اہم خبریں

ڈونلڈ ٹرمپ کی عدالت میں پیشی، حسّاس فائلوں کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کے الزامات سے انکار

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میامی، فلوریڈا کی ایک وفاقی عدالت میں حسّاس فائلوں کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کے تاریخی مقدمے میں اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خود کو بے قصوروارقرار دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں موجودہ یا سابق جن پر وفاقی مجرمانہ فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

کمرہِ عدالت میں ٹرمپ کے وکیل نے غیر قانونی طور پر خفیہ دستاویزات کو اپنے پاس رکھنے اور انھیں واپس حاصل کرنے کی حکومت کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کے 37 الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی درخواست داخل کی۔

اٹارنی، ٹوڈ بلانچ نے جج کو بتایا ’ہم یقینی طور پر قصوروار نہ ہونے کی درخواست داخل کرتے ہیں۔‘

مجسٹریٹ جج جوناتھن گڈمین نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے شریک مدعا علیہ والٹ ناؤٹا سے کہا ہے کہ وہ آپس میں کیس کے حقائق پر بات نہ کریں۔

جج نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں نے مل کر کام کیا ہے، لیکن کیس کے بارے میں کوئی بھی بات چیت ان کے وکلا کے ذریعے ہونی چاہیے۔

سماعت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مجرمانہ الزامات سے انکار کیا ہے کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد خفیہ دستاویزات اپنے پاس رکھی تھیں۔ ان پر الزام ہے کہ امریکی حکومت کے راز ان کی رہائش گاہ کے غسل خانے، بیت الخلا، بال روم اور بیڈ روم میں محفوظ کیے گئے تھے۔

ٹرمپ، جو وائٹ ہاؤس واپس جیتنے کی مہم چلا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ فرد جرم ’انتخابی مداخلت‘ ہے۔

سپیشل کونسل جیک اسمتھ جو کہ سرکردہ تفتیش کار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ جلد از جلد ٹرائل چاہتے ہیں اور یہ کہ ٹرمپ مجرم ثابت ہونے تک بے قصور ہیں۔

سابق صدر گہرے رنگ کے سوٹ اور بازوؤں پر سرخ رنگ کی ٹائی پہنے بیٹھے عدالت میں شرمندہ نظر آئے۔

ٹرمپ کے شریک مدعا علیہ والٹ ناؤٹا نے بھی قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی۔

سی این این کے مطابق، سابق صدر، 76، کو بغیر کسی پابندی کے عدالت سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔

پیشی کے موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجرم کی حیثیت سے لی جانے والی تصویر مگ شاٹ نہیں اتاری جائے گی لیکن امکان ہے کہ ان کی انگلیوں کے نشانات لیے جائیں گے اور سماعت کے بعد ڈی این اے کا نمونہ دیا جائے گا۔

اس سال ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار عدالت میں پیش ہوئے ہیں لیکن منگل کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔

ٹرمپ کے حامیوں اور جوابی مظاہرین کا چھوٹا ہجوم شہر میامی میں ولکی ڈی فرگوسن جونیئر عدالت کے باہر موجود تھا۔

سابق امریکی صدر 76 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹرمپ نیشنل ڈورل ریزورٹ سے لایا گیا جہاں انھوں نے رات گزاری۔ کورٹ کمپلیکس پہنچ کر گاڑیوں کا جلوس زیر زمین گیراج میں داخل ہوگیا۔

ان پر اور ان کے ایک قریبی ساتھی والٹ ناؤٹا پر مقدمہ درج کیا گیا تھا، جن پر قومی سلامتی کے دستاویزات میں مبینہ طور پر غلط استعمال سے متعلق چھ مجرمانہ الزامات کا الزام ہے۔

عدالت میں پیشی کے دوران، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر کئی پیغامات پوسٹ کیے گئے، جن میں تمام بڑے حروف میں ایک پیغام بھی شامل تھا: ’ہمارے ملک کی تاریخ کے سب سے افسوسناک دنوں میں سے ایک۔ ہم ایک زوال پذیر قوم ہیں‘۔

اس سے قبل ایک جج نے خبر رساں اداروں کی طرف سے عدالت کے اندر کی تصویر اور ویڈیو تک رسائی کی اجازت دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

امکان ہے کہ رپبلکن سابق صدراس ہفتے فلوریڈا کے دیگر وکلاء سے ملاقاتیں جاری رکھیں گے جب ان کے دو وکلا گذشتہ ہفتے مستعفی ہو گئے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، جنھوں نے بار بار غلط کاموں سے انکار کیا ہے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ بیڈ منسٹر، نیو جرسی میں اپنے گولف ریزورٹ میں واپس آئیں گے، جہاں وہ میڈیا کے سامنے ریمارکس دیں گے۔

فرد جرم کیا ہے؟

ایک گرینڈ جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اس کا مطلب ہے فرد جرم یعنی رسمی طور پر ایک تحریری شکل میں لکھا الزام جو استغاثہ کی جانب سے ایک فرد پر لگایا گیا ہے جن کا ماننا ہے کہ اس شخص نے جرم کیا ہے۔

فرد جرم میں الزامات کے بارے میں بنیادی معلومات شامل ہوتی ہیں اور ٹرمپ کے معاملے میں اس میں سنگین الزامات شامل ہیں۔

یہ ایسے جرائم ہیں جن کی سزا ایک سال یا اس سے زیادہ کی قید ہو سکتی ہے۔

پراسیکیوٹر کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کے برعکس یہ فرد جرم نیویارک شہر میں مین ہیٹن کی ایک گرینڈ جیوری کے خفیہ ووٹ کا نتیجہ ہے۔

گرینڈ جیوری شہریوں کا ایک گروپ ہے جو گواہوں کی گواہی اور شواہد سنتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کسی شخص پر جرم عائد کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔

کیا ٹرمپ 2024 میں صدر کا انتخاب لڑ سکتے ہیں؟

جی بالکل، وہ انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ سزا یا فرد جرم ٹرمپ کو صدارتی انتخاب لڑنے سے نہیں روکے گی۔ امریکی آئین کے مطابق کوئی مجرمانہ ریکارڈ صدر بننے کی اہلیت کے لیے مقرر کردہ معیارات میں شامل نہیں ہے۔

ایسے افسران جن کا مواخذہ کیا گیا ہے اور انھیں اعلیٰ جرائم اور بددیانتی کے مرتکب قرار دیا گیا ہے انھیں مستقبل کے عہدے سے روکا جا سکتا ہے، لیکن امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کو ان کے مواخذے کے دونوں مقدموں میں بری کر دیا تھا۔

بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نامہ نگار اینتھونی زورچر کا کہنا ہے کہ ’امریکی قانون کسی بھی امیدوار کو اس بنیاد پر مہم چلانے یا صدر بننے سے نہیں روکتا جس پر کوئی جرم ثابت ہوا یا چاہے وہ جیل میں ہی کیوں نہ ہو۔‘