پاکستان میں عام انتخابات سے جڑا ابہام جمعرات کو اس وقت کم ہوا جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوال اب تک باقی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت پہلے نو اگست کو ہی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہو گیا۔
ایسے میں ’الیکشن کب ہوں گے‘ کا سوال پاکستان میں اہم ہوتا چلا گیا۔
جمعرات کو ایک اعلامیے میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اس نے ’حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی۔‘
الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد ’انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔‘
واضح رہے کہ رواں سال تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات نہیں ہو سکے اور اب یہ انتخابات بھی دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
آئین کیا کہتا ہے؟
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52 میں قومی اسمبلی کی مدت کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔ اس میں درج ہے کے قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔
یہ مدت کسی حکومت کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے باعث ہوتا ہے اور اگر اسے مدت سے پہلے تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔
آئینی ماہر اور پاکستان میں الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہییں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘
مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ‘قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً 10 لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے۔‘
انتخابات میں تاخیر کی وجہ؟
اس التوا کی سرکاری وجہ سابقہ حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری تھی جو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دی گئی۔
اس منظوری کے بعد سابقہ حکومت کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے تازہ تخمینے کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔
اس وقت وزیراعظم شہباز شریف نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے حکومتی موقف کو غلط قرار دیا۔ اس وقت تحریک انصاف رہنما حماد اظہر نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بھی سی سی آئی کا رکن رہا ہوں اور یہ معاملہ پہلے بھی اس کونسل کے سامنے آیا جس میں وزیر قانون نے بتایا تھا کہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن میں التوا نہیں ہو سکتا۔‘
حماد اظہر کا موقف تھا کہ ’جس طرح نگران وزرائے اعلی کو بٹھا کر مردم شماری کی منظوری دی گئی، اس طرح تو کوئی بھی حکومت آخری چار پانچ دنوں میں سی سی آئی کا اجلاس بلائے گی اور کہے گی کہ نئی مردم شماری ہو گی اور الیکشن آگے کروا دے گی۔‘
اگست میں صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھی لکھا گیا۔
اس خط میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔
صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کے لیے مدعو کیا تاہم ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جوابی خط میں مطلع کیا گیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔
خیال رہے کہ ماضی میں غیرمعمولی حالات کو وجہ بتا کر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا جبکہ دوسری بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔‘
تاہم الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔
تاہم یہ التوا کس صورت میں کیا جا سکتا ہے اس بارے میں قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس حوالے سے آئین میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا ہے اور اس حوالے اوپر دی گئی ماضی کی مثالوں کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کر چکا ہے۔
ماہر قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں ’مینڈیٹری ان نیچر‘ اور ’ڈائریکٹری ان نیچر‘ قوانین میں فرق ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 یہ کہتی ہے کہ آئین میں اگر کسی کام کا وقت مقرر ہو اور وہ اس وقت پر نہ ہو سکے تو وہ کام خراب نہیں ہوتا۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘
’اگر قانون کے تحت کسی بھی کام کا وقت مقرر ہو اگر آپ وہ کام اتنے دنوں میں نہیں کریں تو وہ غیر قانونی ہو گا، غلط ہو گا اور اسے اگر نہ کیا تو اس میں سزا ملے گی تو اس کام کو اتنے دنوں میں کرنا ضروری ہوتا ہے تو وہ مینڈیٹری ان نیچر ہوتا ہے۔‘
’رولز کے مطابق اگر کسی کام میں یہ بتایا جائے کہ آپ کو اتنے دنوں میں یہ کام کرنا ہے لیکن اس کی تاخیر میں سزا یا جرمانے کا ذکر نہ ہو تو وہ ڈائریکٹری ان نیچر ہوتا ہے تو 90 روز میں انتخابات ڈائریکٹری اِن نیچر ہے جس میں وہ کام ضرورتاً آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور اس میں قباحت نہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کام میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن کوشش کریں کہ کم سے کم وقت آگے جائے۔۔۔ گویا انھوں نے بات طے کر دی۔‘
بیرسٹر ظفر اللہ کے مطابق ’پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔‘