اہم خبریں

پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ: کیا حکومت کے ’کاؤنٹ ڈاون‘ کے وقت ایسے فیصلے ووٹ بینک کو متاثر کر سکتے ہیں؟

پاکستان میں یکم اگست کا سورج ابھی نصف النہار تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کی خبر نے عوام کو جیسے دن میں ہی تارے دکھا دیے۔

حکومت کے اعلان کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 19.95 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 19.90 روپے کا اضافہ کیا گیا، جس کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 272.95 روپے جبکہ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 273.40 روپے ہو گئی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس ہوش ربا اضافے کا اعلان وفاقی وزیر داخلہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کیا۔ اسحاق ڈار نے اس کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ پیٹرولیم لیوی کے معاملے میں کچھ یقین دہانیاں اور شرائط ہیں۔‘

پہلے بجلی اور اب پیٹرول کی قیمتوں میں اس اضافے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کا ’کاونٹ ڈاون‘ شروع ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کا عام انتخابات میں ووٹ لینے کے لیے دوبارہ عوام کے پاس جانے کا وقت ذیادہ دور نہیں۔

ایسے میں قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ حکمران اتحاد بلکہ خود مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک کو کتنا متاثر کرے گا اور کیا یہ ’مشکل فیصلے‘ نگران حکومت سے کروانا آسان ثابت نہ ہوتا جو عنقریب حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات سے قبل ملکی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی ذمہ دار ہو گی۔

ان ہی سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نے مسلم لیگ نون کے رہنماوں اور کچھ ماہرین سے بات کی ہے۔

’ووٹ بینک متاثر ہونے کا قوی خدشہ‘

پاکستان میں برسر اقتدار پی ڈی ایم حکومت کی آئینی مدت 12 اگست رات 12 بجے مکمل ہو جائے گی تاہم خود وزیراعظم شہباز شریف اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں قومی اسمبلی مدت سے پہلے تحلیل کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا بیان دے رکھا ہے۔

ایسے میں جب حکومت کی رخصتی کے دن قریب ہیں تو تقریباً ایک ہفتے پہلے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ساڑھے سات روپے تک کا اضافہ اور اب پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 20 روپے کا اضافہ، کیا حکومت خصوصاً مسلم لیگ ن کے لیے ان کا ووٹ بینک کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں مسلم لیگ نون کے رہنما سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ پیٹرول مہنگا ہونے کی حمایت تو ان سمیت کوئی بھی نہیں کر سکتا۔

ان کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کی کوئی کارکردگی رہی ہو یا نہیں تاہم پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے باہر آ گیا۔

’میں اس فیصلے کی حمایت ہرگز نہیں کر رہا لیکن اس کے سوا چارہ نہیں تھا۔ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش ضرور کریں گے لیکن ان قیمتوں میں اضافے سے ووٹ بینک متاثر ہونے کا قویٰ خدشہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’ووٹ بینک کے لیے ہم نے شروع سے کہا کہ ہم نے پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی سیاست کو قربان کیا۔‘

بی بی سی نے اگلا سوال کیا کہ الیکشن میں عوام کے پاس ووٹ کے بدلے کیا وعدے لے کر جائیں گے؟ اس کے جواب میں آصف کرمانی نے کہا کہ ووٹرز پاکستان اور پاکستان کی معیشت کے لیے مخلصانہ کوششوں کو مدنظر رکھتے درست سمت میں فیصلہ کریں گے۔

آصف کرمانی کے مطابق ’میں سمجھتا ہوں کہ لوگ با شعور ہیں اور انھیں علم ہے کہ پاکستان ایک غیر معمولی دور سے گزر رہا ہے اور اس کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور وہ تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں۔ ‘

ان کے مطابق پی ڈی ایم کی حکومت جب آئی تو پہلے سے علم تھا کہ حالات بہت خراب ہیں۔

’وہ جو کہا جاتا ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا تو آئی ایم ایف کی شرط تھی جس کو پورا کرنا پڑا لیکن ہمیں اندازہ ہے کہ تنحواہ دار اور مڈل کلاس طبقے کے لیے مہنگائی میں لا محالہ اضافہ ہو گا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ ایسا مشکل فیصلہ خود کرنے کی بجائے نگران حکومت کے آنے پر کیوں نہ کرایا گیا، آصف کرمانی نے کہا کہ ’نگران حکومت ابھی آئی نہیں تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں شرائط کلینڈر کے مطابق پوری کی جاتی ہیں تو میرا خیال ہے کہ انھوں نے کہا ہو گا کہ حکومت جانے سے پہلے قیمتوں میں شرط کے مطابق اضافہ کریں تو ہو سکتا ہے ایسا ہوا ہو تاہم یہ ایک کڑوی گولی ہے جو نگلنا پڑی ہے۔‘

