کولمبیا میں ایمازون کے پُرخطر جنگل کے بیچ و بیچ رات کی تاریکی میں آرمی ریڈیو سے وہ پیغام موصول ہوا جس کے لیے قوم دعا گو تھی: ’میریکل، میریکل، میریکل، میریکل۔‘
فوجی کے پیغام سے معلوم ہوا کہ جنگل میں چالیس دن سے لاپتہ بچے زندہ حالت میں مل چکے ہیں۔ یہ سچ میں ایک معجزہ تھا۔
مقامی برداری ’ویتوتو‘ سے تعلق رکھنے والے یہ بچے یکم مئی کی صبح سے لاپتہ تھے جب انھیں لے جانے والے چھوٹے طیارے کو حادثہ پیش آیا تھا۔
حادثے کے بعد ان کی والدہ کی جنگل میں موت ہوگئی تھی۔ 13، نو، چار اور ایک سال کے چار بچے جنگل میں پھنس گئے تھے جہاں ان کی جانوں کو سانپوں، جیگوار اور مچھروں کے خطرے کا سامنا تھا۔
امدادی ٹیموں کو بچوں کی موت کا خدشہ تھا مگر پیروں کے نشان، کھائے ہوئے جنگلی پھل اور دیگر سراغوں نے انھیں بچوں کے زندہ ہونے کی امید دی۔
چھ ہفتوں تک ان بچوں نے جنگل کے سب سے مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور اسے کولمبیا کے صدر گستاوو پیترو نے ’تاریخ میں بقا کی عظیم مثال‘ قرار دیا ہے۔
بچوں کی جنگل کے ماحول سے واقفیت
شاید ہی کہیں بچوں کو ایسے حالات سے نمٹنے کی تیاری ملی ہو جو اس خاندان نے انھیں کروا رکھی تھی۔
ویتوتو قبیلے کے لوگ نوعمری میں ہی شکار اور مچھلی پکڑنا سیکھ لیتے ہیں۔ بچوں کے دادا نے صحافیوں کو بتایا کہ ان بچوں میں سے سب سے بڑے لیزلی اور سولینی اس جنگل کے حالات سے باخبر تھے۔
بچوں کی ایک رشتہ دار نے کولمبین میڈیا کو بتایا کہ یہ خاندان باقاعدگی سے ’سروائیول گیمز‘ یعنی نامناسب حالات میں زندہ رہنے کے کھیلوں میں حصہ لیتا تھا۔ ’ہم کھیل کے دوران چھوٹے خیمے قائم کرتے تھے۔‘
’13 سال کی لیزلی کو معلوم تھا کہ وہ جنگل میں کون سے زہریلے پھل نہیں کھا سکتیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک بچے کا خیال کیسے رکھنا ہے۔‘
طیارہ حادثے کے بعد لیزلی نے درختوں کی شاخوں کو اپنے بالوں کے ٹائی سے باندھا اور عارضی خیمہ بنا لیا۔
مقامی رہنما ایڈون پاکی، جو امدادی آپریشن میں حصہ لے رہے تھے، نے صحافیوں کو بتایا کہ بچوں کو طیارے کے ملبے سے آٹا ملا جسے کھا کر وہ زندہ رہے۔ جب یہ ختم ہوگیا تو انھوں نے پھلوں کے بیچ کھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ حادثے کے مقام سے ایک کلو میٹر دور ایک مخصوص پھل کے بیج ڈھونڈنے کے لیے اس کے درخت تک بھی گئے۔
کولمبین انسٹی ٹیوٹ آف فیملی ویلفیئر کے سربراہ ایسٹرڈ کیسیرز نے کہا ہے کہ یہ حادثہ اس وقت ہوا جب جنگل کے درختوں کا پھل پک چکا تھا۔
تاہم اس کے باوجود بچوں کو جنگل کے خطرناک حالات میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔
جنگلی حالات کے ماہر الیکس رفینو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ یہ بچے ’ایک تاریک اور گہرے جنگل میں تھے جہاں علاقے کے سب سے بڑے درخت ہیں۔‘
وہاں ایسے پتے ہیں جن سے بچے پانی کو صاف کر سکتے ہیں مگر ’کچھ پتے زہریلے بھی ہوسکتے تھے۔‘
’یہ ایسا علاقہ ہے جہاں زیادہ کھوج نہیں ہوئی۔ قصبے چھوٹے ہیں، دریا کے پاس ہیں اور جنگل کے قریب کچھ نہیں۔‘
شکاری جانوروں سے بچنے کے علاوہ بچوں کو شدید بارشیں برداشت کرنا پڑیں۔ انھیں جنگل کے مسلح گروہوں سے بھی بچانا پڑا جو وہاں متحرک رہتے ہیں۔
صدر کے مطابق ایک موقع پر بچوں نے جنگلی کتے سے اپنی دفاع کیا۔
رفینو کہتے ہیں کہ 13 سال کے بچے کی پرورش مقامی برادری نے کی، اس لیے ان میں ان حالات میں بچنے کی صلاحیتیں تھیں۔
کولمبیا کے جنوب مشرقی حصے، جہاں بچوں کی پرورش ہوئی، کے ایک مقامی رہنما جان مورینو نے کہا کہ انھیں ان کی دادی نے پالا تھا جو مقامی برادری کے لیے قابل احترام شخصیت ہیں۔
