اہم خبریں

پیٹر پارکر کی جگہ پوِتر پربھاکر: سپائیڈر مین کا انڈین ورژن دنیا بھر کی توجہ حاصل کر رہا ہے

رواں موسم گرما میں ایک سپائیڈر مین لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ وہ سکرین پر دھوتی، سونے کی آستین اور کالے بالوں کے ساتھ لہراتا ہے اور کثیر الثقافتی دنیا کے اپنے ناظرین کو تہذیب کے سبق دیتا ہے۔

وہ سونی پکچرز کی ’سپائیڈر مین: ایکروس دی سپائیڈر ورس‘ میں نظر آ رہا ہے اور اس نے حالیہ ہفتے میں انڈین باکس آفس کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس نے اپنے ابتدائی ویکنڈ یعنی سنیچر اور اتوار کو 28 لاکھ امریکی ڈالر کی کمائی کی ہے جو کہ ملک میں کسی اینیمیٹڈ فلم کے لیے سب سے زیادہ کمائی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں پاپولر کلچر پر زیادہ تر ہندی فلم انڈسٹری کا قبضہ ہے وہاں سپائیڈر مین کی مقبولیت کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ یہ مغرب کے چند ایک ایسے کامک کرداروں میں شامل ہے جو انڈیا میں انتہائی مقبول رہے ہیں۔

سپر ہیرو کی فلمیں 2007 سے انڈیا میں سب سے زیادہ کمانے والی ہالی وڈ فلموں میں شامل ہیں، جس نے مقامی طور پر متعدد کامیابیاں حاصل کیں۔ اس میں ایک محبت کا گیت بھی شامل ہے جس کے مزاحیہ بول اس طرح ہیں: ’سپائیڈر مین، تو نے چرایا میرے دل کا چین۔‘ اور اس نے اس ملک میں کلٹ کا درجہ حاصل کیا ہے

لیکن تازہ ترین فلم اس سے کچھ زیادہ خاص ہے کیونکہ اس میں پہلی بار سپر ہیرو کا انڈین ورژن دکھایا گیا ہے۔

آئیے پوِتر پربھاکر سے ملیے جو ایک پراگندہ نوجوان ہے۔ وہ ایک طرح سے ممبئی اور مین ہٹن کا مرکب ہے اور اسے ممبٹن کہا جا سکتا ہے۔ اس کا نام سپائیڈر مین کے ہیرو پیٹر پارکر کے نام پر پوتر پربھاکر ہے جو کے سپائيڈر مین کے خول کے اندر ہے۔

پانچ مختلف اوتار

پوتر سپائیڈر کے پانچ مختلف سٹارز میں سے ایک ہے۔ یہ سب متبادل حقیقت سے ہیں لیکن اپنی مشترکہ طاقتوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ چالاک سپر ولن کو روکنے کے لیے نوعمر ہیرو مائلز مورالس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

پوتر کی تصویر کشی کو پوری دنیا کے مداحوں نے سراہا ہے، خاص طور پر انڈیا کے لوگوں نے، جن کا دل اس کی پرجوش شخصیت نے جیت لیا ہے۔

کچھ لوگ فلم کے ممبٹن سیکوینس یعنی ٹراپیکل علاقوں کے مخروطی آرٹ سٹائل کے گرویدہ ہو گئے ہیں جو کہ 1970 کی دہائی سے نکلنے والے مقامی اندرجال کامکس کو خراج تحسین ہیں۔ خیال رہے کہ اندرجال کامکس علاقائی زبانوں میں فینٹم اور مینڈریک دی میجیشین کے بارے میں کہانیاں شائع کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔

دوسرے اس کے اس لیے معترف ہیں کہ اس فلم نے مختلف پس منظر کے کرداروں کو ایک ساتھ ملا کر سپر ہیروز کی اپنی نوعیت کی پہلی کثیر النسلی ٹیم بنائی ہے۔

کامکس کے ایک پرجوش مداح مرتیونجوئے پال کہتے ہیں: ’مارول نے ہمیں پہلا بلیک سپائیڈر مین مائلز موریلس دیا اور اب ہمارے پاس پوتر ہے۔ کہانی ایک دلچسپ خیال کو چھونے کی کوشش کر رہی ہے کہ کوئی بھی سپائیڈر مین ہو سکتا ہے۔‘

انڈیا اور بیرون ملک اگر چہ بہت سے ناظرین کے لیے پوتر نیا ہے، لیکن اس کی ابتدا کی کہانی دہائیوں پرانی ہے۔ یعنی اتنی پرانی کہ جب ملک میں سپر ہیرو کے مناظر صرف کامکس کی کتابوں کے شائقین کی مخصوص برادری تک محدود تھے۔