’اس بار معاشی خواب مہنگائی کم کرنا ہی ہو سکتا ہے‘

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق بھی قیمتوں میں اضافے سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں کمی تو واقع ہوئی ہے۔

’مہنگائی نے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک پر بڑا اثر ڈالا ہے اور جب سے یہ حکومت بنی ہے اس وقت سے لے کر جو مہنگائی والا بیانیہ تھا وہ بہت پر اثر رہا اور ن لیگ کا ووٹ بینک بھی کم ہوا۔ ہم سب کو علم ہے کہ شہباز گورنمنٹ میں جو ضمنی انتخابات ہوئے، اس میں ن لیگ ہار گئی تھی۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا تو کوئی توڑ ہے بھی نہیں۔ ’آئی ایم ایف کے ساتھ جو ڈیل ہوئی ہے اس میں یہ ساری چیزیں تھیں کہ مہنگائی بڑھے گی اور اگر آپ کو معیشت کو سنوارنا ہے تو ایسے مشکل فیصلوں سے گزرنا ہو گا چاہے اس کی سیاسی قیمت کوئی بھی ہو۔‘

تو پھر اب انتخابات میں ووٹ کے لیے عوام کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ نواز شریف جب بھی الیکشن میں اترتے ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی معاشی خواب ضرور دکھاتے ہیں۔‘

’پچھلی بار جب نواز شریف انتخابات میں اترے تو انھوں نے خواب دکھایا کہ توانائی کا مسئلہ حل کروں گا اور لوڈ شیڈنگ ختم کروں گا۔ ایک زمانے میں موٹر ویز کا نعرہ لگایا تھا، ایک زمانے میں فری اکانومی کا نعرہ لے کر وہ انتخاب میں اترے۔ اس بار بھی ووٹر کے لیے وہ معاشی خواب مہنگائی کم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ ‘

’ووٹ بینک کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں‘

مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس تو ابھی ووٹ بینک کا سوچنے کا وقت بھی نہیں۔ وہ جو ہم نے ایک نعرہ لگایا تھا کہ ہم نے سیاست نہیں ریاست بچائی ہے، یہ اسی کا ایک حصہ ہے۔‘

عظمیٰ بخاری سے جب پوچھا گیا کہ ایک ساتھ اتنے بڑے اضافے کے بارے میں اپنے ووٹرز کو کیسے سمجھا پائیں گی تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے بھی بہت آسان تھا کہ ہم عمران خان کی طرح جاتے جاتے پیٹرول کی قیمت میں 100 روپے کمی کر جاتے اور آرام سے گھر چلے جاتے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف جانے اور پاکستان جانے لیکن ہم یہ نہیں کر سکتے تھے۔ سیاست کے لیے ریاست کا ہونا بہت ضروری ہے تو یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔‘

’حکومت کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، اس لیے یہ فیصلے خود کر کے جا رہے ہیں‘

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت کے پاس باقی رہ جانے والے گنے چُنے دن میں جہاں ایک جانب وزیراعظم شہباز شریف متعدد منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں تو وہیں بجلی اور اب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کو گو مگو کی کیفیت میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار غازی صلاح الدین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا اس وقت حکومت کی مجبوری ہے۔

’اس وقت جب حکومت کے پاس آٹھ سے 10 دن ہی رہ گئے ہیں تو میرے خیال میں اس وقت ووٹر بہت کنفیوژ ہو گا اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہو گا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان میں اس بات کو سمجھنا مشکل ہے کہ ووٹر اپنے فیصلے کیسے کرتے ہیں، کن چیزوں کو برداشت کرتے ہیں اور کن چیزوں پر ناراض ہوتے ہیں۔‘

’اب دیکھنا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس طرح اپنے آپ کو بیچتی ہیں یعنی کس طرح اپنے حالات کو بیان کرتی ہیں۔ جیسے عمران حان کا تھیم سانگ تھا، اس کے مطابق باقی سب چور ہیں تو اس نعرے نے ان کی سپورٹ اور مقبولیت میں اضافہ کیا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے معاشی مشکلات کا ذمہ دار عمران خان کو ٹہرایا۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت انتخابات قریب بھی ہیں اور دور بھی اور اس وقت پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا فیکٹر عمران خان کی تقدیر کا فیصلہ بھی ہے، جو اگلے چند روز میں ہو یا انتخابات سے قبل۔۔۔ وہ راستے کا اہم موڑ ہے اور جب وہ موڑ مڑ لیا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ نئے سرے سے صف بندی ہو اور نئے سرے سے لوگ اپنے فیصلے کریں۔‘

دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’لگتا ہے کہ حکومت کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، اس لیے اتنے بڑے بڑے فیصلے خود کر کے جا رہے ہیں۔‘