’انھوں نے وہ آزمایا جو قبیلے سے سیکھا تھا۔ انھوں نے زندہ رہنے کے لیے اپنے آبا و اجداد کے علم کا استعمال کیا۔‘
ڈرامائی ریسکیو آپریشن
بچوں کی کھوج جاری رہی مگر حکام کی سست روی پر دباؤ بڑھتا گیا۔ صدر نے بچے بازیاب ہونے کا ٹویٹ تنقید کے بعد حذف کر دیا۔
حکام نے جنگل میں اوپر سے 10 ہزار کتابچے پھینکے جو ہسپانوی اور ویتوتو زبانوں میں تھے اور ان پر جنگل میں جان بچانے کی معلومات درج تھی۔ ہیلی کاپٹروں سے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ان کی تلاش جاری ہے۔
فوج اس خاندان کو ڈھونڈنے ہوئے قریب پہنچ گئی تھی۔ سرچ کمانڈر پیڈرو سینچز کے مطابق کچھ مواقع ایسے آئے جب ریسکیو ٹیموں اور بچوں میں 20 سے 50 میٹر کا فاصلہ تھا۔
بچوں کی بازیابی کے وقت 300 مربع کلو میٹر کے علاقے کے لیے ریسکیو آپریشن میں 150 فوجی اور مقامی برادری کے 200 رضاکار شامل تھے۔
جنرل سینچز نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ گھاس میں سوئی کی تلاش کا آپریشن نہیں بلکہ بڑے قالین میں کیڑے کی تلاش جیسا ہے کیونکہ انھیں آگے بڑھتے رہنا تھا۔
جمعے کو ایک مہینے تک جاری آپریشن مکمل ہوا جب ریسکیو کے لیے تربیت یافتہ کتوں نے بالآخر بچوں کو ڈھونڈ نکالا۔
اس وقت بچوں میں سب سے بڑی لیزلی نے چھوٹے بچے کو ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں بھوک لگی ہوئی ہے۔ ریسکیو ٹیم میں ایک رکن نے بتایا کہ ’ایک بچہ، جو لیٹا ہوا تھا، اٹھ کر بولا ’میری ماں مر چکی ہیں‘۔‘
یہ بعد میں معلوم ہوا کہ بچوں کی ماں طیارہ حادثے کے بعد جنگل میں چار دن تک زندہ رہیں تھی۔ بچوں کے والد مینویل رونوق نے کہا ’ماں نے مرنے سے پہلے بچوں سے کہا ’آپ لوگ یہاں سے نکل جاؤ‘۔‘
کولمبیا کی وزارت دفاع نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بلند و بالا درختوں کے بیچ بیچ رسیوں سے اوپر اٹھایا جا رہا ہے۔
انھیں ملک کے دارالحکومت بوگوتا لے جایا گیا جہاں ایمبولینس کے ذریعے انھیں طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
بچوں کے خاندان نے بچنے کے کم امکانات کے باوجود آپریشن جاری رکھنے پر فوج کا شکریہ ادا کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد بچوں کو گھر لایا جائے۔
بچوں کی دادی نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ’میں کبھی ناامید نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اس کھوج کی حمایت جاری رکھی۔ مجھے بہت خوشی ہے، میں صدر اور شہریوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جو اتنی مشکلات سے گزرے۔‘
صدر نے فوج اور رضاکاروں کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ دونوں کی شراکت ’امن کی راہ ہے۔‘
تاہم انھوں نے ماحول کے ساتھ بچوں کے اس تعلق کی تعریف کی۔ ’یہ جنگل کے بچے ہیں اور اب یہ کولمبیا کے بھی بچے ہیں۔‘
ملک میں ایک حلقہ اسے ’معجزہ‘ قرار دے رہا ہے جبکہ رفینو نے کہا کہ بچنے کی اصل وجہ ان کا قدرت سے گہرہ تعلق ہے۔
’جنگل نہ صرف سرسبز ہے بلکہ یہاں قدیم روحانی قوتیں ہیں جن کے ساتھ لوگ ایک تعلق محسوس کرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اسے سمجھنا مشکل ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن یہ معاشرے اور انسانوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ خطے میں موجودہ مختلف نظریات کے بارے میں سمجھ سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہی ماں، جو حادثے کے بعد روح بن گئی، اس نے ان کی حفاظت کی۔ اب جا کر وہ آرام کر سکتی ہیں۔‘