مغربی انڈیا میں پنکی کے گھر کی چھت سورج کی روشنی سے چمک رہی تھی۔ یہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 47 عشاریہ آٹھ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ان کے گھر کی چھت پر سفید سولر ریفلیکٹیو پینٹ اس شدید گرمی کی حدت کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا تھا۔
پنکی اور ان کا خاندان، جو انڈیا کے ایک بڑے بھیل قبیلے سے تعلق رکھتا ہے، جودھ پور کی کچی آبادی بڑی بھیل بستی میں رہتے ہیں۔ یہ راجھستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ان کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔
مارچ میں پنکی اور اس بستی کی دیگر خواتین نے اپنی چھتوں پر سفید سولر ریفلیکٹیو پینٹ کیا۔ ان کو اس کے بارے میں مقامی کمیونٹی اجلاس میں پتہ چلا جس کا انعقاد مہیلا ہاوسنگ ٹرسٹ کرتا ہے۔ یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو انڈیا کے شہروں میں غریب خواتین کو گرمی سے نمٹنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
19 سالہ پنکی نے بتایا کہ ’ہم نے چھت پر خود پینٹ لگایا۔‘ وہ ہائی سکول میں پڑھانے کے ساتھ مقامی بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں۔
پینٹ لگانے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ ان کا گھر پہلے کی نسبت کم گرم ہوتا ہے۔ اب وہ اور ان سے پڑھنے والے طالب علم دوپہر میں پڑھائی پر توجہ دے سکتے ہیں۔
بڑی بھیل بستی صحرائے تھر میں واقع ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو ایسے مواد سے تیار ہوئے ہیں جو حدت کھینچتے ہیں جیسا کہ اینٹیں، سیمنٹ، کنکریٹ اور تارپولین۔
سینٹرل ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق جودھ پور میں سالانہ اوسط درجہ حرارت 21ویں صدی کے اختتام تک دو عشاریہ نو ڈگری تک بڑھ جائے گا۔
انڈیا میں ایسی کچی آبادیوں میں رہنے والی کئی خواتین شدید گرمی سے متاثر ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال برطانیہ کے محکمہ موسمیات کی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے شمال مغربی انڈیا میں شدید گرمی کی لہر کے امکانات 100 فیصد بڑھ چکے ہیں۔
2022 میں انڈیا میں 122 سال میں سب سے زیادہ گرم مارچ کا مہینہ گزرا۔ ممبئی میں ایک تقریب میں گرمی کی وجہ سے 12 افراد ہلاک ہو گئے۔
دوسری جانب سائنس دانوں کے 10 ممالک کے ایک تجزیے کے مطابق اپریل کے ماہ میں انڈیا میں گرمی کی لہر کے امکانات ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 30 گنا بڑھے۔ 2021 کی تحقیق میں پتہ چلا کہ 1971 سے 2019 کے درمیان انڈیا میں 17 ہزار لوگ گرمی کی لہر سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایسی شدید گرمی خواتین کی صحت اور صلاحیت دونوں پر ہی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ کام کرنے کے اوقات اور کمائی، دونوں ہی کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن چھتوں پر سفید سولر پینٹ کا منصوبہ اب ایک سادہ حل فراہم کر رہا ہے جو گرمی کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے۔
اس منصوبے کی وجہ سے کچی آبادی کے رہائشی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا کہنا ہے کہ اب گرمی میں بھی وہ گھر کے اندر آرام سے وقت بتا سکتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی بہتر رہی اور گھر میں کام اور پڑھائی کرنا آسان ہو گیا ہے۔
