اہم خبریں

’ڈوبتے جہازوں کی ملکہ‘: وہ نرس جو تاریخ کے تین بڑے بحری جہاز حادثوں میں بچ نکلی

ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا۔ سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو لائف بوٹس میں ڈالا جا رہا تھا۔ ایسی ہی ایک کشتی میں ایک چھوٹا بچہ، ایک کم سن لڑکا اور ایک عورت بیٹھے تھے۔ کشتی کو پانی میں اتارنے سے پہلے، کشتی پر سوار افسر نے پکارا ’کیا جہاز کے عرشے پر کوئی خواتین رہ گئی ہیں؟‘

کوئی سامنے نہیں آیا۔

ایک اور افسر نے پھر پوچھا کہ ’کیا کوئی عورت باقی ہے؟ پھر ایک عورت سامنے آئی اور کہنے لگی کہ میں اس جہاز کی مسافر نہیں ہوں بلکہ یہاں کام کرتی ہوں۔ افسر نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا اور کہا،’کوئی مسئلہ نہیں لیکن تم ایک عورت ہو۔ کشتی میں تمہارے لیے جگہ ہے۔‘‘

آخری لمحات میں وائلٹ کی قسمت بدل گئی۔ اسے لائف بوٹ میں جگہ مل گئی اور اس کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی۔

تاہم، یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ کسی بحری جہاز حادثے میں زندہ بچ گئی تھی اور نہ ہی یہ آخری موقع تھا۔

ٹائی ٹینک اپریل 1912 میں ڈوبا تھا۔ مذکورہ واقعہ ٹائی ٹینک جہاز حادثے کے ایک سال بعد شائع ہونے والی کتاب ’دی ٹروتھ آباؤٹ ٹائی ٹینک‘میں بیان کیا گیا ہے۔

کچھ حوالوں میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ ٹائی ٹینک پر غیر سفید فام افراد نے جہاز کے افسران سے کہا کہ وہ نرس وائلٹ کو لائف بوٹ میں بٹھائیں۔

وائلٹ کو تاریخ میں ’مس ان سنک ایبل‘ یا ’کوئین آف سنکنگ شپ‘یعنی ڈوبتے ہوئے جہازوں کی ملکہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وائلٹ ایک نرس تھیں اور وہ اس دور کے حیرت انگیز اور سب سے بڑے جہاز پر سفر کر رہی تھیں۔ وہ شاندار جہاز تو ڈوب گیا لیکن وائلٹ کو کچھ نہیں ہوا۔ یہ وائلٹ جوزف کی کہانی ہے۔

وائلٹ کی سوانح عمری 1998 میں شائع ہوئی تھی۔ اسے جان میکسٹن گراہم نے لکھا تھا۔ تب ہی دنیا کو معلوم ہوا کہ وائلٹ نہ صرف ٹائی ٹینک بلکہ تین بڑے بحری جہاز حادثوں میں بچ نکلی تھیں۔

وائلٹ جوزف کون تھیں؟

وائلٹ ایک معمولی آئرش خاندان میں پیدا ہوئیں تھیں جو ہجرت کر کے ارجنٹائن چلا گیا تھا۔ خاندان میں سب سے بڑی بیٹی ہونے کے ناطے، وائلٹ پر جلد ہی چھ بہن بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری آن پڑی تھی۔

ان کے والد کا انتقال وائلٹ کی کم سنی میں ہوا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ایک جہاز پر بطور نرس کام کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کی ماں بھی بیمار پڑی اور انتقال کر گئیں۔

وائلٹ نے 21 سال کی عمر میں جہاز پر بطور سٹیورڈیس کام کرنا شروع کیا۔ یہ وائلٹ کی ذمہ داری تھی کہ وہ جہاز پر سفر کرنے والے مالدار مسافروں کے لیے کھانا، پانی، تفریح کا انتظام کرتی اور ان کے کمروں کی صفائی کا خیال رکھتی تھیں۔

جب ٹائی ٹینک ڈوبا تو وائلٹ اس وقت صرف 25 سال کی تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کل 40 سال تک بحری جہازوں پر کام کیا اور اس عرصے میں انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ رات جب ٹائی ٹینک ڈوبا

آج سے ٹھیک 111 سال قبل ٹائٹینک ایک اندھیری رات میں ایک برفانی تودے (آئس برگ) سے ٹکرا گیا تھا۔ اس وقت جہاز پر سوار زیادہ تر مسافر نیند کی آغوش میں تھے۔

