اہم خبریں

پاکستان میں نگراں حکومت کا تصور کب آیا اور اب اسے ’بااختیار‘ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

رواں ہفتے 26 جولائی کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں 54 ترامیم کثرت رائے سے منظور کی گئیں جس کے تحت نگراں حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگرامز سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے لے سکے گی۔

اس بِل کی منظوری ایسے وقت میں ہوئی جب سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی مُدت پوری ہونے میں محض چند دِن باقی ہیں۔

نگراں حکومت کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کی بحث نے اس لیے بھی طول پکڑا کیونکہ اس بل کی منظوری سے چند روز قبل چند حلقوں کی جانب سے یہ چہ میگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ سیٹ اپ میں نگراں وزیرِ اعظم ہو سکتے ہیں۔

ان چہ میگوئیوں کے بیچ پارلیمان میں انتخابات (ترمیمی) بِل 2023 سامنے آ گیا اور مختلف حلقوں میں یہ ابہام اور اندیشہ بڑھتا محسوس ہوا کہ آیا انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے اور نگراں حکومت کا دورانیہ طویل ہو جائے گا۔

الیکشن ایکٹ میں منظور ہونے والی ان ترامیم پر حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ تحریک انصاف نے اس کی مخالفت کی۔

سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نگراں حکومت کے دائرہ اختیار میں توسیع کے حوالے سے جو ترامیم کی گئی ہیں وہ کتنی ضروری تھیں اور اُن پر تنقید کیوں سامنے آئی؟

نگراں حکومت کے اختیارات: ترامیم پر تنقید اور تحفظات کیوں؟

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’گذشتہ انتخابات کے حوالے سے تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 میں ہونے والی حالیہ ترامیم سے آئندہ الیکشن کے متنازع ہونے کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ الیکشن کے متنازع ہونے کی وجوہات اور ہوتی ہیں جن میں ریاست کا کردار ہوتا ہے۔‘

مدثر کی رائے میں سیکشن 230 کو انتخابات کے متنازع ہونے کی وجہ تو بتائی جا سکتی ہے اس سے الیکشن کی قانونی حیثیت پر فرق نہیں پڑے گا۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہماری سیاسی جماعتوں میں اعتماد کا فقدان ہے: نہ ریاست کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا ریاست پر۔ الیکشن ایکٹ میں ترامیم پر چند حلقوں کی طرف سے تنقید اور تحفظات اسی اعتماد کے فقدان کی نشاندہی ہیں۔‘

ان ترامیم کے بعد الیکشن کے بروقت انعقاد پر موجود ابہام پر بات کرتے ہوئے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’جب تک انتخابات منعقد نہیں ہو جاتے یہ ابہام موجود رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 دن میں الیکشن نہ ہو سکے جو کہ غیرآئینی ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے حوالے سے آئین کی خلاف ورزی کی گئی، جسے دیکھتے ہوئے چند حلقوں کا گمان ہے کہ اسی نوعیت کے غیرآئینی اقدام کا احتمال اب بھی موجود ہے۔ اس ابہام کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب اسحاق ڈار کا بطور نگراں وزیرِ اعظم نام سامنے آیا، جس سے اس نوعیت کی چہ میگوئیوں کو مزید تقویت ملی۔‘

تو پھر نگراں حکومت کو مزید بااختیار بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’جہاں تک نگراں حکومت کے اختیارات کا تعلق ہے تو اِس میں ایک توازن ہونا چاہیے۔ نگراں حکومت کے پاس ایسے اختیارات ہونے چاہییں کہ وہ طویل المدت فیصلے کر سکیں یا ایسے فیصلے جو نئی آنے والے منتخب حکومت کو بھگتنے پڑیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے اختیارات کے حوالے سے جو ترمیم کی گئی اس میں انھیں توازن نظر آتا ہے کیونکہ یہ ترمیم نگراں حکومت کو اس قابل بنائے گی کہ ایسے معاہدے جو سابقہ منتخب حکومت کر چکی ہے ان پر اہم اور بروقت فیصلے لے سکے۔

احمد بلال محبوب کے خیال میں ’نگراں حکومت نے تین ماہ کے لیے آنا ہے، تین ماہ میں ایسی قیامت نہیں کھڑی ہو جانی تھی کہ اختیارات کو وسیع کیا جائے۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مجھے خود بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں کیا گیا۔‘

اس معاملے پر کنور دلشاد مدثر رضوی کے نقطہ نظر کو سپورٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نگراں حکومتوں کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ فقط تین، چار ماہ کے لیے ہیں اور جن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جاری معاہدوں میں صرف اس لیے تعطل نہ آئے کہ ملک میں منتخب وزیراعظم موجود نہیں۔یہ عارضی بندوبست ہے اور اس الیکشن کے بعد آنے والے الیکشن میں یہ شق خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔‘

اس تمام تر بحث کے درمیان پاکستان میں اس وقت عام حلقوں کی جانب سے یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر ملک میں نگراں حکومت کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے، کیونکہ دیگر بہت سے جمہوریتوں میں اس نوعیت کا تصور موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں نگراں حکومت کے قیام کا تصور کب آیا؟

پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ 1970کے الیکشن سے شروع ہوتی ہے جس کے بعد سے ملک میں اب تک 11 عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ جب سنہ 1973 کا آئین وجود میں آیا تو اُس میں نگراں حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوئی ضابطہ موجود نہیں تھا۔ چنانچہ 1973 کا آئین آنے کے بعد سنہ 1977کے الیکشن ہوں یا غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے سنہ 1985 کے الیکشن یا پھر غلام اسحق خان کی صدارت میں ہونے والے سنہ 1988کے الیکشن، یہ تمام انتخابات کسی نگراں حکومت کے نیچے نہیں ہوئے۔

درحقیقت سنہ 1990کے الیکشن سے قبل پہلی مرتبہ پاکستان میں نگراں حکومت کی تشکیل کی گئی، جس کی نگرانی میں الیکشن ہوا اور یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں نگراں حکومتوں کی تاریخ کا آغاز ہوا۔

سنہ 1990 کے بعد سے سنہ 2018 تک ہونے والے تمام تر انتخابات نگراں حکومتوں کی نگرانی میں ہوئے ماسوائے سنہ 2002کے الیکشن کے جو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے اور اس کے لیے الگ سے سیٹ اَپ تشکیل نہیں پایا تھا۔

پاکستانی سیاست کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق سنہ 1977کے انتخابات کے فوری بعد نگراں حکومت کی تشکیل کا تصور پہلی مرتبہ پاکستان میں بھرا تھا۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں ’1977 کے الیکشن اُس وقت کی حکومت ہی کی نگرانی میں ہوئے تھے مگر اس کے جو نتائج نکلے تو یہ خیال پیدا ہوا کہ الیکشن کے انعقاد کے لیے نگراں سیٹ اپ ہونا چاہیے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔‘