’الیکسا، مدد کے لیے کال کرو!‘ چھ سالہ ڈارسی کو نے ایما نے مدد کے لیے خاندان کے قریبی افراد کو خبردار کرنے کے لیے کال کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
سکاٹ لینڈ کی ایک ماں جس کے دل کا ٹرانسپلانٹ آپریشن ہوا تھا، اُس نے بتایا کہ کس طرح اس کی چھ سالہ بیٹی نے ’الیکسا‘ گوگل کے سمارٹ سپیکر کے ذریعے دو بار اُس کی جان بچائی۔
ایما اینڈرسن، گلاسگو کے علاقے روبروسٹن کی ایک رہائشی ہیں۔
جب وہ 15 سال کی تھیں تب انھیں ہائپر ٹرافک کارڈیو مایوپیتھی کی تشخیص ہوئی تھی (دل کی ایسی بیماری جس کی وجہ سے دل کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں اور دل کے لیے مؤثر طور پر خون کو پمپ کرنا مشکل ہو جاتا ہے)۔
چھوٹی عمر سے ہی ان کی بیٹی ڈارسی جانتی تھی کہ اس کی ماں کے ’دل میں تکلیف‘ ہے اور وہ الیکسا پر مدد کے لیے کال کر سکتی ہے۔
جب اس کی 27 سالہ ماں بیمار تھی تو ڈارسی دو مرتبہ خطرے کے انتباہ کے لیے الیکسا کا استعمال کر چکی تھی۔
ایما اینڈرسن نے کہا کہ ’میں نے الیکسا کو اس طرح سیٹ اپ کیا تھا کہ اگر میں بے ہوش ہو جاؤں یا طبیعت خراب ہو جائے، تو اسے صرف اتنا کہنا تھا، ‘الیکسا، مدد کے لیے کال کرو’، اور یہ آلہ میری ماں کو فون کرے گا جو قریب ہی رہتی ہیں۔‘
’اور اسے (یعنی ڈارسی کو) ایک دو بار الیکسا کو فون کرنا پڑا، اس نے خود ہی ایمبولینس بھی بلائی اور اس وقت میں بہت بری حالت میں تھی۔
’مجھے اس پر بہت فخر ہے، وہ ایک چھوٹی سپر سٹار ہے۔‘
اینڈرسن نے بی بی سی ریڈیو سکاٹ لینڈ کے گڈ مارننگ سکاٹ لینڈ پروگرام میں اپنی صحت کے بارے میں تفصیلات بتائیں تھیں۔
اپنی بیماری کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے گرد موجود پٹھے بہت موٹے ہونے لگتے ہیں۔ اس بیماری کے دوران دل ایک نرم انداز میں دھڑکنے کے بجائے یہ اس طرح دھڑکتا تھا جیسے کہ دھڑکن اینٹوں کی دیوار سے ٹکرا رہی ہے، لہذا ہر دھڑکن سے میرا دل کمزور ہو رہا تھا۔‘
اینڈرسن نے اپنی زندگی کو دوائیوں کے ذریعے سنبھالا ہوا تھا، معمول کے چیک اپ میں اسے بتایا گیا کہ اسے زندگی بچانے والے دل ٹرانسپلانٹ کرنے والے آپریشن کی فوری ضرورت ہے۔
اس نے بتایا کہ ’ایک مرتبہ میں اپنے معمول کے چیک اپ کے لیے ہسپتال آئی ہوئی تھی تو مجھے بتایا گیا کہ میرا دل بہت زیادہ خراب حالت تک پہنچ چکا ہے اور میں گھر پر بیٹھ کر اپنے آپریشن کی باری کا انتظار نہیں کر سکتی۔‘
اس نے کہا کہ ’مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور مجھے ترجیحی بنیادوں پر آپریشن کی ہنگامی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ ہسپتال میں میرے پاس زیادہ وقت نہیں بچا تھا۔‘
’میرے ہسپتال میں جانے کے بعد میرا دل مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا۔‘
’میرے دل کو مصنوعی طریقے سے چلایا جانے لگا تھا جس کی وجہ سے میرا دل دھڑکتا رہا۔ اور سلسلہ اُس وقت تک برقرار رکھا جانا تھا جب تک کہ میرا آپریشن نہ ہو جائے۔ ‘
’اور پھر ہسپتال میں داخلے کے تقریباً 10 دن بعد ہمیں ایک کال آئی کہ ایک ڈونر دل دستیاب ہے۔‘
اپریل، 2022 میں کلائیڈ بینک ہسپتال میں ایما کے سینے میں ایک نیا دل ٹرانسپلانٹ کردیا گیا۔
جب اُس کے دل کی بیماری کی پہلی بار تشخیص ہوئی تھی تو اس کے سینے کے اندر ایک اندرونی ڈیفبریلیٹر لگایا گیا تھا جو پچھلے سال تین بار ’خراب‘ ہوا تھا۔
