اہم خبریں

ڈرامہ ’مائی ری‘ میں کم عمری کی شادی: ’ہمارے ہاں بچوں سے یہی تو کہا جاتا ہے کہ اب ہو گیا، تم سہہ لو‘

’کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر آپ آخری قسط میں یہ دکھائیں گے ان کی شادی ایک غلط فیصلہ تھا۔ یہ بہت ہی غلط ہے۔‘

یہ کہنا تھا ایک سوشل میڈیا صارف کا جنھوں نے ٹوئٹر پر نجی ٹیلی وژن اے آر وائے سے آن ائیر ہونے والے ڈرامے ’مائی ری‘ کی حالیہ صورتحال پر رنج کا اظہار کیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’مائی ری ڈرامہ کو شائقین کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ کیا اس میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ ایک 15 سال کی لڑکی خوشحال شادی شدہ زندگی گزار رہی ہے۔‘

اس ڈرامے کی حالیہ اقساط میں مرکزی کردار 13 سالہ لڑکی ’عینی‘ کے ہاں بچی کی پیدائش ہوتی ہے، جس پر سوشل میڈیا صارفین کی رائے خاصی منقسم ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈرامے کی کہانی اور اس کے معاشرے پر ممکنہ اثرات زیر بحث ہیں۔

ڈرامے میں ہے کیا؟

یہ ڈرامہ ’چائلڈ میرج‘ کے موضوع کا احاطہ کرتا ہے اور اس میں دکھائے جانے والے گھرانے میں کم عمری میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔

اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاندان کا سربراہ اپنی صحت خراب ہونے پر مرنے سے پہلے اپنے 15 سال کے بیٹے کی شادی اپنی 13 سالہ بھتیجی سے کر دیتا ہے۔ بچے اس شادی سے انکار اور احتجاج کرتے ہیں۔ دونوں کی مائیں بھی اس شادی اور اس کے ممکنہ برے نتائج پر ہنگامہ کرتی ہیں۔ لڑکی کی ماں احتجاجاً بچیوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر تک چلی جاتی ہے لیکن گھر کے بڑوں خصوصاً مردوں کے سخت رویّوں اور دھمکیوں کے باعث سب کو ہار ماننا پڑتی ہے۔

بچے بھی والد کو دوسری بار ہارٹ اٹیک ہونے پر شادی کے لیے مان جاتے ہیں۔ ابتدائی لڑائی جھگڑے کے بعد آخر کار دونوں مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کریں گے۔ دوست بنیں گے لیکن گھر والوں کے سامنے اچھے میاں بیوی بن کر رہیں گے۔

مرکزی کردار ’عینی‘ کو تعلیم کا بے حد شوق ہے، جس کے لیے اس کا شوہر ’فاخر‘ اسے سپورٹ کرتا ہے اور بڑوں کی مرضی کے خلاف اسے کالج میں داخل کرواتا ہے۔

یہاں تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا حتیٰ کے سوشل میڈیا صارفین ان دونوں کے ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے مناظر کو ٹک ٹاک اور ریلز میں شئیر کرنے لگے تھے۔ جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے اور وہ ایک آئیڈیل جوڑا ہے لیکن پھر اچانک ڈرامے نے شائقین کو شدید جھٹکا دیا جب حالیہ اقساط میں ’عینی‘ کو حاملہ دکھایا گیا۔

اگرچہ عینی اور فاخر کو شدید صدمے کا شکار بھی دکھایا گیا لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین کے لیے یہ سب غیر متوقع تھا۔

سوشل میڈیا پر منقسم رائے

کچھ لوگوں کے خیال میں ڈرامے میں یہ دکھایا جانا کہ بڑے انتہائی کم عمری کی شادی کو برا نہیں سمجھتے ایسا تاثر دے رہا ہے کہ کم عمری کی شادی ایک عام سی بات ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ اس عمر کے بچوں کو والدین بنتے دکھانے سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہو گی لیکن وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں شادی جیسے جائز رشتے دکھائے جانے میں کوئی قباحت نہیں۔

فاطمہ نامی صارف کا کہنا ہے ’اداکارہ خود ایک 15 یا 16 سال کی لڑکی ہے۔ اسے حاملہ دکھانا، اس کی کیا منطق ہے، کیا پیغام دے رہے ہیں آپ لوگوں کو۔‘

فرح خان نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ خود اس بارے میں الجھن میں ہیں کہ انھیں کیا پیش کرنا چاہیے۔ ڈرامہ کم عمری کی شادی کے بارے میں ہے اور وہ اس میں خاندانی ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں دکھا رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ 40 اقساط ہو چکی ہیں اور وہ الٹا اسے گلوریفائی کر رہے ہیں۔ ‘

