بیلاروس کے رہنما کا کہنا ہے کہ مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ یفگینی پریگوژن، جنھوں نے گذشتہ ماہ روس میں مختصر مدت کے لیے بغاوت کی قیادت کی تھی، بیلاروس میں نہیں بلکہ روس میں ہیں۔
بغاوت کے بعد سے پریگوژن کا ٹھکانہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
اس تعطل کو ختم کرنے کے معاہدے کے تحت، ان کے خلاف الزامات ختم کردیے گئے تھے اور انھیں بیلاروس منتقل ہونے کی پیش کش کی گئی تھی۔
لیکن جمعرات کو بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا: ’جہاں تک پریگوژن کا تعلق ہے تو وہ سینٹ پیٹرزبرگ میں ہیں۔ وہ بیلاروس کے علاقے میں نہیں ہیں۔‘
لوکاشینکو کے بیان کے جواب میں کریملن نے کہا ہے کہ وہ پریگوژن کی نقل و حرکت پر نظر نہیں رکھ رہا ہے۔
لوکاشینکو نے بغاوت کو ختم کرنے کے لیے معاہدے میں مدد کی تھی اور صرف ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ پریگوژن بیلاروس پہنچ گئے ہیں۔
بی بی سی نے جون کے اواخر میں بیلاروس کے لیے پرواز کرنے والے پریگوژن کے نجی طیارے کا سراغ لگایا اور اسی شام وہ روس واپس آیا۔
اس کے بعد سے اس نے سینٹ پیٹرزبرگ اور ماسکو کے درمیان متعدد پروازیں کی ہیں – اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پریگوژن جہاز میں سوار تھے یا نہیں۔ بی بی سی ویگنر کے سربراہ کے موجودہ مقام کے بارے میں لوکاشینکو کے دعوے کی بھی تصدیق نہیں کر سکتا۔
جمعرات کے روز لوکاشینکو نے مزید کہا کہ ’جہاں تک میں جانتا ہوں ویگنر کے باقی جنگجو اب بھی اپنے اڈوں پر موجود ہیں‘ جن میں مشرقی یوکرین یا روس کے کراسنودار خطے میں ایک تربیتی اڈہ شامل ہو سکتا ہے۔
بیلا روس کے رہنما نے کہا ہے کہ ویگنر کے لیے بیلاروس میں اپنے کچھ جنگجوؤں کو تعینات کرنے کی پیش کش اب بھی برقرار ہے اور انھوں نے سوویت دور کے کئی مقامات کو فوجی استعمال کے لیے پیش کیا ہے (ایک ایسی پیش کش ہے جس نے ہمسایہ نیٹو ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے)۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن ویگنر کچھ اور سوچتے ہیں اور یقینا میں آپ کو اس بارے میں نہیں بتاؤں گا۔‘
’فی الحال، ان کی منتقلی کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔‘
ویگنر گروپ کرائے کے فوجیوں کی ایک نجی فوج ہے جو یوکرین میں باقاعدہ روسی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔
اپنے خطاب میں لوکاشینکو نے کہا کہ انھیں بیلاروس میں ویگنر جنگجوؤں کی موجودگی پر کوئی تشویش نہیں ہے، انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’کچھ شرائط‘ پر ملک میں رہیں گے۔
لوکاشینکو نے ویگنر کے ’تجربے‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’بنیادی شرط یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنے ملک کے دفاع کے لیے انہیں فعال کرنے کی ضرورت ہے تو ایسا فوری طور پر کیا جائے گا۔ اور انھیں کسی بھی سمت میں بھیجا جا سکتا ہے۔‘
تاہم انھوں نے بیلاروس میں ویگنر کی زیر قیادت بغاوت کے کسی بھی ممکنہ خطرے کو مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’زندگی میں ہر طرح کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن میں فی الحال ایسی صورتحال نہیں دیکھتا۔ اگر وہ یہاں آتے ہیں، تو ہم ان پر گہری نظر رکھیں گے۔‘
لوکاشینکو 1994 سے بیلاروس پر حکومت کر رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔
گذشتہ رات روس کے سرکاری ٹی وی نے پریگوژن کو ان کے ایک محل کے اندر اپنی دولت اور ہتھیار دکھاتے ہوئے دکھایا۔ یہ وہی محل ہے جس پر پولیس نے چھاپہ مارا تھا۔
فوٹیج میں نقدی کے بنڈل، وگوں کا ایک مجموعہ، مکمل طور پر لیس طبی علاج کا کمرہ اور سونے کی سلاخیں دکھائی دے رہی ہیں۔
پریگوژن کی بغاوت کے نتیجے میں ویگنر کے کرائے کے فوجی یوکرین کے فیلڈ کیمپوں سے جنوبی شہر روستوف آن ڈان میں داخل ہوئے اور کچھ فوجی تنصیبات کی کمان سنبھال لی۔
اس کے بعد ویگنر جنگجوؤں نے شمال کی جانب ماسکو کا رخ کیا جس کے بعد کریملن نے دارالحکومت سمیت کئی علاقوں میں سخت سکیورٹی نافذ کردی۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے بعد میں کہا تھا کہ بغاوت کے دوران روسی پائلٹ ہلاک ہوئے تھے اور لگتا ہے کہ کئی طیارے تباہ بھی ہوئے تھے۔
پوتن نے ابتدائی طور پر اس گروپ پر غداری کا الزام لگایا تھا لیکن بغاوت کے خاتمے کے معاہدے کے تحت پریگوژن کو سیکورٹی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور ویگنر کے خلاف روسی فوجداری مقدمہ واپس لے لیا گیا تھا۔
اس کے جنگجوؤں سے کہا گیا تھا کہ وہ یا تو باقاعدہ فوجی معاہدوں پر دستخط کر سکتے ہیں، گھر جا سکتے ہیں یا بیلاروس جا سکتے ہیں۔
سیٹلائٹ سے لی گئی حالیہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ منسک کے قریب ایک سابق فوجی اڈے پر خیمے لگائے جا رہے ہیں، لیکن ابھی تک ان کی منتقلی کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے۔