چین کی پاکستان اور ایران سے سکیورٹی معاملات میں بڑھتی قربت پر انڈیا کو کیا تشویش لاحق ہے؟

پاکستان، چین اور ایران تجارت کے تحفظ اور علاقائی سلامتی کو فروغ دینے کے لیے سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کو بڑھا رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اس بڑھتے تعاون کی وجہ وسطی ایشیا میں چین کا بڑھتا ہوا کردار اور پاکستان میں اقتصادی منصوبوں کا تحفظ ہے۔

جون کے اوائل میں بیجنگ میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے، جس کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کیے، جس میں ایک نئے علاقائی اتحاد کی تشکیل کا عندیہ دیا گیا۔

اس معاملے میں اب تک کیا ہوا ہے؟

جون کے اوائل میں، چین، ایران اور پاکستان نے پہلی بار انسداد دہشت گردی کے معاملے پر مشترکہ مذاکرات کیے۔

ایک بیان میں، پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’تینوں ممالک کے نمائندوں نے علاقائی سلامتی کی صورتحال بالخصوص خطے میں دہشت گردی کے خطرے پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔‘

تینوں ممالک نے انسداد دہشت گردی اور سلامتی پر سہ فریقی مذاکرات کو باقاعدہ طور پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جون کے اواخر میں ایران اور پاکستان نے تہران میں سمندری تعاون کے ایک مفاہمت نامے پر دستخط بھی کیے تھے۔

پاکستان کے سیکریٹری دفاع حمود الزماں خان اور ایران کی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران سکیورٹی اور مشترکہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا ہے۔

ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی الانا کی 14 جون کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور پاکستان کے حکام نے ’تکفیری دہشت گرد گروپوں‘ کے سدباب کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ واضح رہے کہ ایران سنی انتہا پسندوں کے لیے ’تکفیری‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان کی سرحد پاکستان اور افغانستان سے منسلک ہے۔ یہ ایران کا وہ علاقہ ہے جہاں اسے سنی باغی گروہوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔

یہ مذاکرات کیوں اہم ہیں؟

ایران ’تکفیری‘ گروہوں کے حملوں سے پریشان ہے اور پاکستان کے ساتھ بات چیت اور تعاون کے ذریعے اس خطرے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جیسے علیحدگی پسند گروپوں کے حملوں میں بھی حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس علاقے میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

جبکہ علیحدگی پسند گروہ بی ایل ایف بلوچستان میں چین کی سرمایہ کاری کی مخالفت کرتا رہا ہے اور ماضی میں چینی شہریوں اور اس سے متعلقہ منصوبوں پر بھی حملے کرتا رہا ہے۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر میں پاکستان فیلو باقر سجاد نے انڈیا کی وائن نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ’چین، پاکستان اور ایران کے درمیان سہ فریقی سکیورٹی ڈائیلاگ میکانزم کی ترقی کا مطلب ہے کہ وہ بلوچستان میں سکیورٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔‘

اسلام آباد نے اس سے قبل تہران پر کالعدم بلوچ باغی گروپوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

چین کی نارتھ ویسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر یان وی نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ ’طالبان (افغانستان میں) اقتدار میں آ چکے ہیں، جس سے ایران سمیت وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں شدت پسندی کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘

چین سی پیک سمیت بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرجوش منصوبے کے تحت اپنے منصوبوں کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ بیجنگ تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں سرگرم ہے اور اسی لیے وہ اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔

اس کے علاوہ چین، ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ امن معاہدے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مزید آگے لے جانا چاہتا ہے۔

کیا اس اتحاد سے انڈیا کی مشکلات بڑھیں گی؟

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے 25 جون کو لکھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بی ایل ایف جیسے مسلح گروپوں کا حوصلہ بڑھا ہے۔

سنگاپور کے بین الاقوامی امور کے ماہر رافیلو پنٹوچی نے بتایا کہ ’چین کے ذہن میں یہ بات بھی ہے کہ اگر پاکستان اور ایران بعض معاملات پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ ان خطرات پر توجہ مرکوز کر سکیں گے جو چین سے متعلق ہیں۔‘

گذشتہ ماہ 22 جون کو ایران کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان پہنچا تھا، جس کے بارے میں پاکستان کے اخبار ڈان نے لکھا تھا کہ ’اس ملاقات میں دونوں برادر ممالک کے حکام نے عملی طور پر دو طرفہ تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔‘

انڈیا میں چند میڈیا آوٹ لیٹس میں یہ قیاس بھی کیا گیا کہ بیجنگ کی حمایت سے تہران اور اسلام آباد کے بڑھتے ہوئے تعلقات انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔

ہندی روزنامہ ’امر اُجالا‘ نے ماسکو کے جیو پولیٹیکل ماہر آندرے کوریبکو کے حوالے سے کہا کہ ’چین اور ایران اپنے درمیان ایک تجارتی راہداری تیار کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں اور یہ راستہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزر سکتا ہے، جس پر انڈیا اپنا دعویٰ کرتا ہے۔‘

چینی میڈیا ملک کے مفادات اور خطے میں اس کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کے بارے میں پرجوش ہے۔

22 جون کو فوجی اخبار نیشنل ڈیفنس جرنل میں شائع ہونے والے ایک بلاگ میں کیہاؤ گوئنچا شی نے لکھا کہ ’چین کی انسداد دہشت گردی مذاکرات میں فعال شرکت اس کے ردعمل اور قائدانہ صلاحیتوں کو ظاہر کرے گی اور چین کو خطے میں اپنی غالب پوزیشن کو برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔‘

سرکاری ٹیبلائیڈ گلوبل ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ماہر ژو یونگ بیاؤ نے زور دیا کہ ’دہشت گردی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ضروری ہے۔‘

مستقبل میں کیا متوقع ہے؟

چین کی وزارت خارجہ نے انسداد دہشت گردی کے مذاکرات کو تینوں ممالک کی جانب سے گلوبل سیکورٹی انیشیٹو (جی ایس آئی) کی جانب اٹھایا گیا ایک کامیاب قدم قرار دیا ہے۔

جی ایس آئی کی تجویز شی جن پنگ نے 2022 میں دی تھی۔

چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے 10 جون کو لکھا کہ مذاکرات جی ایس آئی کے تحت ’سکیورٹی کے لیے ایک نئے نقطہ نظر‘ کی عکاسی کرتی ہے۔

جی ایس آئی کا مقصد علاقائی سلامتی کے معاملات میں چین کو قیادت فراہم کرنا ہے اور اسے اس خطے میں امریکی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر جین لوپ سائمن نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ ’یہ مذاکرات یہ جاننے کی طرف پہلا قدم ہیں کہ آیا ہر فریق سہ فریقی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔‘

توقع ہے کہ اس تعاون سے علاقے میں سرگرم شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پاکستانی صحافی انس ملک نے ٹویٹ کیا کہ ’ان مذاکرات کے چند ہی دنوں بعد بی ایل ایف کمانڈر کو ایران میں مار دیا گیا، اگر یہ سچ ہے، تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان لوگوں کے لیے کیا ہو سکتا ہے جو سی پیک یا چینی شہریوں کے لیے بظاہر خطرہ ہیں۔‘