اہم خبریں

پاکستان میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کب ہوں گے؟

پاکستان میں سب کی نظریں آنے والے الیکشن پر ہیں لیکن اس کے متعلق ابھی بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکے گی یا نہیں اور یہ کہ الیکشن کب ہوں گے؟

وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں سیالکوٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’آج ہماری حکومت ہے جو اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کر لے گی اور مدت مکمل ہونے سے پہلے ہم انشااللہ جائیں گے اور نئی نگراں حکومت آئے گی۔‘

اس اعلان کے بعد بھی ابہام ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ اسمبلی تحلیل پہلے ہو یا بعد اس سے کیا فرق پڑے گا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کافی عرصہ پہلے تحلیل ہو گئیں تھیں ان دو صوبوں میں تو ابھی تک الیکشن نہیں ہو سکے اور نگران سیٹ اپ قائم ہے اگر وفاق میں بھی الیکشن وقت پر نہ ہو سکے تو اس تناظر میں آئین کیا رہنمائی کرتا ہے؟

ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے بی بی سی اردو نے آئینی ماہر اور پاکستان میں الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی سے بات کی۔

یاد رہے کہ موجودہ اسمبلی کی ابتدا 13 اگست 2018 میں ہوئی تھی لہٰذا اس کی پانچ سال کی مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے ختم ہو جائے گی۔

الیکشن 60 یا 90 دن کے بعد ہوں گے؟

مدثر رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دو صورتیں ہیں اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہیں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر یکم جولائی کو اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 29 جون کو تحلیل ہو جاتی ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن کروانا ہوں گے۔‘

جب مدثر رضوی سے ہم نے پوچھا کہ مختلف دورانیے مختص کرنے کا کیا مقصد ہے تو انھوں نے بتایا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو پہلے سے پتا ہوتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے تیاری کر رکھی ہوتی ہے لیکن اگر ایک دم سے یہ فیصلہ سامنے آتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوتا لہذٰا انھیں مزید وقت درکار ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’پرانی انتخابات کمیٹیوں میں بھی یہ بات زیر بحث آئی تھی کہ 60 دن اور 90 دن شاید انتخابات کی تیاری کے لیے ناکافی ہیں ایک یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 120 دن کی مدت رکھنی چاہیے لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ شاید اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ الیکشن کروانے میں کتنا وقت چاہیے ہوتا ہے کیونکہ جتنا بڑا ہمارا ملک ہے یہاں ایک الیکشن نہیں ہوتا ایک دن میں ’قومی اور صوبائی حلقے ملا کر 800 یا 850 الیکشن ہوتے ہیں جس کے لیے تقریباً دس لاکھ کے قریب عملہ چاہیے ہوتا ہے۔‘

الیکشن کا اعلان کون کرے گا؟

مدثر رضوی نے بتایا کہ الیکشن کے قانون میں حالیہ ترامیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا۔

اس سے پہلے صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرتے تھے اور الیکشن کمیشن اس تاریخ کے مطابق انتخابی شیڈول بتاتا تھا۔

اگر وقت پر الیکشن نہ ہو پائے تو کیا ہو گا؟

لوگوں میں یہ خدشہ بھی پایا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن 60 یا 90 دنوں میں الیکشن کروانے میں ناکام رہا تو ایسی صورت میں کیا ہو گا؟

مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’کسی غیر معمولی صورتحال کی صورت میں بات سمجھ آتی ہے آئین نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ 60 یا 90 دن تک الیکشن ہو جانے چاہیں۔ لیکن آئین بنانے والوں نے ایک گنجائش رکھی ہے۔ آرٹیکل 254 کے تحت جو وقت آئین میں درج ہے اگر اس کے مطابق کوئی کام نہ ہو اور بعد میں ہو تو وہ غیر قانونی نہیں ہو گا‘۔

انھوں نے بتایا کہ ’مثال کے طور پر اگر 90 دن میں الیکشن نہیں ہوتا اور اس کے بجائے کسی وجہ سے انتخابات 120 دنوں میں ہو جاتے ہیں تو یہ الیکشن غیرقانونی نہیں ہوگا۔‘

مدثر رضوی کے مطابق ’الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری ایک مہینے کے اندر اندر ہونی چاہیے لیکن وہ ایک ایک سال بعد ہوئی ہے تو جو ہو گئی ہے وہ غیرقانونی نہیں قرار دی جاتی۔‘