اس نے کہا کہ دل کے ٹرانسپلانٹ کی وجہ سے اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی وہ یہ کہ وہ اپنے ساتھی دوست کے ساتھ شادی کر پائی۔
ایما اینڈرسن نے کہا کہ ’دل کے ٹرانسپلانٹ کے بعد اب مجھے بالکل نئی زندگی ملی ہے۔ میں واقعتاً سکول چل کر جا سکتی ہوں اور اپنی بیٹی ڈارسی کو گھر واپس لا سکتی ہوں، جو میں پہلے کبھی نہیں کر سکتی تھی۔‘
’ایسٹر کے دوران میں ڈارسی کو سوئمنگ اور پلے پارک، فارم پارک میں بھی لے کر گئی، یہ عام سی باتیں ہیں لیکن میں پہلے نہیں کر سکتی تھی، اب میں کر سکتی ہوں۔ اب میں وہ سب کچھ کر سکتی ہوں جو ایک ماں کرنا چاہتی ہے۔‘
برٹش جرنل آف کارڈیالوجی کے مطابق تقریباً 28,000 سکاٹ لینڈ کے باشندوں کو دل کی بیماریاں وراثت میں ملتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ عام ہائپر ٹرافک کارڈیو مایوپیتھی ہے۔
اینڈرسن نے کہا کہ وہ اپنے عطیہ دہندگان اور ان کے خاندان کی ہمیشہ شکر گزار رہیں گی۔
’ٹرانسپلانٹ کروانا ایک بہت مشکل راستہ ہے، یہ آسان نہیں ہے۔ میں اپنے آپریشن کے بعد طویل عرصے تک لائف سپورٹ اور ہر طرح کے دوسرے سسٹم پر زندہ تھی اور میرے پٹھے اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ میں روایتی طریقے سے مزید زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔‘
’صرف ایک چیز جس کی مجھے پرواہ تھی وہ یہ کہ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گی تو میں چل پھر سکوں گی اور اپنے گھر کے قریب ہی گلی میں شادی کروں گی۔‘
’مجھے شادی سے صرف ایک ہفتہ پہلے ڈسچارج کر دیا گیا تھا، جب میں گلی میں چل رہی تھی تو تب بھی مجھے ٹانکے لگے ہوئے تھے۔‘
ہسپتال میں صحت یاب ہونے کے دوران، ایما اینڈرسن نے سکاٹ لینڈ کے معروف گلوکار ٹام واکر کے گانے، ’دی بیسٹ اِز یٹ ٹو کم‘ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے دل کے علاج کے سفر کے مختلف مراحل کی تصاویر کے ساتھ ایک ’ٹِک ٹاک‘ ویڈیو بنائی ہے۔
گلوکار ٹام واکر اس ویڈیو سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے ایما کو لندن آنے کی دعوت دی۔
ایما نے کہا کہ ’ٹام نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے لندن جانے اور آگاہی بڑھانے کے لیے اس کی میوزک ویڈیو کا حصہ بننے کو کہا۔‘
’لہذا میں وہاں گئی اور دوسرے لوگوں سے ملی جنھیں نے اپنی زندگی میں مشکل مراحل دیکھے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگیوں میں بہت کچھ تھا۔ اور ٹام کو اس کی متاثر کن موسیقی کے ذریعے پہچاننا بہت اچھا لگا۔
’جیسا کہ گانے کے بول کہتے ہیں، دی بیسٹ اِز یٹ ٹو کم (ابھی زندگی میں بہت اچھا وقت آنے والا ہے)، میں یقینی طور پر سوچتی ہوں کہ مجھے دل عطیہ دینے والوں کی بدولت میرے زندگی میں ابھی مزید بہتروقت آنے والا ہے۔‘
’یہ ایک خوفناک صورتحال ہے لیکن میں ہمیشہ کے لیے ان کی شکر گزار رہوں گی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو میں بیان کر سکوں کہ اس ڈونر فیملی نے میرے اور میرے خاندان اور میرے بچے کے لیے کیا کیا ہے۔‘
برطانیہ کے صحت کے قومی ادارے این ایچ ایس کی گولڈن جوبلی کے چیف ایگزیکٹیو، گورڈن جیمز نے کہا کہ ’جب ہم این ایچ ایس کے 75 سال منا رہے ہیں، ایما کی متاثر کن کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ مریضوں کے لیے زندگی بچانے کے لیے این ایچ ایس کی دیکھ بھال کی کتنی اہمیت ہے۔‘