حادثے کے وقت ٹائٹینک 41 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک کی طرف بڑھ رہا تھا اور صرف تین گھنٹے کے اندر 14 اور 15 اپریل 1912 کی درمیانی رات ٹائٹینک بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔

وہ جہاز جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی نہیں ڈوبے گا، نہ صرف چند گھنٹوں میں سمندر میں غرق ہو گیا بلکہ اس حادثے میں 1500 کے قریب افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔

آج 111 سال بعد بھی اسے سب سے بڑا سمندری حادثہ سمجھا جاتا ہے۔

ٹائی ٹینک پر حفاظت کا سختی سے نفاذ کیا گیا تھا۔ اس تباہی میں اتنے زیادہ لوگوں کی موت کی ایک وجہ یہ تھی کہ جہاز میں لائف بوٹس ناکافی تھیں۔

اس رات کی تفصیل کتاب ’ٹائٹینک سروائیور: نیولی ڈسکورڈ میموریز آف وائلٹ جوزف‘ میں ہے۔

اس میں وائلٹ کہتی ہیں کہ ’ایک لمحے کے لیے مکمل سکون تھا۔ چاروں طرف گہرا سیاہ اندھیرا تھا اور پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔ ہمارا جہاز برفیلے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔‘

’ایک افسر نے مجھے ایک بچہ دیا اور مجھے لائف بوٹ میں سوار ہونے کو کہا۔ اس وقت، میں غیر سفید فام سیاحوں کو سمجھا رہی تھی کہ لائف جیکٹ کیسے پہننی ہے اور لائف بوٹ میں کیسے سوار ہونا ہے۔ میں اس بچے کے ساتھ لائف بوٹ میں سوار ہوئی جو مجھے سونپا گیا تھا۔‘

’جہاز پر ہر طرف افراتفری تھی۔ اس لیے بچے کی ماں کا پتہ نہیں چل سکا۔‘

وائلٹ نے لکھا کہ ’حادثے کے بعد ایک دوسرے جہاز نے لائف بوٹس میں سوار کچھ لوگوں کو بچایا اور ہمیں نیویارک لے آیا۔ وہاں ایک عورت نے میرے ہاتھ سے بچہ چھینا اور کچھ کہے بغیر روتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی۔‘

اگر ایسا واقعہ کسی اور کے ساتھ پیش آتا تو وہ جہاز کا سفر ہمیشہ کے لیے ملتوی کر دیتا، لیکن وائلٹ نے ایسا نہیں کیا۔ ٹائٹینک کے ڈوبنے سے ایک سال پہلے وائلٹ ایک اور جہاز کی تباہی کے دوران بھی اس پر موجود تھیں۔

اولمپک کا حادثہ

ٹائٹینک اکیلا جہاز نہیں تھا۔ اس جہاز کو چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کمپنی نے بیلفاسٹ شہر کے ہارلینڈ اور وولف شپ یارڈ کو 20ویں صدی کے اوائل میں تین جہاز بنانے کا حکم دیا تھا۔

اولمپک بھی اسی کمپنی کا جہاز تھا۔ ٹائٹینک کی تعمیر سے پہلے، یہ دنیا کا سب سے بڑا، سب سے پرتعیش مسافر بردار جہاز تھا۔

یہ جہاز 20 ستمبر 1911 کو برطانیہ کے جنوبی ہیمپٹن کے ساحل سے روانہ ہوا اور کچھ ہی دیر بعد برطانوی جنگی جہاز ایچ ایم ایس ہاک سے ٹکرا گیا۔ خوش قسمتی سے اس تباہی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم جہاز کو بڑا نقصان پہنچا اور ڈوبنے سے بچ گیا۔

جہاز کو واپس ساحل پر لایا گیا کیونکہ یہ ساحل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جہاز کو چند دنوں کی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کیا گیا۔

وائلٹ نے آٹھ ماہ تک اولمپک پر کام کیا اور پھر انھیں ٹائٹینک پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

ٹائٹینک کی تباہی کے بعد وائلٹ نے اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نرسنگ کی تربیت حاصل کی۔

برٹینیک جہاز ٹوٹ گیا

سنہ 1916میں ٹائٹینک کے ڈوبنے کے چار سال بعد، وائلٹ برطانوی ریڈ کراس کے لیے بطور نرس کام کر رہی تھی۔ اس وقت پہلی جنگ عظیم زوروں پر تھی۔ بہت سے مسافر بردار جہاز فوجیوں کی نقل و حمل اور فوجیوں کے علاج کے لیے موبائل ہسپتال کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