مہیلا ہاوسنگ ٹرسٹ نے 2009 میں احمد آباد میں اس قسم کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ جب ان کو کچی بستیوں کے رہائشیوں کے بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کا پتہ چلا تو انھوں نے گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مختلف حل سوچے جن میں سفید پینٹ کے علاوہ ہری چھتیں، ایئر لائٹ نامی پلاسٹک شیٹ اور موڈ روف نامی منصوبہ شامل تھے جس میں کارڈ بورڈ اور زرعی مواد سے چھت تیار کی جاتی ہے۔
اگرچہ یہ تمام منصوبے کی گرمی کم کرنے میں مددگار تھے لیکن سفید پینٹ کم قیمت کی وجہ سے سب سے بہتر حل تھا۔
بھاونا ماہیریا مہیلا ہاوسنگ ٹرسٹ کی پروگرام مینیجر ہیں۔
ان کے مطابق 2017 میں ان کا کام مقامی حکام کی نظر میں بھی آنا شروع ہوا جس کے بعد احمد آباد میں ایک ہیٹ ایکشن پلان بھی مرتب کیا گیا جس میں چھتوں پر سفید پینٹ کی باقاعدہ تجویز شامل کی گئی۔
بڑی بھیل بستی میں پہلے پنکی اور دیگر خواتین گھر میں پردے پانی سے تر رکھ کر گرمی کو کم کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک گیلے کپڑے کو پنکھے سے لپیٹ دیتیں تاکہ کچھ ٹھنڈی ہوا آ سکے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود پنکی بیمار محسوس کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے قے آتی تھی۔ اندر بہت گرمی ہوتی تھی۔ بچوں کی ناک سے خون تک نکل آتا تھا۔‘
ایسے میں وہ لیموں پانی پی لیتی تھیں اور دوایاں استعمال کرتی تھیں۔
اپریل میں جودھ پور ہیٹ ایکشن پلان کا آغاز ہوا جس کے تحت سیٹلائیٹ، مقامی سروے کی مدد سے ایسے مقامات کا احاطہ کیا گیا جو گرمی کی شدت کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں بڑی بھیل بستی بھی شامل تھی۔ اس کی وجہ گنجان آبادی کے علاوہ سڑک، سبزے اور پانی جیسی سہولیات کی کمی ہے۔
پنکی اور دیگر خواتین کا کہنا ہے کہ گرمی کی وجہ سے ان کو کمزوری کا احساس رہتا تھا۔ شدید گرمی میں حاملہ خواتین کو بھی مسائل کا سامنا تھا۔
ایشیئن ڈویلیپمنٹ بینک کے دھرماستھا چوہان کا کہنا ہے کہ کچی آبادیوں میں رہنے والی خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
احمد آباد میں مئی 2010 میں گرمی کی لہر سے ایک ہی ہفتے میں 1344 افراد ہلاک ہوئے تھے جب درجہ حرارت 46 عشاریہ آٹھ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 53 فیصد خواتین تھیں۔
2021 میں ہوم نیٹ ساوتھ ایشیا تنظیم نے انڈیا، نیپال اور بنگلہ دیش میں 200 خواتین کا سروے کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے وہ کیسے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس تحقیق، جس کی سربراہی چوہان نےکی، میں پتہ چلا کہ 43 فیصد خواتین کے مطابق ان کی آمدن کم ہوئی، 41 فیصد نے کہا کہ کام کرنے کی صلاحیت کم ہوئی جس کی وجہ زیادہ درجہ حرارت بتایا گیا۔
چوہان کا کہنا ہے کہ خواتین دوپہر میں کام کرتی ہیں جو دن کا سب سے گرم حصہ ہوتا ہے۔
45 سالہ پرکاش کنور پنکی کے گھر کے قریب ہی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گرم مہینوں میں میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ بلڈ پریشر کم رہتا ہے اور پیشاب میں جلن رہتی ہے۔‘
چند کلومیٹر دور ایک اور کچی بستی میں 36 سالہ رقاصہ سنجنا اپنے خاندان کے ساتھ ایک ہی کمرے والے مکان میں رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ گرمی کی وجہ سے ان کی موہواری کا دورانیہ طویل ہو جاتا ہے۔ ’میں اکثر اونگھتی رہتی ہوں، مجھ سے اٹھا نہیں جاتا اور میں کام پر نہیں جا پاتی۔‘
یہاں سے 450 کلومیٹر دور احمد آباد میں ارونا ناگن پتنی اپنے دو کمرے کے مکان میں بیٹھی یاد کرتی ہیں کہ 2014 میں گرمی کی وجہ سے ان کا حمل کیسے متاثر ہوا تھا۔ 29 سالہ ارونا، جو سبزی کا ٹھیلہ لگاتی ہیں، نے کہا کہ ’میں ڈاکٹر کے پاس گئی، دوائی لی اور گلوکوز کی ڈرپ لگوائی۔‘
کنور، سنجنا اور پتنی سبھی نے اب اپنی چھتوں پر ایم ایچ ٹی کی جانب سے فراہم کردہ سفید ریفلیکٹیو پینٹ کیا ہے۔ غیر منافع بخش ادارہ 28 سالوں سے انڈیا کی کچی آبادیوں میں کام کر رہا ہے اور اس نے نو ریاستوں میں تیس ہزار چھتیں پینٹ کرنے میں مدد کی ہے۔
پینٹ کی فراہمی کے علاوہ ایم ایچ ٹی کچی آبادیوں میں خواتین کے لیے تربیتی سیشنز کا اہتمام کرتا ہے جہاں انھیں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سکھایا جاتا ہے اور گرمی کے دباؤ سے بچنے کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔
جودھ پور میں ایم ایچ ٹی رنگین کوڈڈ ہیٹ الرٹس کے ذریعے گرم موسم کے بارے میں کمیونٹیز کو مطلع کرتا ہے جو سڑکوں پر بینرز آویزاں ہوتے ہیں اور خواتین کے فون پر پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔
بیجل برہم بھٹ، ایم ایچ ٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ہم غریب خواتین کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں موسمیاتی تبدیلی کی سائنس سکھاتے ہیں۔
یہ سارا عمل گھریلو سطح سے شروع ہوتا ہے، پھر بستیوں سے شہر تک آتا ہے۔ خواتین سٹی ہیٹ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے ایک پریشر گروپ بناتی ہیں اور اسی طرحاس حوالے سے کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔
ریفلیکٹیو پینٹ ملنے سے پہلے پنکی نے ایم ایچ ٹی کے دو روزہ تربیتی سیشن میں شرکت کی۔ وہ کہتی ہیں ’میں نے سیکھا کہ اگر میں چھت کو پینٹ کرواتی ہوں تو درجہ حرارت 2-4 سنٹی گریڈ تک کم ہو جائے گا۔ اندرونی حصہ ٹھنڈا ہو جائے گا، پنکھا ٹھنڈی ہوا اڑا دے گا اور جب ہم چھت پر قدم رکھیں گے تو ہمارے پاؤں نہیں جلیں گے۔‘
شروع میں انھیں اس بارے میں شکوک و شہبا تھے اور وہ لاگت کے بارے میں فکر مند تھی۔ مگر جب ایم ایچ ٹی نے ان کے علاقے میں 116 چھتوں کے لیے مفت پینٹ فراہم کیا تو ان کے حالات بدل گئے۔
ایک فیلڈ آرگنائزر تمام گھروں میں اندرونی درجہ حرارت کی پیمائش کے لیے ایک ڈیجیٹل ڈیوائس لایا۔ پنکی نے پینٹ لگانے سے پہلے مسلسل پانچ دن تک ریڈنگ دیکھی۔ ’پینٹ کے بعد میں نے خود درجہ حرارت چیک کیا۔ یہ دو سنٹی گریڈ کم تھا۔‘
انڈیا میں بہت سے خاندان چھت پر سوتے ہیں کیونکہ گھر کے اندر گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پنکی کو اب چھت پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی اسے گھر والوں کے سونے جانے سے پہلے رات کے وقت چھت پر پانی لگانا پڑتا ہے۔ یہ کچی آبادی میں ایک عام رواج ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پہلے چھوٹے بچے (جنھیں میں پڑھاتی ہوں) مسلسل گرمی کی شکایت کرتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے والدین بچوں کو بھیجتے بھی نہیں تھے۔ اب بچوں کی ناک سے خون نہیں آتا اور اب مزید بچے ٹیوشن کے لیے اس کے گھر آتے ہیں، یعنی وہ زیادہ کماتی ہیں۔
