تھے۔‘
سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟
ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت بلوچستان کی آبادی میں ازحد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ اضافہ سنہ 2017 کی مردم شماری کے مقابلہ میں لگ بھگ 78 فیصد زیادہ ہے۔
دوسرا اضافہ صوبہ سندھ میں ہوا ہے۔ اگر نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں ہوتی ہیں تو جہاں پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد کم ہو جانا تھی، وہیں بلوچستان میں یہ نشستیں بڑھ جاتیں۔
آئینی تقاضا یہ ہے کہ جب نئی مردم شماری ہو اور سرکاری نتائج شائع ہوجائیں، تو اُس کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں ازسر نو تقسیم کی جائیں۔
اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد میں اضافے، ردوبدل اور صوبوں کے مابین قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوتی ہے۔
اب سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟
ڈاکٹررسول بخش رئیس کے مطابق ’ہم سب جانتے ہیں کہ ساری دوڑ الیکٹ ایبلز تک ہے۔ ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ تحریکِ انصاف مکمل طورپر ’مینیج‘ ہوپائے گی یا نہیں؟ جس طرح کے بھی انتخابات ہوں گے، اُس کی شفافیت اور صحت پر سوالات اُٹھائے جاتے رہیں گے۔‘