اہم خبریں

پاکستان میں اے آئی ماڈلز کی مدد سے ٹاک شو: کیا اے آئی اینکرز مستقبل میں جیتے جاگتے اینکرز کی جگہ لے لیں گے؟

مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنے اینکرز! جی ہاں یہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک ایسی جدّت ہے جس کی مدد سے ہو بہو آپ کی چلتی پھرتی تصویر تیار کی جا سکتی ہے جو عین آپ ہی کی آواز میں بات بھی کرے گی۔ یعنی کسی انسان کا ایسا کمپیوٹر ماڈل بنایا جا سکتا ہے جس کی شکل اور آواز بالکل حقیقی انسان جیسی ہو گی۔

یہی نہیں، اس نے کیا بات کرنی ہے، کس بات کا کیا جواب دینا ہے اور کتنا جواب دینا ہے، اس کا اختیار بھی اس کے اپنے پاس ہو گا۔ اس کے لیے وہ معلومات خود اکٹھی کرے گا اور وہ بھی صرف چند سیکنڈز میں۔

آپ کو صرف اسے موضوع دینا ہے وہ فوراً اس پر بولنا شروع کر دے گا۔ آپ کے سوال اور اس کے جواب شروع کرنے کے درمیان چند سیکنڈز یا اس سے بھی کم کا جو وقفہ ہو گا اسی میں وہ اس موضوع کے حوالے سے معلومات جمع کر لے گا۔

معلومات کے وسیع ذخائر کمپیوٹر کی زندگی میں پہلے ہی موجود ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان معلومات تک رسائی کیسے حاصل کرنی ہے اور اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے اس کے لیے کمپیوٹر کو تربیت دی جا رہی ہے۔

تربیت کا یہ عمل جس کی مدد سے دیگر بے شمار چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی حقیقی شکل اور آواز پر مبنی کمپیوٹر ماڈلز بنائے اور چلائے جا سکتے ہیں، اسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی کہا جا رہا ہے۔

یعنی ایسا عمل جس میں کمپیوٹر کو انسانی ذہن کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کمپیوٹر کو اس طرح ٹریننگ دے دی جائے کہ وہ انسانی ذہن کی نقل کرے۔ جب ایسا ہو جائے تو پھر انسانی ذہن کی طرح اے آئی کے لیے بھی امکانات لامحدود ہیں۔

پاکستان میں ایک انفوٹینمنٹ چینل ’ڈسکور پاکستان‘ نے حال ہی میں ٹی وی پر ایک ٹاک شو کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس میں اینکر اور مہمان تمام اے آئی ماڈلز ہیں یعنی حقیقی انسان کی کمپیوٹر سے بنی شکل اور آواز ہیں۔

اس پروگرام میں اینکر کا کام ڈسکور پاکستان کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر ڈاکٹر قیصر رفیق کے اے آئی ماڈل نے کیا ہے۔ اے آئی اینکر کی شکل اور آواز بالکل ڈاکٹر قیصر رفیق جیسی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ٹی وی نیوز یا انفوٹینمنٹ کی دنیا میں ایسا اے آئی اینکر پاکستان میں پہلے کبھی نہیں آیا۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ اس نوعیت کا ٹی وی شو دنیا میں پہلے کبھی نہیں کیا گیا جس میں تمام کردار اے آئی ماڈلز ہوں۔

’دنیا میں پہلے چند ممالک نے اے آئی اینکرز متعارف کروائے لیکن وہ تمام تخیلاتی یا تصوراتی تھے۔ ہمارا ماڈل حقیقی انسان پر مبنی ہے جو کہ ایک منفرد بات ہے۔‘

ڈاکٹر قیصر رفیق کہتے ہیں کہ اس سے قبل انڈیا اور چائنا نے جو اے آئی اینکرز متعارف کروائے وہ تخیلاتی تھے یعنی ان کی شکل کا کوئی حقیقی انسان موجود نہیں۔ ان دونوں ماڈلز کے چہرے کے پٹھوں کی جو حرکات ہیں وہ 50 سے زیادہ نہیں تھیں۔

’ہمارا اے آئی اینکر میرا یعنی حقیقی انسان کا ماڈل ہے اور اس میں 700 سے زیادہ چہرے اور جسم کے پٹھوں کی حرکات ڈالی گئی ہیں۔‘

یہ اے آئی ماڈلز انھوں نے کیسے بنائے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر رفیق نے بتایا کہ دنیا میں پہلے آنے والے اے آئی اینکرز وہ دیکھ چکے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ کچھ مختلف بنائیں۔

اس کے لیے انھوں نے امریکہ میں اے آئی ویڈیوز بنانے والی کمپنیوں پر تحقیق کی جس میں سے انھوں نے ایک ایسی کمپنی کا انتخاب کیا جس نے اپنا کام معمولی سے منافع سے شروع کیا تھا لیکن اب ان کا سالانہ منافع تین ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔

’وہ ہمارے ٹیکنالوجی پارٹنر ہیں۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ اگر آپ مختلف کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کریں کہ آپ میں سے کوئی اپنا حقیقی اے آئی ماڈل بنوائے۔ تو میں نے خود کو اس کے لیے پیش کیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے اپنے ٹی وی سٹوڈیو میں انھوں نے اینکر کے اوتار میں مختلف زاویوں سے کئی گھنٹوں پر مبنی فلمنگ کروائی۔ جسے امریکہ میں ان کے ٹیکنالوجی پارٹنر کو بھیجا گیا اور اس کی مدد سے انھوں نے ان کا اے آئی ماڈل تیار کیا۔

ماڈل تیار ہونے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی آواز کی بھی کلوننگ کروائیں گے یعنی ان کے اے آئی ماڈل جس آواز میں بات کر رہے ہوں گے وہ بھی ان کی حقیقی آواز ہو گی۔

’اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں 19، 20 کا فرق تو سکتا ہے، زیادہ نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ان کا اے آئی اینکر سو سے زیادہ زبانیں بول سکتا ہے۔

اے آئی ماڈلز نے ٹاک شو کیسے کیا؟

ڈسکور پاکستان چینل نے یوٹیوب پر حال میں جو اے آئی ٹاک شو پوسٹ کیا ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکڑ قیصر رفیق کا اے آئی ماڈل اس پروگرام کا میزبان ہے جو کچھ مہمانوں اور ماہرین سے بات کر رہا ہے۔ یہ مہمان اور ماہرین بھی اے آئی ماڈلز ہیں۔

وہ انگریزی میں بات کر رہے ہیں۔ پہلے اے آئی اینکر ایک اے آئی مہمان کو اسلام آباد سے لائن پر لیتا ہے جو کہ بڑی بڑی چند خبروں کا خلاصہ دیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ دیگر مہمانوں سے بات کرتے ہیں جو پاکستان میں سیاحت کے مواقع کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

ان کا چینل زیادہ تر پاکستان میں سیاحت کے فروغ پر کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر رفیق کہتے ہیں کہ ٹاک شو پر جن اے آئی ماڈلز نے سوال جواب کیے ان کو معلومات مختلف ذریعوں سے دی گئیں۔

’ہمارے اے آئی ماڈلز تک مکمل آزادانہ رسائی ہمارے پاس موجود ہے۔ ان کو معلومات ہم مختلف ذریعوں سے دے سکتے ہیں جن میں چیت جی پی ٹی فور اور گوگل وغیرہ شامل ہیں۔ ان ذرائع کو اے آئی ماڈلز کے ساتھ منسلک کرنے کی صلاحیت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔‘

اسی طرح معلومات تک رسائی کے ذریعے اپنے ماڈلز کو تربیت دے کر انھوں نے اپنا ٹاک شو ترتیب دیا۔

اے آئی ماڈلز ان ذرائع سے معلومات کیسے لے سکتے ہیں؟

چیٹ جی پی ٹی فور ایک ایسا اے آئی ٹول یا ذریعہ ہے جس میں نہ صرف آپ خود ایک بوٹ یا ربوٹ سے بات کر سکتے ہیں اور وہ آپ سے گفتگو کرے ہوئے گوگل کی طرح آپ کو مطلوبہ معلومات سیکنڈز میں فراہم کر دیتا ہے۔

وہ دوسرے بہت سے کام بھی آپ کے کہنے پر کر سکتا ہے جیسا کہ مضمون لکھنا، شاعری لکھنا، تصاویر بنانا وغیرہ۔ آپ نے صرف اس کو بتایا ہے کہ آپ کو کیا چاہیے۔

خیال رہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی ویب سائٹس اور موبائل ایپلیکیشنز بن چکی ہیں جو اے آئی کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو تصاویر بنا کر دے سکتی ہیں، سیکنڈز میں آپ کو درکار ویڈیوز ڈھونڈ کر ایک نئی ویڈیو تیار کر کے آپ کو دے سکتی ہیں، وہ آپ کے لیے ویڈیو گیمز تیار کر سکتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

ایسے ٹولز کی مدد سے آپ اپنے ماڈلز کو اپنے مطلوبہ پروگرام کے مطابق تربیت دے سکتے ہیں کہ انھیں کس موضوع پر معلومات لینی ہیں اور یہ معلومات وہ آپ کو کس سوال کے جواب میں دیں گے۔

ڈاکٹر قیصر رفیق کہتے ہیں کہ وہ اپنے ٹاک شو کے لیے اپنے اے آئی ماڈلز کو اسی طرح معلومات تک رسائی کے ذرائع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’ان معلومات پر مبنی اے آئی ماڈلز تیار کر لیتے ہیں جن کو بعد میں ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے پروگرام کی شکل دی جاتی ہے۔‘

تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح آزادانہ معلومات تک رسائی سے اے آئی ماڈلز کہیں بھی کچھ بھی بولنے میں بھی آزاد ہے۔ کیا ہو اگر وہ غلط معلومات دے دے کیوں وہ معلومات کے ذرائع تو نہیں بتاتا؟