ایم ایچ ٹی کے علاوہ سائنسدان بھی ٹھنڈی چھتوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ گاندھی نگر کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ سے برہم بھٹ اور پریا دتہ کی مشترکہ تصنیف 2020 کی ایک تحقیق میں ریفلیکٹیو پینٹ والی چھتوں کا موازنہ ان چھتوں کے ساتھ کیا گیا ہے جو ان کے بغیر ہیں ۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ریفلیکٹیو پینٹ کے ساتھ لیپ کی گئی چھتوں کا درجہ حرارت غیر لیپ شدہ ٹن کی چھتوں سے ایک سینٹی گریڈ کم تھا۔
تحقیق نے چار قسم کی ٹھنڈی چھتوں کا عام چھتوں سے موازنہ بھی کیا۔ انھی معلوم ہوا کہ دن کے گرم ترین وقت میں، ماڈ روف ایسبیسٹس شیٹ کی چھت سے تقریباً 4.5 سینٹی گریڈ ٹھنڈا ہے ۔ کنکریٹ اور ٹن والی چھتوں میں درجہ حرارت میں کوئی واضح فرق نہیں تھا۔
تاہم دتہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے فنڈز کی کمی کی وجہ سے محض 16 گھرانوں کے بہت چھوٹے نمونے پر تحقیق کی۔ اس تحقیق کی دیگر حدود بھی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس میں انڈور بایوماس پر مبنی کھانا پکانے اور وینٹیلیشن کی کمی جیسے عوامل کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، جو گھروں کو مزید گرم کرتے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی دہلی کی کچی آبادی میں درجہ حرارت پر ایم ایچ ٹی کی ٹھنڈی چھتوں کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے ۔ اننت سدرشن، جو اس ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں اور انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ، شکاگو یونیورسٹی کے سینئر فیلو ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سفید پینٹ کے بعد درجہ حرارت میں صرف ایک سینٹی گریڈ کی کمی واقع ہوئی ہے، لیکن رہائشیوں کو بتایا گیا ہے کہ ٹھنڈک کے لیے زیادہ پانی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس وجہ سے بچت ہوتی جاتی ہے۔ تاہم اس سے ان کی بجلی کی کھپت پر بہت کم فرق پڑا۔
آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو اور تھرمو فزیالوجسٹ آرون باخ نے حال ہی میں بنگلہ دیش میں ایک گارمنٹ فیکٹری کو غیر فعال کولنگ کے ساتھ تبدیل کرنے پر ایک مقالہ شائع کیا ۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ چار قسم کی ٹھنڈی چھتیں، بشمول سفید چھتیں ہر ایک گھر کے اندر ہوا کے درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک کم کرتی ہیں۔
انڈیا کے دیہی علاقوں اور یونان کے سکولوں میں سفید ٹھنڈی چھتوں کے اثرات کا تجزیہ کرنے والی دیگر تحقیقات میں درجہ حرارت میں بالترتیب 1.5 سے 2 اور 1.3-2.3 سینٹی گریڈتک کمی پائی گئی۔
برہم بھٹ کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر چھتوں کو سفید پینٹ کرنا ایک آسان حل ہے جسے دنیا بھر میں گرمی کے دباؤ والے بہت سے مقامات پر لاگو کیا جا سکتا ہے، بشمول نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے۔