وائٹ سٹار کمپنی کے برٹینک جہاز کو موبائل ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔

جنگ کی وجہ سے سمندر کے پانی میں کئی سرنگیں بچھا دی گئیں۔ برٹینک ایسی ہی ایک سرنگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا۔

وائلٹ کے لیے یہ تجربہ اور بھی خوفناک تھا۔ اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے، وائلٹ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے کھائی میں پھینک دیا تھا۔ میں کچھ نہیں دیکھ سکتی تھا۔ میں کسی طرح پانی سے اوپر آئی اور سانس لینے کی کوشش کی۔ میری ناک اور منھ سے پانی بہہ رہا تھا۔‘

اس جہاز پر ایک ہزار سے زیادہ لوگ سوار تھے اور ان میں سے 32 کی موت ہو گئی۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد ایک اصول بنایا گیا تھا کہ ہر جہاز کے پاس کافی لائف بوٹس ہونی چاہئیں۔

برٹانک پر سوار دو لائف بوٹس کو وقت سے پہلے لانچ کر دیا گیا تھا۔ جہاز کو چلانے والے پانی کے اندر پنکھے (پروپیلرز) نہیں رکے۔ چنانچہ کشتی میں سوار افراد پروپیلر کی طرف کھیچتے چلے گئے اور ان سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔

برٹینک کی لائف بوٹ میں بھی تین افراد سوار تھے۔ اتفاق سے تینوں ٹائی ٹینک پر بھی تھے اور بچ گئے تھے۔ وائلٹ، آرچی جوول اور جان پرسٹ سب اس بار بھی بچ گئے۔

اپنی بہن کو لکھے ایک خط میں، آرچی جوول نے اس لمحے کے تجربے کو بیان کیا جب لائف بوٹ کو پروپیلر کھینچ رہے تھے۔

انھوں نے لکھا ’ہم میں سے بہت سے لوگوں نے پانی میں چھلانگ لگا دی لیکن یہ بے سود تھا، کیونکہ پروپیلر اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے پانی کی پوری لہروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے آنکھیں بند کیں اور دنیا کو الوداع کہا، لیکن مجھے جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے سے جھٹکا لگا۔ مجھے پانی میں پھینک دیا گیا۔ میں نے پانی سے باہر نکلنے کی جدوجہد کی، لیکن جہاز کے دوسرے حصے گر رہے تھے۔ اسے دھکیلنا ممکن نہیں تھا۔ اندھیرا ہو رہا تھا۔ اچانک اوپر سے کسی نے ملبہ کو ایک طرف دھکیل دیا اور مجھے پانی کے اوپر جانے کا موقع ملا لیکن نیچے سے کسی نے میری ٹانگ پکڑ لی۔ وہ آدمی بھی ڈوب رہا تھا۔ مجھے اپنی ٹانگ کو جھٹکا دینا پڑا اور وہ آدمی ڈوب گیا۔‘

برٹینک صرف 55 منٹ میں ڈوب گیا۔ اس خط کے متن کو پڑھ کر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان 55 منٹ میں کیا ہوا ہو گا۔

وائلٹ بھی لائف بوٹ میں تھیں اور ان کی جان کو بھی خطرہ تھا لیکن انھیں فوراً صورتحال کا اندازہ ہو گیا تھا اور انھوں نے لائف بوٹ سے چھلانگ لگا دی تھی جس کے باعث وہ جہاز کے پروپیلرز کے پروں میں نہیں پھنسے تھے بلکہ پانی کے تیز دھارے سے نیچے گرے تھے۔ وہ اس دوران سر میں لکڑی کی ایک بڑی شہتیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئی تھیں۔

قسمت نے ایک بار پھر ان کا ساتھ دیا۔ وائلٹ کو ایک اور لائف بوٹ نے پانی سے نکالا اور وہ زندہ بچ نکلیں۔ تینوں بار وائلٹ کو ایسا لگا جیسے ان کا آخری وقت آ چکا تھا، لیکن ان کی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔

سنہ 1920 میں انھوں نے دوبارہ وائٹ سٹار لائن کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ زندگی میں اتنے خطرناک واقعات کے باوجود انھوں نے سمندر کو کبھی نہیں چھوڑا۔ وہ 40 سال تک بحری جہاز پر خدمات انجام دینے کے بعد 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئیں اور 1971 میں 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