اہم خبریں

پاکستان میں کمزور معاشی حالات کے باوجود سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی ایک بروکریج کمپنی میں حصص کی خرید و فروخت سے وابستہ محمد ارسلان اِن دنوں اپنے کلائنٹس کے ساتھ بہت زیادہ مصروف ہیں۔

عیدالاضحیٰ سے قبل ارسلان کے کلائنٹس کی جانب سے مارکیٹ میں ٹریڈنگ میں کچھ خاص دلچسپی نہیں دکھائی جا رہی تھی تاہم گزشتہ ماہ اُن کا کام اچانک بہت زیادہ بڑھ گیا کیونکہ اب کلائنٹس حصص کی خریداری میں دلچسپی دکھا رہے تھے۔

ارسلان کے مطابق وہ اپنے کلائنٹس کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی کمپنیوں کے حصص خریدنے کے لیے انھیں مشورے دیتے ہیں، جہاں سے نفع ملے۔

ارسلان کے مطابق گذشتہ پانچ ہفتوں میں وہ ٹریڈنگ کے اوقات میں اتنے زیادہ مصروف ہو چکے ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب وہ فارغ بیٹھے ہوں۔

لیکن جولائی سے پہلے حالات ایسے نہیں تھے۔ ان کے مطابق اگر وہ کسی کمپنی کے حصص میں سرمایہ کاری کے لیے کہتے بھی تھے تو کلائنٹس کی جانب سے بہت کم دلچسپی دکھائی دیتی تھی۔

اکثر کلائنٹس تو پہلے سے اپنے پاس موجود حصص کو گھبراہٹ میں فروخت بھی کر دیتے تھے کہ کہیں خراب ملکی معاشی حالات کی وجہ سے حصص کی قیمت میں مزید کمی سے نقصان نہ ہو جائے تاہم اب ایسی صورتحال نہیں اور اب فروخت کی بجائے خریداری کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

سٹاک مارکیٹ کے بروکر امین یوسف کہتے ہیں کہ بلاشبہ سٹاک مارکیٹ میں کافی تیزی ہے تاہم ابھی بھی سٹاک مارکیٹ میں حصص کی خرید و فروخت کا حجم زیادہ نہیں۔

’ابھی بھی کام کچھ شعبوں کی کمپنیوں میں ہو رہا ہے اوربہت سے دوسرے شعبوں کے حصص میں کوئی خاص کام نہیں ہو پا رہا۔‘

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ کئی ہفتوں سے تیزی کا رجحان جاری ہے اور جمعرات کے روز سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 49000 پوائنٹس کی سطح کو عبور کر گیا جو گذشتہ چھ سال کی مدت میں بلند ترین سطح ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ چند ہفتوں سے ہونے والی خریداری کی وجہ سے پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں صرف جولائی کے مہینے میں ڈالر ٹرم میں پندرہ فیصد کا بڑا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں صرف پانچ ہفتوں میں انڈیکس میں 8000 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ جون کے مہینے کے اختتام پر انڈیکس 41000 کی سطح پر ٹریڈ کر رہا تھا جو تین اگست 2023 کو 49000 کی سطح سے اوپر چلا گیا۔

صرف پانچ ہفتوں میں ہونے والا اس قدر اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب بظاہر پاکستان کی معیشت کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

اگرچہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط مل گئی اور سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی قرض کو ری شیڈول کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا تاہم اس کے باوجود معیشت کی مجموعی صورتحال خراب ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں سٹاک مارکیٹ میں ہونے والا تاریخی اضافہ مستقبل میں معیشت کی تیزی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ کون سے شعبے ہیں جو سٹاک مارکیٹ کو اوپر لے جا رہے ہیں؟

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں حالیہ ہفتوں میں ہونے والا اضافہ بنیادی طور پر دو تین شعبوں کی کمپنیوں کی حصص میں بہت زیادہ تجارت کی وجہ سے ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں حالیہ تیزی تمام شعبوں پر محیط نہیں۔ فاؤنڈیشن سیکورٹیز کے ہیڈ آف سیلز محمد رمیز کے مطابق حالیہ تیزی کو دیکھا جائے تو اس میں بنیادی طور پر تین شعبوں کی کمپنیوں کے حصص میں آنے والی تیزی نے بڑا حصہ ڈالا۔

ان کے مطابق بینکوں، آئل و گیس اور ریفائنری کے شعبے میں بہت زیادہ کام ہوا ہے اور اسی کے اثرات سٹاک مارکیٹ میں نظر آ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بینکوں کے حصص میں غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کار کمپنیوں کی جانب سے کافی زیادہ دلچسپی دکھائی دی گئی، جس کی وجہ سے ان کے حصص میں ہونے والے کام کی وجہ سے انڈیکس کافی اوپر گیا۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ممبر عادل غفار نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ بات صحیح ہے کہ صرف چند شعبوں کی کمپنیوں کے حصص میں کاروبار بہت زیادہ ہوا جس کی وجہ سے انڈیکس کافی بڑھا۔

انھوں نے کہا کہ صرف بینکوں کے حصص میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی وجہ سے اس نے انڈیکس کو اوپر لے جانے میں ستر فیصد سے زائد حصہ ڈالا جبکہ اسی طرح آئل و گیس کی کمپنیوں جیسا کہ پی ایس او، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل وغیرہ میں ہونے والے کام سے انڈیکس کافی اوپر گیا۔

انھوں نے کہا کہ سیمنٹ کے شعبے کی کمپنیوں کے حصص میں کاروبار گذشتہ ایک دو دن میں زیادہ دیکھنے میں آیا۔

بینک اور تیل و گیس کے شعبوں میں زیادہ کاروبار کیوں ہوا؟

بینکوں اور تیل و گیس کی کمپنیوں کے حصص میں زیادہ کاروبار ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے عادل غفار نے کہا اس کی وجہ بینکوں کی جانب سے زیادہ کمایا جانے والا نفع ہے۔

انھوں نے کہا کہ بینکوں نے ڈالر اور روپے دونوں صورتوں میں زیادہ کمایا۔ ان کے مطابق سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود زیادہ ہے جس کی وجہ سے بینکوں میں زیادہ پیسہ جا رہا ہے جو ان کے منافع میں اضافہ کر رہا ہے۔

اسی طرح تیل و گیس کے شعبے کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی اطلاعات آ رہی ہیں جیسا کہ حکومت نے ایک ساورن فنڈ (خودمختار فنڈ) بھی قائم کیا، جو تیل و گیس کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے جس نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے رجحان کو بڑھایا ہے۔

محمد رمیز کے مطابق گیس کمپنیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ گیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے حصص میں تیزی آئی ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے گیس شعبے میں گردشی قرضے کو ختم کرنے کے بارے میں بھی خبریں آ رہی ہیں جو اس شعبے کی کمپنیوں کے لیے اچھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مقامی ریفائنریوں کے لیے پالیسی کی بھی منظوری کا امکان ہے جس کے بعد ان میں سرمایہ کاری ہو پائے گی جس کے باعث ریفائنریوں کی حصص میں بھی زیادہ کاروبار ہوا ہے۔

صنعتی و تجارتی شعبے کے خراب حالات کے باوجود مارکیٹ میں تیزی کیوں؟

پاکستان میں صنعتی و تجارتی شعبے کی کمپنیوں کے مالی حالات گذشتہ ایک دو سال سے ابتری کا شکار رہے ہیں۔

ملک میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے بہت ساری کمپنیوں کی درآمدی شپمنٹ رک گئی، جس کی وجہ سے ان کا پیداواری عمل شدید متاثر ہوا۔ کمپنیوں کی جانب سے پیداواری پلانٹس بند کیے گئے تو اس کے ساتھ وہاں سے ملازمین کو بھی فارغ کیا گیا۔

ان میں سے بہت ساری کمپنیاں سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ ہیں اور ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً قانون کے تحت سٹاک مارکیٹ کو بھی مطلع کیا جا تا رہا کہ پلانٹس بند کر دیے گئے یا ان میں پیداواری عمل عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔

دوسری جانب ابھی بھی تیل و گیس کے شعبے کی کمپنیوں کی مالی صحت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی تاہم اس کے باوجود ان کے حصص میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔

محمد رمیز نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ صنعتی شعبے کے حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی تاہم اگر او جی ڈی سی ایل یا پی پی ایل جیسی کمپنیوں کے حصص میں خریداری ہو رہی ہے تو وہ ایک امید پر ہو رہی ہے کہ ان کمپنیوں کے حالات بہتر ہو جائیں گے جیسا کہ ان میں سرمایہ کاری کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اسی طرح ریفائنریوں کی پالیسی کی منظوری کے بعد ان میں سرمایہ کاری ہو گی تو لازمی طور پر وہ اپ گریڈ ہوں گی تو ان کے منافع میں اضافہ ہو گا اور اسی امید پر سرمایہ کار ان میں پیسہ لگا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تاہم بینکوں کی حالت اچھی ہے اور وہ اپنے حصص یافتگان کو منافع بھی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے حصص میں زیادہ تجارت ہوئی۔

معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق نے اس سلسلے میں بتایا کہ سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ بہت سی کمپنیوں کے حالات اچھے نہیں اور ان کے حصص کی قیمتیں بھی کم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایک ریفائنری کے حصص کی قیمت آج کم ہے اور ریفائنری پالیسی کی منظوری کے بعد ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو سرمایہ کار اسی امید پر سرمایہ کاری کریں گے کہ کل اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو انھیں نفع ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ جب پالیسی منظوری ہو جائے اور حصص کی قیمت چڑھ جائے تو پھر اس میں سرمایہ کاری کا عمل تھوڑا سست ہو جاتا ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں تیزی کیا پاکستان کی معیشت کی عکاس ہے؟

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ایک جانب تاریخی تیزی دیکھی گئی ہے تو دوسری جانب پاکستان کی رئیل اکانومی یعنی صنعتی و زرعی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہیں۔

ملک کی صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے تو دوسری جانب ملک کے صنعتی شعبے میں کوئی خاص سرمایہ کاری ریکارڈ نہیں کی گئی۔

سٹاک مارکیٹ میں ڈھائی لاکھ سے پونے تین لاکھ تک چھوٹے بڑے سرمایہ کار کام کرتے ہیں، کیا اس میں آنے والی تیزی پاکستان کی معیشت کی ایک بڑے کینوس پر عکاسی کرتی ہے؟

اس کے بارے میں ثنا توفیق نے کہا سٹاک مارکیٹ کو ایک ’لیڈنگ انڈیکٹر‘ سمجھا جاتا ہے کہ ایسا ہونے والا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک ارب ڈالر آئے اور اس کے بعد چن دنوں میں سعودی عرب، چین اور عرب امارات کی جانب پیسے آ گئے جس نے ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھایا۔

اس کے بعد سرمایہ کاری کے لیے ایک ہائی پاور کونسل بنائی گئی۔ اس تمام پیشرفت پر سٹاک مارکیٹ نے مثبت رد عمل دیا اور نشاندہی کی کہ ملکی معیشت کے حالات بہتر ہونے والے ہیں اور ایسا ہونے والا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ ایک نشاندہی کرتی ہے کہ رئیل اکانومی میں بھی آنے والے دنوں میں بہتری آ سکتی ہے۔