’سپائیڈر مین: انڈیا نمبر 1‘ نامی کردار پہلے پہل سنہ 2004 میں سامنے آیا۔ یہ ایک کامک بک تھی جس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے چار شمارے نکلے۔

کامک بک سپائیڈر مین ایک دوستانہ پڑوس کے سپر ہیرو کی عالمگیر اقدار پر مبنی ہے۔

مقابلے کی صفت والے کسی بھی نوعمر لڑکے کی طرح پوتر اپنے ہیرو کے کام کے ساتھ ہوم ورک کو متوازن کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ سکول میں اسے بے رحمی کے ساتھ تنگ کیا جاتا ہے، لیکن رات میں وہ جرائم سے لڑنے والے ایک سپر ہیرو میں بدل جاتا ہے جو فلک بوس عمارتوں کو مافوق الفطری رفتار سے پھلانگتا ہوا گزرتا ہے۔ وہ جس سے پیار کرتا ہے اس کی حفاظت کے لیے وہ ماسک پہنتا ہے، اور اس کے لیے اسے اپنی شناخت کو خفیہ رکھنا پڑتا ہے۔

طاقت مکڑی کے بجائے یوگی سے ملتی ہے

لیکن پوتر کی کہانی میں خاص ہندوستانی عنصر نمایاں ہے۔ وہ ایک چائے پینے والا اور دھوتی پہننے والا سپر ہیرو ہے جسے اس کی مافوق الفطری طاقت کسی تابکار مکڑی کے کاٹنے کے بجائے ایک یوگی سےملتی ہے۔

پڑوس کی لڑکی میری جین کے عشق میں گرفتار ہونے کے بجائے پوتر کو اپنی ہم جماعت میرا جین سے پیار ہوتا ہے۔ اور پیٹر پارکر کو جہاں سکول میں ’کتابی کیڑا‘ ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہیں پوتر کو ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے سکالرشپ کے طالب علم ہونے اور شکل کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

وہ ایک ’انڈین سپائیڈر مین‘ ہے جسے انڈین تخلیق کاروں نے بنایا ہے۔ اور یہی بات شرد دیو راجن اور ان کے شریک تخلیق کاروں جیون کانگ اور سریش سیتا رمن نے 2003 میں جب پہلی بار پوتر کا تصور کیا تھا تو کہا تھی۔

دیو راجن نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے پوتر کو ایک گاؤں کے لڑکے کے طور پر دیکھا جو ایک بڑے سماجی پس منظر کی عکاسی کرتا ہے اور جو ممبئی میں اشرافیہ سے دوری محسوس کرتا ہے اور ہم نے یہ بات سنہ 2004 میں دیکھی تھی کہ بڑے شہر تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے جبکہ بہت سے انڈین دیہی لوگ خود کو مکمل طور پر الگ محسوس کرنے لگے تھے۔‘

سپائیڈر ورس یا سپائیڈر کی کائنات نے ناظرین کو مختلف نسلوں اور صنفی پس منظر سے تعلق رکھنے والے متنوع سپائیڈر مین کی کاسٹ سے متعارف کرایا۔ اس میں مورالس کا تعلق افریقی اور پورٹوریکن نسل سے ہے جبکہ میگوئل او ہارا کا سپائیڈر میکسیکن نسل سے ہے، جیسیکا ڈریو مارول کی پہلی حاملہ سپر ہیرو ہے اور ہابی براؤن کا سپائیڈر پنک افریقی نسل کا ہے۔

لیکن سنہ 2004 میں سپائیڈر مین جیسے آئیکن کا دوبارہ تصور کرنا بہت زیادہ مشکل تھا اور وہ بھی خاص طور پر انڈین ناظرین کے لیے جس نے مسٹر دیو راجن کے مطابق اس کردار کی فلم تو دیکھی تھی لیکن اس کی کہانی کو نہیں جانتے تھے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی کامک بک پڑھ رکھی تھی۔

انڈیا میں کامکس کی مانگ ہمیشہ سے بہت زیادہ رہی ہے، اور یہ گروسری سٹورز، اخبار فروشوں اور ریلوے پلیٹ فارمز پر عام طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ امر چترا کتھا کی افسانوی کہانیوں کی بصری پیشکش اور ٹوئنکل اور چمپک جیسے ہفتہ وار بچوں کے رسالوں کے ذریعے مقبول ہوئے۔

کامک-کون انڈیا کے بانی جتن ورما کہتے ہیں: ’یہاں تاریخ اور افسانوں میں زبردست دلچسپی رہی ہے، اور ہماری زیادہ تر کامک بکس اور دوسری کتابیں ان ہی دو صنفوں میں آتی ہیں۔‘

