پاکستان کی اے کرکٹ ٹیم نے عمدہ کارکردگی کی بدولت ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو 128 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔
سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے گئے فائنل میچ میں انڈیا کی اے ٹیم کے کپتان یش دھول نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو ان کے لیے غلط ثابت ہوا۔
انڈیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی اور پاکستان نے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں پر 352 رنز بناتے ہوئے انڈیا کی اے ٹیم کو جیت کے لیے 353 رنز کا ہدف دیا۔
ہدف کے تعاقب میں انڈین اوپنرز نے پراعتماد انداز میں اننگز کا آغاز کیا لیکن پاکستان جلد ہی پہلی کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوا اور انڈیا کی پہلی وکٹ 64 رنز پر گر گئی۔
پاکستانی بولرز کے اٹیکنگ انداز نے انڈین بلے بازوں کو وکٹ پر جمنے نہ دیا اور انڈیا کی پوری ٹیم 224 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
ہدف کے تعاقب میں انڈین اوپنرز نے اننگز کا آغاز کیا اور پہلی وکٹ کے لیے 64 رنز بنائے لیکن سائی سدھرشن 29 رنز بنانے کے بعد ارشد اقبال کو وکٹ دے بیٹھے۔
اس کے کچھ دیر بعد نیکن جوس کی 11 رنز کی اننگز محمد وسیم جونیئر کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔
اس مرحلے پر ابھیشک کا ساتھ دینے کپتان یش دھول آئے اور دونوں نے ذمہ دارانہ کھیل پیش کرتے ہوئے تیسری وکٹ کے لیے 52 رنز جوڑے لیکن اس سے قبل کہ یہ شراکت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتی، سفیان مقیم نے 61 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلنے والے ابھیشک کو چلتا کیا۔
انڈین ٹیم کا مجموعی سکور 157 تک پہنچا ہی تھا کہ نیشانت سندھو بھی 10 رنز بنا کر آوٹ ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد انڈین اے ٹیم کے کپتان یش دھول بھی صرف 39 رنز بنانے کے بعد سفیان کو وکٹ دے بیٹھے۔
اس کے بعد پاکستانی بولر مہران ممتاز نے وکٹ کیپر دھروو جوویل اور ریان پراگ کی وکٹیں حاصل کر لی جبکہ سفیان مقیم نے ہرشت رانا کو آوٹ کر کے پاکستان کو آٹھویں وکٹ دلائی۔
راج وردھن بھی آتے ہی صرف 11 رنز بنا کر ارشد اقبال کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔
پاکستان کی جانب سے سفیان مقیم سب سے کامیاب باؤلر رہے جبکہ محمد وسیم جونیئر، ارشد اقبال اور مہران ممتاز نے دو، دو وکٹیں اپنے نام کیں۔
پاکستان کی اننگز
پاکستانی اوپنرز صائم ایوب اور صاحبزادہ فرحان نے میچ کے آغاز سے ہی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کی اور پاور پلے میں فیلڈ کا فائدہ اٹھایا اور 17 اوورز میں 121 رنز کی شاندار شراکت قائم کی۔
اس شراکت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب صائم 51 گیندوں پر سات چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 59 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔
صاحبزادہ فرحان نے 62 گیندوں پر چار چھکوں اور چار چوکوں کی مدد سے 65 رنز کی اننگز کھیلی۔
پاکستان کی ٹیم کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب 183 کے مجموعے پر عمیر بن یوسف کے آؤٹ ہونے کے بعد قاسم اکرم اور کپتان محمد حارث بھی یکے بعد دیگرے پویلین لوٹ گئے اور پاکستان کی اے ٹیم 187 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا بیٹھی۔
اس موقع پر ایسا لگا جیسے پاکستان کی اننگ جلد ہی ختم ہو جائے گی لیکن اس وقت پاکستانی بلے باز طیب طاہر نے آتے ہی وکٹ پر جارحانہ انداز سے انڈین بولرز کا مقابلہ کیا۔
انھوں نے نوجوان کھلاڑی مبصر خان کے ساتھ چھٹی وکٹ کے لیے 126 رنز کی شاندار شراکت بنانے کے ساتھ ساتھ عمدہ سنچری بھی سکور کی۔
وہ 71 گیندوں پر 12 چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے 108 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔
میچ کے اختتامی اوورز میں محمد وسیم جونیئر نے کچھ جارحانہ انداز اپنایا اور پاکستان اے ٹیم مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 352 رنز کا مجموعی سکور بورڈ پر سجانے میں کامیاب رہی۔
انڈیا کی اے ٹیم کی جانب سے ریان پراگ اور راج وردھن ہنگارگیکر دو، دو وکٹوں کے ساتھ کامیاب ترین بولر رہے۔
پاکستان اے نے میچ میں 128 رنز سے فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایمرجنگ ایشیا کے ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع بھی کر لیا۔
یاد رہے کہ 2019 میں ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایمرجنگ ایشیا کپ فائنل میں پاکستان کی اے ٹیم نے بنگلہ دیش کو 77 رنز سے ہرایا تھا۔ اس ٹیم کے کپتان سعود شکیل تھے۔
’اب بس بابر اعظم کا انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا انتظار ہے‘
پاکستان اے ٹیم کی جانب سے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں انڈیا کو شکست دینے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔۔۔کوئی آج دن اچھا ہونے کی بات کر رہا ہے تو کوئی ایک ہی دن میں کھیلوں کی دنیا سے پاکستان کے لیے دو بڑی خوشخبریوں کا ذکر کر رہا ہے۔
ایسے میں ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’اب تو میں بس بے صبری سے 15 اکتوبر کو انڈیا اور پاکستان کے میچ کا انتظار کر رہا ہوں۔ بابر اعظم پورے انڈیا کے سامنے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور ان کی صلاحیت پر یقین ہے کہ وہ اللہ نے چاہا تو جیت کر آئے گے۔‘
ایک جذباتی کرکٹ فین نے ورلڈ کپ 2023 کے پرومو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے ہمیں پرومو سے ہٹایا ہم نے آپ کو فائنل سے نکال باہر کیا۔‘
ایک صارف نے طیب طاہر کی عمدہ بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ’پہلے سعود شکیل اور اب طیب طاہر ہمیں بچانے والے ثابت ہوئے۔‘