.اس دائرہ نما پتھروں نے ماورائی مخلوق کی موجودگی کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کی
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جنوبی افریقہ کے شہر اوٹوسڈال کے قریب کان کنی کے دوران کانوں میں پراسرار اور عجیب و غریب دریافتوں کی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں۔
وہاں سے جو چیزیں ملیں وہ بیضوی اور دائرہ نما شکل کی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ ان پر پالش کی گئی ہے اور ان پر لکیریں کندہ تھیں اور وہ کرکٹ کی گیند کی طرح نظر آتی تھیں۔
بادی النظر میں ایسا لگتا تھا کہ یہ اشیا انسانی ہاتھوں کی تراشی ہوئی ہیں اور یہ قدیم تہذیب کے آثار قدیمہ کا حصہ ہیں۔ ان کا قطر دس سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں تھا۔
تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ چھوٹی گیندیں یا گولے ان چٹانوں میں پائے گئے ہیں جو تقریباً 2.8 ارب سال پہلے بننے والی چٹانیں ہیں اور انھیں پائروفائلائٹ چٹان کہا جاتا ہے۔
یعنی اس وقت جب زمین بھی ابھی تازہ تازہ وجود میں آئی تھی اور اتنی کم عمر تھی کہ وہاں عقل رکھنے والی مخلوق کی موجودگی کی گنجائش نہیں تھی۔
ان بیضوی شکل کے گولوں کو شمالی جنوبی افریقہ کے قصبے کلرکسڈورپ لے جایا گیا تاکہ اس کا مطالعہ کیا جائے اور بعد میں شہر کے مرکزی عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھا جائے۔
اس وجہ سے ان اشیا کو کلرکسڈورپ دائرہ نما کہا گیا۔
تاہم سنہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں نیم سائنسی مقالے گردش کرنے لگے جن میں ان پتھروں کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ ’دوسری دنیا کی مخلوق کے شواہد‘ ہیں جو انسان سے پہلے زمین پر موجود تھے۔
ان مضامین میں سے ایک مائیکل کریمو نامی محقق کی جانب سے لکھا گیا تھا اور اسے ایک نیوز پورٹل پر شائع کیا گیا تھا۔
جوہانسبرگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جنوبی افریقہ کے ماہر ارضیات بروس کیرکورن نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘یہ اشاعتیں ارضیاتی مطالعات کی کمی کی وجہ سے سامنے آئیں جو کہ ان پتھروں کی اصلیت کی وضاحت کر سکتی ہیں۔’
چٹانوں کے اندر کے دباؤ اور گرمی نے ان کرکٹ نما گولوں کی تخلیق کی
بروس نے کہا کہ یہ دائرہ نما اشیا کوئی معمہ یا اسرار نہیں ہیں اور اس کے متعلق جو کہا جا رہا ہے کہ ہمارے سیارے پر ماورائے زمین مخلوقات کا گزر ہوا ہوگا تو اس کا امکان بہت ہی کم ہے۔
ماہر ارضیات نے کہا کہ ’یہ کہا جاتا ہے کہ کسی ایسی چیز کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی جو واضح ہو اور وہ یہ ہے کہ یہ پتھر ان چٹانوں سے نکالے گئے ہیں جو اربوں سال پہلے بنے تھے۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ یہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں، لیکن اس قسم کے دائرہ نما چیز کا بننا پائروفلائٹ دور میں بہت عام تھا۔‘
لیکن انھیں ایسی بیضوی اور گول شکل کیسے ملی؟
لاکھوں سال کی تشکیل
آئی ایف ایل سائنس پورٹل کے مطابق سنہ 1980 کی دہائی کے دوران بہت کم سائنسی بنیادوں کے ساتھ مختلف مضامین میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کلرکوسڈورپ کے دائرے ’ایک اعلیٰ تہذیب‘ کے بنائے ہوئے ہیں لیکن اس عظیم سیلاب سے پہلے کی کسی تہذیب کے بارے میں ہم عملی طور پر کچھ نہیں جانتے۔‘
بہرحال اس بارے میں لیپیڈری میگزین کی طرح دیگر رپورٹس بھی سامنے آئیں جن میں اس دائرہ نما چیز کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بیان کیا گیا۔ ان میں کہا گیا گیا کہ یہ اشیا اپنی نمائش والے بکسے کے اندر از خود گردش کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے سوسائٹی فار دی ریشنل انویسٹی گیشن آف پیرا نارمل فینومینا کے نام سے مشہور سوسائٹی نے ان دلائل کی تردید کے لیے کیرنکروس سے رجوع کیا کہ ان دعوؤں کی تردید کی جاسکے کیونکہ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا۔
بروس کے مطابق ’بنیادی وضاحت کافی نہیں تھی کہ یہ اشیا 2,800 ملین سال سے زیادہ پہلے ہونے والی تشکیل سے بنے تھے بلکہ ہمیں اس کی زیادہ گہرائی کے ساتھ وضاحت کرنی تھی کہ ان کی تشکیل کیسے ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے لیے انھیں یہ وضاحت کرنی پڑی کہ یہ پتھر ایک ایسی تشکیل میں پائے گئے تھے جسے ’غالب گروپ‘ کہا جاتا ہے۔
آتش فشاں لاوے کی کئی تہیں اوپر تلے جمع ہوتی ہیں اور جو بہت زیادہ دباؤ اور گرمی کے بعد پائروفیلائٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہ ان دائرہ نما اشیا کو ڈھانپ لیتی ہیں۔‘
ماہر ارضیات نے بذات خود اس جانب اشارہ کیا کہ پتھروں کی خاصیت اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ وہ لاکھوں سالوں سے دباؤ اور گرمی کے ماحول میں موجود ہیں جو ایک بڑی چٹان کے اندر بنتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح ان کو اپنا گھر‘ بنا لیتے ہیں اور وہ پھر پانی کے کٹاؤ کی زد میں آتے ہیں۔
ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ ‘ان دائرہ نما شکلوں کو کنکریشنز یا پتھری کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے تحت ان کی شکلیں گول، بیضوی یا چپٹی ہوتی ہیں اور میزبان چٹان میں موجود مختلف معدنیات سے یہ بنتی ہیں۔ اور یہ کافی عام ہیں، جو دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔‘
ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ یہ پتھریاں باریک دانے دار چٹانوں میں پائی جاتی ہیں، جیسے کہ پائروفائلائٹ میں جو جنوبی افریقہ کے اس خطے میں بکثرت پایا جاتا ہے۔
شک کی لکیریں
بروس کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان دائروں کے بارے میں وسیع تر وضاحت دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ جعلی سائنسی اشاعتیں قابل اعتبار ہوتی جا رہی تھیں۔
ماہر ارضیات نے ایک میگزین کا حوالہ دیا جس نے یہ کہا تھا کہ ان دائرہ نما چیز کو امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا کے پاس لے جایا گیا ہے اور ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ ان کی تخلیق ’صفر کشش ثقل والی جگہ‘ میں ہوئی ہیں۔
لیکن ماہر ارضیات بروس اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ کلرکسڈورپ کے دائروں میں ایک خاصیت ہے جو دنیا میں پائے جانے والے اس سے ملتے جلتے تمام دائروں میں نہیں دیکھی جاتی ہے اور یہ خصوصیت وہ متوازی لکیریں ہیں جو ان کے آر پار جاتی ہیں اور جو انھیں کرکٹ گیند کی شکل دیتی ہیں۔
ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ ’دراصل یہ لکیریں نہیں بلکہ پرتیں ہیں یعنی یہ میزبان چٹان کی طرف سے چھوڑے گئے نشانات کی پیداوار ہیں، جو ایک طویل عرصے سے تہوں میں بنے ہیں اور ان سے وہ اثر پیدا ہوتا ہے جسے آپ اب دیکھ سکتے ہیں۔‘