لیکن ملک میں سپر ہیروز کی بھوک تازہ واقعہ ہے۔ ایسا کچھ حد تک اس لیے بھی ہے کہ اس جگہ پر روایتی طور پر انڈین سنیما کے ہیروز کا غلبہ رہا ہے۔ یہ فلمیں پرزور کہانیوں کے ساتھ ایک ایسا تماشا پیش کرتی ہیں جس میں دیکھا جاتا ہے کہ ہیرو یعنی مرد گولیوں سے بچتے ہوئے، چھتوں سے چھلانگ لگاتے ہوئے درجنوں غنڈوں کے ساتھ کامیابی سے لڑتے نظر آتے ہیں۔

مسٹر دیو راجن نے کہا کہ ’ہمارا مقصد صرف ایک بین الاقوامی ہیرو کو مقامی آئیکن میں تبدیل کرنا تھا۔ ایک جانا پہچانا لڑکا جو ممبئی میں گیٹ وے آف انڈیا سے شہر کی سڑکوں پر جھولتا ہے اور اپنی خالہ کے ہاں دیوالی مناتا ہے۔‘

بیس سال بعد، پوتر بالکل وہی کر رہا ہے، اور اس سے کچھ زیادہ ہی کر رہا ہے۔

فلم میں وہ سفید دھوتی کی جگہ زیادہ سٹائلش نیلے رنگ کی دھوتی پہنتا ہے جس پر وہ پیچیدہ ہندوستانی شکلوں سے مزین ایک فنکی سوٹ پہنتا اور ایک کول انداز میں بال کٹواتا ہے۔

یہاں تک کہ مسٹر دیو راجن کے الفاظ میں اس کا جو ’ہندوستانیوں پر مبنی زیادہ روایتی اور سادہ خاندانی قدر کے نظام کی نمائندگی کرنے والا‘ کردار ہے اس میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

مائلز کے برعکس جو اپنی طاقتوں کی وجہ سے پریشان رہتا ہے پوتر انتہائی پرامید ہے کیونکہ وہ ممبٹن کے افراتفری کے ماحول میں آرام سے جھولتا ہے۔

خود اعتمادی

اس کی خود اعتمادی اور پراعتماد پہلو کئی مواقع پر پلاٹ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ممبٹن کے ایک دورے کے دوران وہ کہتا ہے کہ ’یہی وہ جگہ ہے جہاں سے انگریزوں نے ہمارا سارا سامان چرا لیا تھا۔‘

یہاں تک کہ وہ ’چائے ٹی‘ کہہ کر چائے مانگنے پر مائلز کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’کیا میں تمہیں کافی-کافی کہوں گا یا کریم کریم کہوں گا۔‘

ورائٹی میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں فلم کے تین ہدایت کاروں میں سے ایک کیمپ پاور نے کہا کہ ٹیم نے حقیقی طور پر پوتر کی ترتیب کو پروڈکشن کے درمیان دوبارہ توڑا اور اس کے کردار کا دوبارہ تصور کیا کیونکہ فلم پر کام کرنے والے انڈین نسل کے کچھ اینیمیٹروں نے محسوس کیا کہ پوتر کا کردار حقیقت سے ذرا زیادہ قریب ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ واقعی اس فلم میں تعاون کے جذبے کی بات کو اجاگر کرتا ہے۔‘

مسٹر ورما کا کہنا ہے کہ اگرچہ فلم بنیادی طور پر انڈیا سے باہر کے سامعین کو دھیان میں رکھ کر بنائی گئی ہے اس لیے ثقافتی عناصر عامیانہ یا دقیانوسی محسوس نہیں کراتے ہیں۔ ’اور حقیقت یہ ہے کہ یہ انڈین سپائیڈر مین بہترین سپائیڈر فلموں کا ایک حصہ ہے جو اس کو اور بھی بہتر بناتا ہے۔‘

مسٹر دیو راجن کہتے ہیں کہ فلم میں ’کاسٹیوم بدل دیا گیا ہے لیکن پوتر کا دل، کردار اور منفرد ہندوستانیت وہی ہے۔‘

انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مارول کی دنیا میں ایک کردار کے طور پر پوتر کی ترقی کا ایک آغاز ثابت ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پوتر کو اس کامک سے جسے ہم نے تخلیق کیا چھلانگ لگا کر بڑی سکرین تک پہنچنے میں صرف 20 سال لگے۔

’امید ہے کہ ہمیں لائیو ایکشن ورژن دیکھنے میں مزید 20 سال نہیں لگیں گے۔ انڈیا کو اس کے سپائیڈر مین کی ضرورت ہے!‘