اہم خبریں

پاکستان میں عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے اور فحش حرکات کے واقعات میں اضافہ کیوں؟

’میں پارک میں تھی۔ ایک مرد میرے پیچھے چلنے لگا۔ وہ میرے قریب آنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

’میری چھٹی حس نے خبردار کیا کہ کچھ غلط ہے۔ میں وہاں سے بھاگی اور فوری طور پر پارکنگ میں موجود اپنی کار میں بیٹھ گئی اور دروازے لاک کر دیے۔ میں نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی۔‘

’اس دوران وہ گاڑی کی کھڑکی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور میرے سامنے مشت زنی کرنے لگا۔ وہ کسی جنونی کی طرح میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس دوران میں نے کیمرہ نکال کر اس کی ویڈیو بنائی تو اس نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔‘

’میں وہاں سے نکلی لیکن اس واقعے نے مجھے شدید ذہنی تکلیف پہنچائی ہے۔‘

یہ واقعہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مرکز میں موجود فاطمہ جناح پارک میں پیش آیا جسے متاثرہ خاتون نے بیان کیا۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق اس واقعے پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ملزم کی تلاش کی جا رہی ہے۔

چند ہی دن قبل کراچی میں ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آیا جس کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکا خاتون کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس ویڈیومیں گلی میں ملزم موٹر سائیکل کے پاس کھڑا ہے جب ایک باحجاب لڑکی گلی سے گزرتی ہے۔ ملزم گلے لگانے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کی مزاحمت پر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو جاتا ہے۔ ملزم نے شناخت چھپانے کے لیے ماسک بھی پہنا ہوا تھا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ہراساں کرنے والے لڑکے کی موٹر سائیکل پر نمبر پلیٹ بھی نہیں تھی۔ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

پاکستان میں آئے روز عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند دنوں میں دو ایسے الگ الگ واقعات سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے ہیں جن میں متاثرہ لڑکیوں کے ساتھ ہراساں کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کا زور و شور سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

آئے دن ایسے واقعات کا سامنے آنا ان سوالات کو جنم دیتا ہے کہ ہمارے ہاں کیا اس حوالے سے قوانین موجود نہیں اور اگر ہیں تو ان کا سلسلہ رک کیوں نہیں پا رہا۔

عوامی مقامات پر ہراساں کرنے والوں کو کیا سزا ملتی ہے؟

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی نے اسلام آباد کے واقعے سے متعلق بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ ’پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 294 کے تحت جو مقدمہ درج کیا ہے وہ پبلک مقامات پر فحش حرکات کرنا یا فحش گیت گانے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ناقابل دست اندازی پولیس جرم ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو تین ماہ قید یا جرمانہ ہو سکتا ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایسا واقعہ ہونے کی صورت میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی بلکہ اس کی کریمننل کمپلینٹ ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس مقدمے میں دفعہ 509 کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ کسی عورت کے سامنے کوئی ایسا لفظ یا عمل ہو جس سے عورت کی تضیحک کا پہلو نکلتا ہو۔‘

’یہ بھی ناقابل دست اندازی پولیس جرم ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس کی سزا ایک سال قید یا جرمانہ اور یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ ’جس تیزی سے پاکستانی معاشرے میں بگاڑ آ رہا ہے اور لوگوں میں فرسٹریشن بڑھ رہی ہے تو ایسے واقعات روزانہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قوانین پر نظرثانی کرے اور سزاؤں میں اضافے کے لیے مناسب قانون سازی کرے۔‘

عوامی مقامات پر ایسے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا سلسلہ نیا نہیں تاہم سوشل میڈیا کی ذریعے یہ واقعات اب زیادہ تعداد میں سامنے آنے لگے ہیں۔

تو آخر کیا وجوہات ہیں کہ ان واقعات کا سلسلہ تھمنے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی نے ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہرہ سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کے مطابق خواتین کو ہراساں کرنے والے اور اپنے جنسی اعضا کی نمائش کرنے والے ایک ذہنی بیماری ‘ایگزیبیشنزم‘ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

’ایسے لوگ عوامی مقامات میں اپنے اعضا برہنہ کرتے ہیں اور خواتین کو یہ سمجھانے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے لڑکے ذہنی بیماری کا شکار ہیں جس میں لڑکی کا کوئی قصور نہیں۔‘

ڈاکٹر طاہرہ کے مطابق ’ہر عمر کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ نو عمری میں انسانی جسم کے اندر فطری ضروریات پنپنا شروع ہوتی ہی اور وقت پر فطری تقاضوں کا پورا نہ ہونا کئی الجھنوں کا سبب بن جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر طاہرہ نے بتایا کہ ’ہمارے معاشرے میں شادیوں کی اوسط عمر 30 سال سے بھی بڑھ گئی ہے۔ انسانی جسم کی ضروریات اندر ہی اندر بہت ساری فرسٹریشن پیدا کر رہی ہیں اور اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے جو ان کے ذہن میں اس فطری ضرورت کو اور بھی اجاگر کر دیتا ہے۔‘

’چاہے ڈرامے ہوں یا فلمیں، سوشل میڈیا سے لے کر انٹرٹینمنٹ تک ہر جگہ تعلقات یا ریلیشن شپ دکھائے جاتے ہیں تو کئی نوجوان کنٹرول کھو دیتے ہیں۔‘

ایک اور وجہ پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات صرف ’مردانگی جتانے کے لیے بھی لڑکے راہ گزرتی لڑکیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔‘

’ایک اور چیز جو سامنے آتی ہے کہ صرف تجسس اور خوشی کے لیے کہ اس کو مردانگی سے منسلک کر دیا جاتا ہے کہ لڑکے آپس میں کہتے ہیں کہ تم یہ کرو گے تو ہم جانیں گے کہ تم مرد ہو۔‘

تو آخر اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرہ نے بتایا کہ ’بچوں کو مناسب عمر میں مناسب طریقے سے سیکس ایجوکیشن دی جائے۔ اگر ہم نے ان کو مناسب طریقے سے بتایا ہو گا تو نوجوان ہوتے بچے اپنے آپ کو ذیادہ بہتر مینیج کر سکتے ہیں۔‘

’اگر آپ کا بچہ بار بار بتائے کہ میری شادی کروا دیں تو بجائے اس کے کہ اس کو کہا جائے کہ ابھی تمھاری پڑھنے کی یا کھیلنے کودنے کی عمر ہے، اس کی بات سنی جائے اور پھر ان کو آرام سے سمجھایا جائے۔‘

ڈاکٹر طاہرہ کے مطابق ’جو مواد بچے دیکھتے ہیں، اس پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘

’موبائل یا سکرین دے کر ہم سجھتے ہیں کہ بچے بہت سی چیزیں خود سمجھ لیں گے لیکن جتنا (جنس یا تعلقات سے متعلق) مواد دیکھیں گے اس تجربے سے وہ خود گزرنا چاہیں گے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جو کچھ اس وقت معاشرے میں ہو رہا ہے اس میں لڑکی کا قصور نہیں۔‘

’اگر کوئی اور شخص ایسا کر رہا ہے تو غلط وہ ہے، متاثرہ شخص نہیں۔ اگر کوئی عورت اپنے کام سے جا رہی ہے تو وہ غلط نہیں بلکہ سامنے آ کر اس طرح ہراساں کرنے والے میں مسئلہ ہے۔ اور یہ بات لڑکیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی خود اعتمادی متاثر نہ ہو۔‘