پاکستان میں صوبہ خیرپختونخوا کے شہر پشاور میں رہنے والے عثمان کا تعلق تو افغانستان سے ہے لیکن وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے یہاں آئے ہیں۔
عثمان کے گھر میں داخل ہوتے ہی مٹی سے بنی کچی دیواروں اور فرش پر پڑے برتنوں سے ان کی غربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چارپائی پر پرانی پھٹی ہوئی چادر اور کچی زمین پر پڑی چٹائی اُن کے مالی حالات جاننے کے لیے کافی ہے۔
عثمان کے پانچ بچے ہیں اور تمام بچوں کی نظر کمزور ہے۔ اُن کا بیٹا ابوذر قریب واقع ایک ایسے سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے جہاں اس کے علاوہ افغانستان سے آئے بہت سے بچے اور بچیاں زیرِ تعلیم ہیں۔
ان میں سے بیشتر بچے وہ ہیں جن کے والدین 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے۔
اس سکول کو کون چلا رہا ہے اور یہ سکول منفرد کیوں ہے؟ اس بارے میں ہم آ گے چل کر تفصیل سے بات کرتے ہیں مگر ابھی یہ جان لیتے ہیں کہ اس سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین پاکستان میں کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
’اتنی بھی استطاعت نہیں کہ اپنے بچے کی عینک بنوا سکوں‘
عثمان صبح ساتھ بجے سے رات دس بجے تک چپس فروخت کرنے کا ٹھیلہ لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں پورا دن مزدوری کرتا ہوں اور دن کے آخر میں میرے پاس صرف چار سے پانچ سو روپے بچتے ہیں۔ میری اتنی بھی استطاعت نہیں کہ میں اپنے بچوں کے لیے عینک بنوا سکوں۔‘
ابوذر، عثمان کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ ابوذر کو انتہائی قریب سے کتاب پڑھتے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اُن کو دیکھنے میں کس قدر مشکل پیش آ رہی ہے مگر والد کے مطابق پڑھائی کا شوق اُن کو تعلیم سے دور نہیں رکھ سکا۔
شام کے 4 بجتے ہی ابوذر پھٹے ہوئے کپڑوں اور چپلوں میں کمر پر بستہ لادے اپنے سکول کی جانب چل پڑتے ہیں۔
اُن کے والد کا کہنا ہے کہ ’میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا بھی سکول جاتا ہے اور مجھے ایک روپیہ بھی فیس نہیں دینی پڑتی۔۔۔ ویسے بھی جو میں کماتا ہوں اس میں تو گھر کا کرایہ بھی نہیں دے سکتا۔‘
’چھ بچے مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے وفات پا گئے‘
لیکن اس حالت میں عثمان اکیلے نہیں۔
خان جان بھی اُن محنت کش افراد میں شامل ہیں جو چند برس قبل اپنے پورے خاندان سمیت افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
ان کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران اوپر تلے اُن کے چھ بچے انتقال کر گئے جس کی بنیادی وجہ مناسب غذا کا نہ ملنا تھا۔ اس وقت اُن کے چار بچے ہیں اور اُن کی بیٹی زینب اس منفرد سکول میں اپنے چار دوسرے کزنز کے ساتھ جاتی ہیں۔
خان جان ایک تندرو پر کام کرتے ہیں۔ ان کے گھر کی حالت بھی عثمان کے گھر سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ بیٹھنے کے لیے چٹائی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں موجود ایک پرانا کمبل ہی کچی زمین پر بچھایا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں چاہتا ہوں کہ زینب اور میرے خاندان کی دوسری لڑکیاں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے افغانستان اور پاکستان کی خدمت کریں۔‘
خان جان اور عثمان نے یہ بھی بتایا کہ اخرجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے گھر کی خواتین بھی سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں مگر اس کے باوجود ہر ماہ کے آخر میں وہ کسی نہ کسی کے قرض دار ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں ایک ایسا سکول جو اُن کے بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے جو اُن کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چلیے اب اس سکول کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ خاص کیوں ہے اور اس کو کون چلا رہا ہے۔
سکول جہاں بچوں سے ایک روپیہ بھی فیس نہیں لی جاتی
اس منفرد سکول کے سربراہ محمد عامر ہیں جو پشاور کے ایک پرائیوٹ سکول میں او لیول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
جب اُن سے جب پوچھا گیا کہ انھیں اس سکول کا خیال کیسے آیا تو اُنھوں نے بتایا کہ ’ایک دن میں تندور پر روٹیاں لینے گیا تو ایک چھوٹا سا بچہ اخبار اُٹھا کر اُلٹا سیدھا کر کے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہیں یہ اخبار پڑھنا آتا ہے تو اُس نے بتایا کہ نہیں اور پھر وہ تندور پر دوبارہ کام کرنا شروع ہو گیا۔‘
محمد عامر کے مطابق اُن کی زندگی میں یہ ہی وہ لمحہ تھا جب اُنھوں نے ٹھان لی کہ وہ ایسے بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں ہونے دیں گے۔
محمد عامر نے بتایا کہ افغانستان سے آئے غریب خاندانوں کے بہت سے بچے تندوروں، ورک شاپس، کچرا کنڈیوں اور کئی دوسری جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔
اس منفرد سکول کے سربراہ محمد عامر ہیں جو پشاور کے ایک پرائیوٹ سکول میں او لیول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پرائیوٹ سکولوں کی فیس کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے۔ اگر ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص اس کی استطاطت نہیں رکھتا تو ایسے میں جو شخص پورا دن مزدوری کر کے چار سو روپے کمائے وہ پھر یا تو گھر والوں کو روٹی کھلا سکتا ہے یا پھر اُن کو اچھی زندگی دے سکتا ہے۔‘
لیکن محمد عامر کو اس کارِ خیر کو شروع کرنے کے لیے مالی مدد درکار تھی، جس کی لیے اُنھوں نے اپنے گھر والوں اور دوستوں سے مدد لی اور اس سفر کا آغاز کیا۔
اس سکول کی عمارت ایک پرائیوٹ سکول کی ملکیت ہے۔ محمد عامر کے جذبے کو دیکھتے ہوئے سکول کے مالکان نے اس عمارت کو شام میں استمعال کرنے کی اجازت دے دی اور اب محمد عامر صرف یہاں کچھ بل ادا کرتے ہیں جبکہ عمارت کا کوئی کرایہ ادا نہیں کیا جاتا۔
بی بی سی کی ٹیم جب اس سکول پہنچی تو یہ اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آئی کہ یہ سکول منفرد کیوں ہے۔
چار بجتے ہی کچھ بچے سر پر ٹوکریاں رکھے ہوئے، کچھ بچے کچرا چننے والے تھیلے ہاتھوں میں لیے سکول میں داخل ہو رہے تھے۔ ان تمام بچوں کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔
محمد عامر نے بتایا کہ ’اس سکول میں ڈیڑھ سو بچے پڑھتے ہیں۔ اُن بچوں میں ہر عمر کا بچہ شامل ہے۔ کئی بچے تیرہ سال تک کے بھی ہیں مگر وہ بھی ابھی چھوٹی جماعتوں کا کورس پڑھ رہے ہیں۔‘
محمد عامر نے بتایا کہ اُنھوں نے افغان بچیوں کے لیے سپیشل پشتو ٹیچر رکھی ہیں، جو اُن کو پشتو میں تعلیم دے رہی ہیں۔
اس سکول میں آنے والے بچوں کے پاس پہننے کو ایک جیسا سکول یونیفارم نہیں مگر پڑھنے کے لیے ایک طرح کی کتابیں موجود ہیں۔ محمد عامر ان بچوں کے لیے ساری سٹیشنری کا انتظام اپنے دوستوں اور گھر والوں کی مدد سے کرتے ہیں۔
محمد عامر کہتے ہیں کہ ’میں ان بچوں سے ایک روپیہ نہیں لیتا، یہ سارے بچے محنت مزدوی کرنے والے ہیں۔ پوری صبح یہ محنت کرتے ہیں اور شام میں مغرب تک یہاں پڑھتے ہیں۔ میں نے پانچ ٹیچرز رکھیں ہیں جو ان کو پڑھاتی ہیں اور اُن کی تنخواہیں ہم دوست مل کر دیتے ہیں۔‘
محمد عامر کو یہ امید ہے کہ وہ آنے والے وقت میں ان بچوں کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ ملک بھر میں سکالر شپ پر مزید تعلیم حاصل کر سکیں۔
محمد عامر یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ وہ اس سکول میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ایک ایسا سکول بنائیں گے جہاں وہ صبح آ کر پڑھ سکیں، ایک تعلیم یافتہ شخص کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں اور اپنے گھر والوں کو درپیش مسائل کو دور کرنے میں مدد کر سکیں۔