’ابھی پاکستان میں اتنی صحافتی آزادی نہیں‘

ڈسکور پاکستان کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق کہتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ اپنے اے آئی ماڈلز کو تربیت دے رہے ہیں کہ انھیں کیا بولنا ہے اور کیا نہیں۔

’پاکستان میں ابھی اتنی صحافتی آزادی نہیں کہ آپ کچھ بھی بول دیں۔ تو ہم اپنے آے آئی ماڈلز کو اسی کی تربیت دے رہے ہیں کہ ان[یں کون سے ایسے الفاظ ہیں جو نہیں بولنے اور کیا نہیں کہنا۔‘

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اس میں زیادہ وقت نہیں لگے اور بہت جلد وہ ایسے ماڈلز کو ٹریننگ دے لیں گے جو خود بخود خبریں اٹھائیں گے اور ان میں سے جو الفاظ نکالنے ہیں، نکال دیں گے۔

’جب یہ تربیت مکمل ہو جائے گی تو اے آئی اینکر خود سے دن کی بڑی خبریں اٹھائے گا، ان مِں سے غیر موزوں الفاظ نکال دے۔ وہ خود خبر کے لیے موزوں تصاویر اٹھائے گا، خود ویڈیوز اٹھائے گا اور خود ہی تجزیہ بھی دے گا۔‘

ڈاکٹر قیصر رفیق کے خیال میں آئندہ ایک برس کے اندر اندر دنیا اے آئی کے استعمال میں اس سطح تک پہنچ جائے گی جہاں یہ سب کرنا ممکن ہو گا۔

تو کیا اے آئی اینکر مستقبل میں انسانی اینکرز کی جگہ لے لے گا؟

دنیا میں لوگ اے آئی کو لے کر بہت پرجوش بھی ہیں اور خوفزدہ بھی۔ پرجوش اس لیے کہ اے آئی کی مدد سے بہت سے انسانی مسائل کا حل اور آسانیاں پیدا کی جا سکیں گی۔ لیکن پریشان اس لیے ہیں کہ اس کے غلط استعمال سے بہت بڑے نقصانات ہو سکتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اے آئی لوگوں کی نوکریاں چھین لے گا یعنی وہی کام جو انسان کرتے ہیں جب ان کے ماڈلز یا مشینیں کرنے لگیں گی تو انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی؟

ڈسکور پاکستان کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر دنیا میں جو بحث ہو رہی ہے وہ درست ہے تاہم ان کے خیال میں آے آئی کبھی انسان کا نعمل بدل نہیں بن پائے گا۔

‘یہ ہمیشہ انسان کے کنٹرول میں رہے گا بلکہ انسان اس کو چلائے اور اس سے بڑے بڑے فائدہ مند کام لے گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس کے غلط استعمال کر روکا جائے۔’ وہ سمجھتے ہیں کہ اے آئی جہاں ایک نوکری چھینے گا وہیں چار نوکریاں دے گا بھی۔‘

’ہم نے چار لوگوں کو نوکریاں دیں اور بڑا خرچ بچایا‘

سی ای او ڈسکور پاکستان ڈاکٹر قیصر رفیق نے بتایا کہ جب انھوں نے پورا ٹاک شو ہی اے آئی ماڈلز کی مدد سے کیا تو انھوں نے اپنا بہت بڑا خرچ بچایا۔ وہ کہتے ہیں انھوں نے 30 کے لگ بھگ ایسے مہمان یا ماہرین کے اے آئی ماڈلز بنا رکھے ہیں جن کی انھیں اپنے پروگراموں میں ضرورت ہو گی۔

’اس طرح ہمیں جو بڑی بڑی رقم خرچ کر کے باہر سے جو ماہرین کو بلانا پڑتا تھا یا ان کو فون پر مدعو کرنا ہوتا تھا وہ خرچہ ہمارا بچ گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اے آئی ٹاک شو کیوں کہ سٹوڈیو کے بجائے کمپیوٹر پر بنتا ہے تو اس کام کے لیے انھوں نے کمپیوٹر کے ماہرین کو نوکری دی۔

’تو جہاں ہم نے کچھ لوگوں کو اے آئی ماڈلز سے بدل کر خرچ بچایا وہیں اے آئی کی وجہ سے چار نوکریاں اور بھی بن گئیں اور چار لوگوں کو روزگار مل گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں چند سیاحت کے سفیروں کے اے آئی ماڈلز تیار کرنا چاہتے ہیں جو حقیقی انسانوں پر بنے ہوں گے۔ ’یہ لوگ انہی علاقوں سے ہوں گے۔ ہم ان کو ایک دفعہ پیسے ادا کر کے ان کا اے آئی ماڈل بنوا لیں گے اور پھر ہمیں ان کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں ہم ایسے لوگوں کے ساتھ جو معاہدے کر رہیں ہیں اس میں ہم نے یہ شق بھی رکھی ہے کہ ان کے اے ماڈلز اشتہارات کی مد میں جو کمائی کریں گے اس کا 25 فیصد حصہ وہ ان حقیقی انسانوں کو ادا کرتے رہیں گے جن کے وہ ماڈلز ہیں۔