تاہم ایمان فاطمہ نامی صارف اس کے برعکس سوچتی ہے کہ اس میں سب اچھا دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’خوش شادی شدہ؟ انھوں نے ابھی ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا شروع کیا ہے اور یقینی طور پر یہ ٹریک لوگوں کو بچپن کی شادی کے نقصانات کے بارے میں مزید آگاہ کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے سیریل کا پورا نکتہ کھو دیا۔‘

زویا نامی صارف بھی ان کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’وہ پہلے خوش نہیں تھے، انھوں نے صرف ایک دوسرے کی حمایت کرنا شروع کی اور حقیقت کو قبول کیا۔ اس کے علاوہ ڈرامے نے ہمیشہ کم عمری کی شادی کو منفی طور پر پیش کیا۔‘

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈرامہ کم عمری کی شادی سے ہونے والے نقصانات کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے اور یہ بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ایک مسئلہ ہے۔‘

وہیں کچھ ایسے صارفین بھی ہیں جن کی نظر میں کم عمری کی شادی اتنی بری بھی نہیں۔

ان ہی میں سے ایک آمنہ خان کا کہنا تھا ’میں کم عمری کی شادیوں کے حق میں نہیں لیکن زنا جتنا عام ہو چکا ہے، اپنے بچوں کی شادی 20 یا 21 سال کی عمر ہوتے ہی کر دینی چاہیے۔ حلال ہمیشہ حرام سے بہتر ہوتا ہے۔‘

کیا واقعی ڈرامہ چائلڈ میرج کو سپورٹ کر رہا ہے؟

ڈرامے کے ڈائریکٹر میسم نقوی کا کہنا تھا کہ ’ہم بار بار لوگوں کو بتا رہے کہ ہم چائلڈ میرج کو سپورٹ نہیں کر رہے۔ مجھے اپنے ڈرامے پر پوری طرح اعتماد ہے کیونکہ میں جانتا ہوں آگے کیا ہونا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ڈرامے کے حوالے سے تازہ ترین زیر بحث موضوع مرکزی کردار کمسن بچی کا ماں بننا ہے اور اس پر میسم نقوی کا کہنا تھا کہ ’یہی تو چائلڈ میرج کے اوّلین نتائج میں سے ایک ہے کہ کم عمری میں حمل ہو جاتا ہے، بچیوں کے ہارمونز بنتے نہیں، وہ ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوتی، جس سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ لوگوں کو تو خوش ہونا چاہیے کہ کم عمری کے بُرے اثرات اب دکھائے جا رہے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ڈرامہ دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ کہانی میں دکھائے جانے والے بڑوں کے لیے یہ شادی عام سے بات دکھائی گئی جو اس مسئلے کو معمولی بناتی ہے۔ اس پر ڈرامے کے ڈائکریکٹر مسیم نقوی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے جہاں بچوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ ابھی کہانی آگے چل کر بدلے گی۔ اس لیے یہ ابھی طے کر لینا بہت جلدی ہے کہ ڈرامہ چائلڈ میرج کو سپورٹ کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈرامے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ حقیقی زندگی سے متاثر ہو کر لکھا جاتا ہے۔ یہ اس خاندان کی کہانی ہے جو کم عمری کی شادی کے حامی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی والدیں کی عمریں بھی 30 سے 40 کے درمیان ہیں۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ بہت سے دوسرے ڈراموں کی طرح اس ڈرامے میں بھی مقبولیت کی خاطر متنازع موضوع کا استعمال کیا گیا۔

اس سوال کے جواب میں میسم نقوی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ہرگز ویوور شپ کے لیے ڈرامہ نہیں بنایا۔ ہم نے ایسے معاشرے کے لیے اسے بنایا جہاں چائلڈ میرج کبھی مسئلہ رہا ہی نہیں۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں ہر پانچویں لڑکی چائلڈ میرج کا شکار ہوتی ہے۔ یہاں اسے سرے سے مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں جب چائلڈ میرج ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ہم نے کیا، تمہیں کیا مسئلہ ہے اور بچوں سے کہا جاتا ہے کہ اب تو ہو گیا تم گزارا کرو، سہہ لو ، برداشت کرو۔ اگر ڈرامہ اس نوٹ پر ختم ہوتا ہے کہ اسے نارملائز کر لو تو یہ الزام جائز ہو گا۔ ‘

انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ایک تسلسل کو توڑ رہے ہیں۔ جس طرح اس کہانی کی مرکزی کردار عینی اور فاخر ایک دوسرے کو سپورٹ کر کے رویوں کے رائج انداز کو بدل رہے ہیں۔ اب تو ڈرامہ اپنے دوسرے مرحلے میں ہے۔ ابھی کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کہانی میں بچے ایک دوسرے کو مشکل حالات میں سپورٹ کر رہے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کی شادی یا زندگی نارمل ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک ویڈیوز میں جو ان دونوں کے دوستی کے مناظر اور رومانس بنا کر دکھایا جانے لگا تو انھیں خود عجیب لگا کے یہ غلط ہے۔

ان کے بقول سوشل میڈیا صارفین کبھی کبھی بہت عجیب رد عمل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’حتیٰ کہ لوگ مجھ سے دونوں بچوں کے رومانوی مناظر زیادہ سے زیادہ دکھانے کی فرمائش کرنے لگے لیکن یہ اصل کہانی نہیں تھی۔ میں نے تو کوشش کی کہ بچی کو حاملہ بھی نہ دکھاؤں کیونکہ وہ فنکارہ کم عمر ہے اس لیے حسّاسیت کا خیال رکھا گیا۔‘

’سکرین پر جو چیز دکھاتے ہیں لوگوں کے ذہنوں پر اس کا اثر ہوتا ہے‘

پاکستان کے میڈیا اور ڈرامہ انڈسٹری کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے ادارے عکس کی ڈائریکٹر تسنیم احمر کہتی ہیں کہ کوئی بھی ڈرامہ یا دستاویزی فلم ہو، وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی زندگی سے مشہابت رکھتی ہے۔

’سارے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن سے لوگ گزر چکے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے ریپ ہو یا چائلڈ میریج کہیں نہ کہیں لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ہماری کہانی ہے۔

’جو بنیادی گائیڈ لائنز ہیں کہ آپ کوئی بھی چیز پیش کرتے ہیں تو اس میں ایک ڈس کلیمر آتا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں یہ فکشن ہے، اس کے علاوہ ایک وارننگ ضروری ہوتی ہے کچھ ایسی چیزیں ہم دکھا رہے ہیں جو کچھ لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں تاکہ جو لوگ ایسے واقعات سے گزر چکے ہوں وہ نہ دیکھیں۔

’اس کے علاوہ بچوں کے لیے والدین کی رہنمائی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس کی بالکل ہی پیروی نہیں کی جاتی صرف ڈس کلیمر لگایا جاتا ہے۔‘

تسنیم احمر کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو پڑھے لکھے نہیں، اتنے سمجھدار بھی نہیں۔ ٹی وی سکرین پر جو چیز دکھاتے ہیں، لوگوں کے ذہنوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور ایسے لوگ جلد اس کو قبول کر لیتے ہیں۔‘

تسنیم احمر نے سوال کیا کہ ’مائی ری دیکھنے والوں کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ اب تو بات حمل تک بات پہنچ گئی ہے لیکن یہ کہاں بتایا گیا ہے کہ یہ غلط ہے اور ایسا کرنے سے بچیوں کی زندگی خراب ہوجاتی ہے۔ ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے، چھوٹی عمر کی زچگی کتنا بڑا نقصان ہوتی ہے۔ نہ لکھنے والے، نہ ڈائریکٹر اور نہ ہی ایکٹر اس کا خیال کرتے ہیں، اخلاقی طور پر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس میں سے جو میسیج نکل رہا ہے وہ کیا ہے اور اس کو کس طرح پیش کیا جارہا ہے۔‘

’فیتھ اینڈ فیمینزم‘ کی مصنفہ اور ریسرچر عافیہ شیر بانو ضیا کہتی ہیں کہ ’فلم انڈسٹری تو ایک کمرشل کام ہے۔ منافع کے لیے جو تھیم مقبول ہوتی ہیں، ان کے مطابق چلتی ہے۔ ان کا مقصد شاید جو سماجی اشوز ہیں ان کوسامنے لانا نہیں۔‘

’ڈرامے دو کام کر رہے ہوتے ہیں جو ورکنگ وومین ہیں، اس کو برا بنا دیتے ہیں، جو سنگل عورت ہوتی ہے اور شادی نہیں کرتی وہ بری ہوتی ہے۔ لہٰذا گنجائش نکالیں کہ یہ دکھائیں کہ کم عمری میں شادی کے یہ مسائل ہیں، آپ کی خواہشات جنسی تعلقات اور شادی کے علاوہ بھی ہو سکتی ہیں، آپ سائنس دان اور پروفیشنل بھی بن سکتے ہیں۔‘