لیکن جب ٹھنڈی چھتوں کو دنیا کی غریب ترین برادریوں کے لیے قابل رسائی بنانے کی بات آتی ہے تو چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ ان کی قیمت ہے۔ ایم ایچ ٹی کے ذریعے نصب کیے گئے پہلے ماڈ روفس کو ان کے کریڈٹ کوآپریٹو سے قرضوں کی سہولت فراہم کی گئی۔
پہلے خواتین ان قرضوں کو ادا کرنے کے قابل تھیں، لیکن وبائی مرض کے بعد ماڈ روفس کی لاگت بڑھ کر 750 انڈین روپے فی مربع فٹ ہو گئی ہے۔ ماڈ روفس بنانے والوں نے اب اپنی توجہ کچی آبادیوں سے بڑی عمارتوں کی طرف مبذول کر لی ہے۔
برہم بھٹ کو خدشہ ہے کہ ٹھنڈی چھت والی ٹیکنالوجیز فراہم کرنے والے سٹارٹ اپ غیر متوقع طور پر بند ہو سکتے ہیں، جس سے خواتین کی ان ٹیکنالوجیز میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم ایچ ٹی نے اپنے کام کو بڑھانے کے لیے سفید پینٹ کا رخ کیا۔
لیکن زیادہ سبسڈی کے بغیر سفید پینٹ کی قیمت بھی بڑھ ہو سکتی ہے۔ پانچ لیٹر سولر ریفلیکٹیو پینٹ کی قیمت کم از کم 1620 انڈین روپے ہے جبکہ ایم ایچ ٹی اسے 300 انڈین روپوں میں فراہم کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی کچی آبادی میں ایک گھرانے کی اوسط ماہانہ آمدنی 5000-20000 روپے کے درمیان ہوتی ہے۔
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سفید پینٹ وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہوتا جاتا ہے۔ چائنا ساؤتھ ویسٹ آرکیٹیکچرل ڈیزائن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب سفید سطحوں پر دھول، چکنائی اور تیل کی آلودگی جمع ہوتی ہے، تو یہ ان کی ریفلیکٹیو صلاحیت کو کم کر دیتی ہے اور اس لیے ٹھنڈک کم ہو جاتی ہے ۔
گیتا جودھ پور کی میگھوال بستی کی رہائشی ہیں، ان کا گھر 2019 میں ایم ایچ ٹی کے پائلٹ پروجیکٹس میں سے ایک کی سائٹ تھا۔ گیتا نے پہلے سال کے بعد پینٹ کی ٹھنڈک کا اثر کم ہونا محسوس کیا۔ اس نے چھت کو دوبارہ پینٹ کرنے پر غور کیا لیکن قیمت میں کافی فرق آ گیا تھا۔ وہ کہتی ہی کہ ’یہ بازار میں مہنگا ہے اور ہم اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘۔
اگرچہ پریا دتہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ سفید پینٹ کی قیمت ایک رکاوٹ بن سکتی ہے، لیکن وہ تجویز کرتی ہیں کہ لوگ لائم واش کو آزما سکتے ہیں، یہ ایک سستا متبادل ہے جو روایتی طور پر راجستھان میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
برہم بھٹ مزید کہتے ہیں کہ ایم ایچ ٹی کے کئی سالوں کے تجربات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کچھ پینٹ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک چل سکتے ہیں۔
ایم ایچ ٹی نے 2026 تک پورے انڈیا میں پانچ ہزار مزید ٹھنڈی چھتیں پینٹ کر کے گرمی کی شدت کم کرنے والا کام جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس غیر منافع بخش ادارے نے شہر میں 13 ٹریفک بوتھں کو بھی سفید رنگ کیا ہے اور جودھ پور نارتھ میونسپل کارپوریشن کو سفید پینٹ والا بس سٹیشن بنانے کے لیے زمین فراہم کرنے پر راضی کیا ہے۔
پنکی کہتی ہیں ’مستقبل میں گرمی بڑھے گی۔ زیادہ چھتوں کو سفید رنگ کیا جائے تاکہ خواتین اور بوڑھے لوگوں کو بھی تھوڑی سا سکون مل سکے‘۔